انسانی مسائل کا حل؛ بوسیدہ اورفرسودہ عالمی نظام کا خاتمہ
فتنہ کرونا کی وجہ سے آج وقت کی یہ پکار ہے کہ سامراجی نظام کو شعوری بنیادوں پر سمجھ کر اس کے خاتمے کے لئے ایک منظم شعوری انقلابی جدوجہد کی جائے۔
انسانی مسائل کا حل؛ بوسیدہ اورفرسودہ عالمی نظام کا خاتمہ
تحریر:محمد داؤد خان،،پشاور
دنیا کے موجودہ حالات کسی نئے فتنے کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں۔جس کاکنٹرول سامراجی قوتوں کے پاس ہے۔یہ وقت،اہل عقل کو چیخ چیخ کر پکاررہا ہے کہ آؤ دیکھو !دنیا کو دوبارہ جہنم کدہ بنایا جارہا ہے۔اگر تمہاری بے شعوری اور غفلت کی نیند پوری ہوئی ہو ، غلامی، ذلت اور پستی کا احساس ہوا ہوتو آؤتھوڑا شعور کا دیا جلائیں،تاریخ کا حکیمانہ اسلوب پہ مطالعہ کریں، حقائق کے متلاشی بنیں،مسائل کی جڑ تلاش کریں، سامراج اور طاغوت کی چالوں اور ہتھکنڈوں کو سمجھیں۔ان سامراجی سرمایہ دار قوتوں کا تجزیہ کریں جو ایک فیصد ہوکردنیا کی 99 فیصد دولت کے مالک بنےبیٹھے ہیں ۔جواپنے انسان دشمن مفادات اور گھناؤنے سامراجی مقاصد کے لیے دنیا کوتگنی کا ناچ نچاتے رہتے ہیں۔جن کی مخالفت کرنے والے ممالک کو دنیا کےنظاموں سے خارج کردیاجاتا ہے۔جس ملک میں انسان دوست نظام ہو یا ان کے دائرہ سے ہٹ کر ترقی ہورہی ہو تو وہ انہیں کھٹکتی ہے۔اس ملک کو کسی بھی قیمت پر تباہ وبرباد کرنے کے لیے ہر ناجائز طریقہ اپنانے سے نہیں کتراتے۔ سرمایہ داریت کے خلاف کسی سیاسی نظام کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قوم آزاد ہوجائے اور ان کی بالادستی کے لیے خطرہ بن جائے ۔
اس عالمی سامراج کی ایک لمبی تاریخ ہے۔کالونی ازم ہو یا جدید کالونی ازم ،جاگیرداروں کی سرپرستی ہو یا سرمایہ دارانہ نظام، سامراج نے ہر دور میں ظلم اور سفاکی کے ریکارڈ بنائے ۔دنیا کی دولت لوٹنے،دنیا کا سکون برباد کرنے اور لوگوں کو اپنے پیروں تلے روندنے میں انہی کا استعماری کردارہے۔ خام مال کے حصول اورمارکیٹ پر قبضہ کے لیے ، جنگیں مسلط کیں ، اپنے ظلم و جبر کو برقرار رکھنے میں کروڑوں انسا نوں کا خون بہایا۔ سرد جنگ کی طرف بڑھے۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے دنیا کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر عراق، افغانستان اور لیبیا،شام کے قومی نظاموں کو تہس نہس کردیا۔عسکریت اور شدت پسند تنظیموں کو پال پوس کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔
جب دنیا ایک حربے کو جان لیتی ہے تو یہ سامراج دوسرے حربے کی طرف پیش قدمی کرلیتا ہے۔اب دنیا کو مزید تاریکیوں میں رکھ کر اس کو دوبارہ اندھا بنایا جارہا ہے۔کرونا فتنے کی آڑ میں بائیولاجیکل وار کا آغاذ کردیا گیا ہے۔تاریخی حقائق ملاحظہ ہوں تو جتنے بھی خطرناک وائرس ہیں، اس کا تعلق انہی کی لیبارٹریوں سے جڑتا نظر آتا ہےجو تیاری کے بعد انسانوں پر آزمائے جاتے رہے ہیں۔ ایڈز بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ اب کرونا وائرس COVID.19 بھی چین،ایران کے علاوہ تیسری دنیا کے کمزور ممالک کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کررہاہے۔ پوری دنیا کی تجارت اور معیشت کو بند کردیا گیا ہے۔ استعمار کا پالا پوسا ہوا مادر پدر آزاد میڈیا خوف اور دہشت کو ہوا دے رہا ہے۔ عالمی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سے ادویات ، سینیٹائزر، ماسک، ویکسین اور دیگر چیزوں کا دھندہ جاری ہے۔ انسانوں کا خون چوسنا اور ان کو ماردینا ان کا پسندیدہ کھیل ہے۔ بقول ان کے کہ دنیا کی آبادی زیادہ ہوئی ہے کم کرنے کی ضرورت ہے ۔دنیا کو آزمائش اور بیماری کا کہہ کر احتیاطی تدابیر اپنانے میں مصروف کیا گیا ہے۔
آج وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس فتنے کو سمجھیں کہ یہ فتنہ اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام کا پروردہ ہے۔ فتنے سے فرار اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی وجوہات کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ ظلم کےمقابلےمیں عدل کے نظام کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ اپنے حالات سدھارے جاتے ہیں۔
چھو منتر اور بددعاؤں سے فتنہ ختم نہیں ہوگابلکہ اس کےخاتمے کے لیے عملی جدوجہد اور باشعور اجتماعیت کا قیام عمل میں لاکر اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔آج کا سب سے بڑا بت سرمایہ داریت ہے ۔مسائل،غربت،بے روزگاری،بھوک و افلاس، غلامی،استحصال،پستی، ذلت، دہشت گردی،خوف ، بد امنی اور ظلم کی جڑ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔دنیا میں اس وقت تک امن اور خوشحالی نہیں آسکتی جب تک یہ سرمایہ پرست سامراجی نظام دنیا پر مسلط رہے گا۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جب دنیا میں اسلام کا غلبہ تھا تو دنیا میں بلا تفریق رنگ، نسل ،مذہب سارے انسانوں کو بنیادی حقوق فراہم تھے۔مسلم تاریخ میں نہ بےرحم عالمی جنگیں ہوئیں اور نہ لوگوں کا بےدریغ قتل عام کیا گیا ۔
اس لیے پہلے درجے میں قومی سطح پرسامراجی نظام کے خاتمے کے خلاف منظم شعوری جدوجہد کرنی ہوگی۔قومی و بین الاقوامی نظام کے قیام کے لیے ایک اعلی باشعور قیادت کو تیار کرنا ہوگا۔سرمایہ داریت اور اشتراکیت کے متبادل اسلام کا معاشی ،سیاسی اور سماجی نظام بنانا ہوگا۔اس پرانے فرسودہ نظام کو حضرت الامام شاہ ولی اللہؒ کے اصول فک کل نظام(یعنی اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑدو) کے اصول پراس کی فرسودگی و بوسیدگی سمیت نکال باہر کرنا ہوگا ۔دنیا کو آج عادلانہ اصولوں پر،امن وا مان اور سماجی انصاف پر مبنی ایک ایسے نظریے کی ضرورت ہے جو دنیا سے استعمار کا بستر گول کرنے میں بنیاد بنےاور عالمی سطح پر انسانوں کے تحفظ کا نظام قائم کرے۔