معاشرت اور نظریات پر ماضی کے اثرات
معاشرے میں افکار و نظریات پر غلامی کے اثرات
معاشرت اور نظریات پر ماضی کے اثرات
محمد بشیر، عارف والا
ہمارے گردو پیش میں یہ سوال موجود رہتا ہے کہ ماضی پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ گڑھے مردے نہ اکھاڑے جائیں۔ آگے کا سوچنا چاہیے۔ اس سوال پر غورو فکرکرتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کسی بھی سماج کی تشکیل کسی نا کسی فکر یا نظریہ پر ہوتی ہے۔ یہ نظریہ سماج کے ہر شعبے پر اپنے اثرات پیدا کرتا ہے۔برصغیر کی اقوام نے 250 سال سے زائد عرصہ اغیار کی حکومت میں گزارا۔ برطانوی سامراج نے اس معاشرے کو غلامی کی ذہنیت پر تعمیر کیا ۔اسی کا اثر ہے کہ معاشرے کا اکثریتی طبقہ مرعوبانہ ، تقلیدانہ ، بھیڑ چال جیسے رویے رکھتا ہے۔
برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد بھی یہ معاشرہ انہی بنیادوں پر قائم ہے جس کے نتیجے میں مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سماجی سیاسی اور معاشی نظریات بھی اپنا تسلسل کھوکر اصل بنیادوں پر قائم نہیں رہے ۔ان میں دور غلامی کے آثار موجودہیں۔ سیاست اور معیشت پر بات کریں تو ایک طبقہ موجودہ یورپی فرعونی سیاست اور معیشت کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتا ہے بلکہ اسےعین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کا جائزہ نہ لیں تو خرابی کا سبب کیسے جانیں گے؟ اور اگربے شعوری اور مرعوبیت میں مسائل کا حل ڈھونڈتے ہوئے انہی کے پاس جاپہنچے جو پچھلے اڑھائی سوسال سے اس سوسائٹی کو تباہ کررہے ہیں ؟ تو تباہی کا تسلسل برقرار رہے گا۔
اس حقیقت کو کھلے طور تسلیم کرنا چاہیے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اورمعاشرے میں فرقہ واریت اور امتیازات کی بنیاد پر بالادستی کا تصور یورپی دور کے اثرات ہیں۔ ماضی قریب میں اس خطے کی بنیاد تفریق اور تقسیم پر رکھی گئی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے تفریق اور تقسیم کا نظریہ تھا جو ہوا اور ہر جگہ تفریق اور تقسیم کی ذہنیت نے ڈیرے جما لیے۔ اب کہیں ذات برادری کی تقسیم ہے تو کہیں مذہب کی بنیاد پر۔ ملک میں افراتفری دراصل اسی فرسودہ نظریے کا نتیجہ ہے۔ جس پر معاشرہ قائم کیا گیا۔ پڑھا لکھا طبقہ اسی نظریہ کا تاج سر پر رکھ کر ملک وقوم کی ترقی اور تضادات کو ختم کرنے کا متمنی ہے مگر ماضی کے ان فرسودہ نظریات و افکار کے ساتھ چمٹے ذہن کا جائزہ نہیں لیتا۔ آج سماج کی تشکیل نو کے لیے ضروری ہے کہ ان نظریات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تا کہ صالح اور مضر عنصر علیحدہ ہو جائیں۔ اس طرح صالح عنصرکو اپنالیں اور مضر سے بچ جائیں۔
محمد بشیر، عارف والا
ہمارے گردو پیش میں یہ سوال موجود رہتا ہے کہ ماضی پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ گڑھے مردے نہ اکھاڑے جائیں۔ آگے کا سوچنا چاہیے۔ اس سوال پر غورو فکرکرتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کسی بھی سماج کی تشکیل کسی نا کسی فکر یا نظریہ پر ہوتی ہے۔ یہ نظریہ سماج کے ہر شعبے پر اپنے اثرات پیدا کرتا ہے۔برصغیر کی اقوام نے 250 سال سے زائد عرصہ اغیار کی حکومت میں گزارا۔ برطانوی سامراج نے اس معاشرے کو غلامی کی ذہنیت پر تعمیر کیا ۔اسی کا اثر ہے کہ معاشرے کا اکثریتی طبقہ مرعوبانہ ، تقلیدانہ ، بھیڑ چال جیسے رویے رکھتا ہے۔
برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد بھی یہ معاشرہ انہی بنیادوں پر قائم ہے جس کے نتیجے میں مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سماجی سیاسی اور معاشی نظریات بھی اپنا تسلسل کھوکر اصل بنیادوں پر قائم نہیں رہے ۔ان میں دور غلامی کے آثار موجودہیں۔ سیاست اور معیشت پر بات کریں تو ایک طبقہ موجودہ یورپی فرعونی سیاست اور معیشت کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتا ہے بلکہ اسےعین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کا جائزہ نہ لیں تو خرابی کا سبب کیسے جانیں گے؟ اور اگربے شعوری اور مرعوبیت میں مسائل کا حل ڈھونڈتے ہوئے انہی کے پاس جاپہنچے جو پچھلے اڑھائی سوسال سے اس سوسائٹی کو تباہ کررہے ہیں ؟ تو تباہی کا تسلسل برقرار رہے گا۔
اس حقیقت کو کھلے طور تسلیم کرنا چاہیے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اورمعاشرے میں فرقہ واریت اور امتیازات کی بنیاد پر بالادستی کا تصور یورپی دور کے اثرات ہیں۔ ماضی قریب میں اس خطے کی بنیاد تفریق اور تقسیم پر رکھی گئی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے تفریق اور تقسیم کا نظریہ تھا جو ہوا اور ہر جگہ تفریق اور تقسیم کی ذہنیت نے ڈیرے جما لیے۔ اب کہیں ذات برادری کی تقسیم ہے تو کہیں مذہب کی بنیاد پر۔ ملک میں افراتفری دراصل اسی فرسودہ نظریے کا نتیجہ ہے۔ جس پر معاشرہ قائم کیا گیا۔ پڑھا لکھا طبقہ اسی نظریہ کا تاج سر پر رکھ کر ملک وقوم کی ترقی اور تضادات کو ختم کرنے کا متمنی ہے مگر ماضی کے ان فرسودہ نظریات و افکار کے ساتھ چمٹے ذہن کا جائزہ نہیں لیتا۔ آج سماج کی تشکیل نو کے لیے ضروری ہے کہ ان نظریات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تا کہ صالح اور مضر عنصر علیحدہ ہو جائیں۔ اس طرح صالح عنصرکو اپنالیں اور مضر سے بچ جائیں۔
کوئی قوم اپنے ماضی کو کھرچ نہیں سکتی۔ قوم کا ماضی اس قوم کے جسم اور روح کا حصہ ہوتا ہے جسے بغیر مہارت علیحدہ کرنا قومی معذوری کا باعث بنتا ہے۔ اپنے ماضی سے فرار کے بجائے اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ اس پر غوروفکر کر کے ماضی کی کوتاہیوں کو تلاش کیا جائے۔ قوموں کے عروج و زوال کے اصولوں پر ان کو پرکھ کر مستقبل کا رخ متعین کیا جائے۔ ان نظریات کا تجزیہ کیا جائےجو قوم کو وحدت کی بنیاد پر تعمیر کرے۔ بصورت دیگر ہم ناصرف اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سامراجی چاکری کے علاوہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ نوجوانوں میں تنگ نظری اور انفرادیت پسندی انگریز دور کی فرسودگی ہے جس سے چمٹے رہنا کوئی دانش مندی نہیں ۔انہیں چاہیے اپنے دل دماغ میں کل انسانیت کی گنجائش پیدا کریں ۔صرف اور صرف اسی صورت میں وہ ناصرف قوم کی بلکہ دین کی عظمت کو بحال کر سکتے ہیں۔