خوف
کرونا کے تناظر میں خوف کا تحلیل و تجزیہ
خوف
تحریر: توصیف افتخار، لاہور
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْأ نْعَامِ مُخْتَلِفٌ ألوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إنَّمَا يَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ - 35:28
آج دنیا کی کثیر آبادی کرونا وباءکے خوف میں مبتلا ہے۔
اس مضمون میں ہم خوف کا تحلیل و تجزیہ کریں گے، کیونکہ فی الوقت کرونا بطور وباء حقیقت ہو یا نہ ہو، خوف ایک حقیقت بن کر حاوی ہو چکا ہے۔ دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب ہے اور کووڈ 19 کی وجہ سے اموات کی مبینہ تعداد 276373 ہے جو کہ کل آبادی کابہت کم حصہ بنتا ہے۔ یہ تعداد کسی مرض کو وباء کہنے کے لیے ناکافی ہے۔لیکن ہم اس بحث سے قطع نظر مرضِ خوف کی بات کرتے ہیں جو کہ فی الحقیقت دنیا کی اسی فیصد آبادی پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خوف سے کیا نتائج لیے جا سکتے ہیں؟
خوف نفس کا طبعی خاصہ ہے۔ نفسِ حیوانی ہو یا انسانی اس کی خصلت میں خوف پوشیدہ ہے۔ انسان اپنی حسیّات و عقلیات سے جتنا بھی علم حاصل کرتا ہے اس کا دائرہ مادی ہے- مادیت کے دائرے میں جس قدر بھی تعمّق سے کام لیاجائےگا انسان میں مادہ سے مرعوبیت ہی پیدا ہو گی۔ یہ مرعوبیت انسان میں مادی خواص کو ہی تقویّت دیتی ہے۔مادی خواص جیسے صورت، رنگ و بو اور نقش و نگار وغیرہ انسان کے مطمح نظر بن جاتے ہیں۔ انسان ظاہر بین بن جاتا ہے۔ وہ تمام امور اسی دائرے میں سر انجام دیتا ہے۔ عمدہ سے عمدہ گھر، نفیس سے نفیس لباس، اچھے سے اچھے کھانے کی حِرص پیدا ہو جا تی ہے۔ یہ حرص بڑھتے بڑھتے رفاہیتِ بالغہ پرعیش زندگی کی شکل اختیار کرتی ہے اور انسان اس مادی ترقی کو ہی معیارِ شرف ٹھہرا لیتا ہے۔ سرمائے سے انسان کا وہ تعلق پیدا ہو جا تا ہے کہ وہ اسے خدا بنا لیتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ اسے وہ طاقت دیتا ہے جس سے مادی وسائل اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ زعم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ہر چیز سرمائے سے خرید سکتا ہے۔ اس سرمائے کے بل بوتے پر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔ با الفاظِ دیگر سرمائے کو خدا بنانا ہی اپنی خواہشات کو خدا بنا نا ہے۔ یہی سرمایہ داریت ہے۔ انسان اعلٰی انسانی اقدار سے بے بہرہ ہو جا تا ہے۔ ایک حیوانی معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اس حیوانی معاشرے میں چند طاقتور سرمایہ دار ایک ایسا نظام تشکیل دیتے ہیں جو کثیر انسانوں کا استحصال کرتا ہے ان کی محنت پر غاصبانہ قبضہ کرتا ہے۔ یہ نظام مادہ پرستی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس ماحول میں ہر عام انسان مادی نفع چِھن جانے کے خوف میں مبتلاء ہوتا ہے اور حصولِ نفع کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ حاصل کلام مادہ سے مرعوبیت انسانوں کو مادی خوف میں جکڑ لیتی ہے۔ اور اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ مادی قوتوں کا خوف مسلط کرنا سرمایہ داری نظام کی بنیادی ضرورت ہے۔
سرمایہ دار مختلف مادی قوتوں کا خوف انسانوں پر مسلط کرتا رہا ہے۔
ایک دور جب سامراج کی حکمتِ عملی "لڑاؤ اور حکومت کرو" رہی تو اس میں بھی ایک قوم پر دوسری قوم کا خوف مسلط کر کے اپنے مقاصد لیتا رہا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایٹم بم سے دنیا کو خوف زدہ کرنے کے بعد وہ اس خوف کو کیش کرواتا رہا۔ اپنی قوم کو بھی اسی خوف میں مبتلاء کر کے سرمایہ دار ان پر بھاری جبری ٹیکسز لگاتا رہا۔ دنیا کی دیگر اقوام کا بھی اسی جنگی خوف کے ذریعے استحصال کرتا رہا ۔ سیٹو ، سینٹو جیسے معاہدات میں ڈرا کر اقوام عالم کو شامل کرتا رہا۔ اسلحہ کا کاروبار کرتا رہا۔ اس کی ادنٰی مثال پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی خوف پیدا کرکے دونوں ملکوں کی عوام کا پیسہ فلاحی مقاصد کے بجائے اسلحہ کی خریداری میں استعمال ہوتا رہا۔
وقت کے ساتھ نیا پینترا بدلا اور "دہشت گردی" کا خوف گھڑ لیا۔ گزشتہ دور میں جن مہروں کے بل بوتے پر اپنی جنگی حکمتِ عملی ترتیب دیتا رہا اب ان کی ضرورت ختم ہونے پر ان پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کر دیا اس خوف کے کاروبار میں بھی اپنا اسلحہ بیچ کر نفع کمایا ۔ اکیسویں صدی میں خوف کا کاروبار کرنے کے لیے مصنوعی وباؤں کا بت تراشہ گیا ہے۔ اس سے بھی اگر منافع کمائے گا تو صرف سرمایہ دار اور اس کی دوا ساز کمپنیاں۔
کسی بھی مادی قوت کے خوف میں مبتلاء ہونا انسان کو اس کے حقیقی شرف سے محروم کر دیتا ہے۔ انسان اللہ کا نائب ہے۔ تمام کائنات انسان کے لیے پیدا کردہ ہے۔ خوف تو انسانی نفس کا خاصہ ہے لیکن اس خوف کی شکل اخبات لِلہ ہونی چاہیے۔ امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخبات لِلہ وہ بنیادی خصلت ہے جو انسان میں علمی وعملی قوت پیدا کرتی ہے۔ اس بات کو مثال کے ساتھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان استاذسے علم اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب وہ اس کی حد درجہ عزت کرے۔ اس کی ناراضی سے ڈرے۔ عام مقولہ ہے با ادب با نصیب۔ ذات الٰہی جو علیم و خبیر ہے، علمِ حقیقی کا اصل منبع ہے وہ علم کی دولت بھی انہی قلوب پر منکشف کر تا ہے جو ذاتِ الہی کی طرف انتہائی عاجزی اور تواضع سے متوجہ ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسے خشیة بھی کہا گیا ہے لہٰذا انسان علم و اخلاق کی دولت سے بہرہ ور ہو کر منصبِ نیابت کی ذمہ داریوں کو پورا کر سکتا ہے۔ ایسے میں جو نظام انسانی معاشروں پر قائم کیا جائے گا وہ انسانوں میں مادی اسباب کا خوف پیدا نہیں کرتا بلکہ استغناء اور بے نیازی کا خلق پیدا کرتا ہے۔
مادی اسباب کی حِرص پیدا کرنے کے بجائے انہیں انسانی ضروریات پر صرف کرنے کو انسانی معراج اور کمال قرار دیتا ہے۔
انسان ظاہر بین ہونے کے بجائے اشیاء کی حقیقتِ سے آشنا ہو جا تا ہے،خوفِ مخلوقات سے نجات ملتی ہے، نظامِ غیب پر اس کا یقین بڑھتا ہے اور وہ سعادتِ حقیقی کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔
فلسفۂ خوف کو سمجھنے کے بعد اب ہم اس قابل ہیں کہ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ کیوں سرمایہ دارانہ سامراجی نظام مادی اشیاء کا خوف پھیلاتا ہے۔ خشیّتِ الٰہی کے بجائے خشیّتِ مخلوق پیدا کرنا اس نظام کا بنیادی تقاضا ہے۔ مادی خوف انسانی کی قلبی قوتوں کو سلب کر لیتا ہےاور فکری انتشار پیدا کرتا ہے۔ انتشارِ فکری ہی باطل قوتوں کی بقاء کا ضامن بنتا ہے، کیونکہ انتشارِ فکر ہی انتشارِ عمل کو جنم دیتا ہے۔ انتشارِ عمل اجتماعیت کو ختم کرتا ہے، انفرادیت کبھی خوف پر غالب نہیں آپاتی، اور یہ انفرادیت ہی خوف پیدا کرنے والی قوتوں کا آلہ کار بنا دیتی ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے یہ مادی خوف کا حملہ جہاں بہت سارے مادی مفادات کی حفاظت کرتا ہے وہاں انسان کو بنیادی انسانی شرف سے بھی محروم کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا کرنی چاہیے کہ فتنوں سے ہمیں محفوظ رکھے، فتنوں کو سمجھنے کا شعور عطا فرمائے ۔ اُن علماءِ حق کی اتباع نصیب فرمائے جن کے دل خشیّت الٰہی سے لبریز ہیں اور ان کے اعضاء وجوارح اطاعتِ حق میں مصروف اور اور اپنے دور میں انسانیت کے لیے مینارہ نور ہیں ۔