کرونا اور قوت مدافعت
کرونا سے زیادہ اج اس کے ڈر کو ختم کرنے اور قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے
کرونا اور قوت مدافعت
تحریر: محمد اشفاق خٹک،میانوالی
موجودہ دور میں کورونا کے حوالہ سے ہر ایک پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ یہ انسانی جسم اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بے مثال اور غیر معمولی نعمت ہے ۔ اس حوالے سے لاپرواہی برتنے والے احباب کو یہ بات پیش نظر رکھنی چا ہیے کہ روز جزا تمام کیے گئے اعمال کی باز پرس کے ساتھ ساتھ جسم اور اس کے حصوں کا سوال کاکردگی اور حفاظت دونوں کے اعتبار سے ہوگا سو اس کی قدردانی لازم ہے ۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے بےشک تیرے جسم کا بھی تیرے اوپر حق ہے ۔
اسی جسم کی حفاظت کے حوالے سے اپنے شعبے کے ماہرین ڈاکٹرز، حکماء، طبیب،نرسز ،پیرامیڈیکل سٹاف اور دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جیسے ریسکیو اہلکار،اساتذہ، پولیس اور رضاکاران بار بار اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر عوام کی خدمت اور تابعداری میں مسلسل لگے ہوۓ ہیں
ان کی یہ مثالی خدمات قابل تحسین ہیں۔ ۔ لیکن عوام ہے کہ انجام کی پرواہ کیےبغیر سڑکوں اور چوکوں پر پھر رہی ہے ۔ کیوں ؟
کیا ان کو اپنی جان کی فکر نہیں ۔۔۔ ایسا بلکل نہیں بلکہ دیگر وجوہات ک ساتھ ساتھ ایک بڑی اہم وجہ معاشی مسائل بھوک ، اور وسائل معاش سے محرومی اور ملک کی آدھی سے زائد عوام کا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنا ہے۔
اولاد کا خوراک کے لیے بلکنے کی آواز کا درد وہ باپ ہی بتا سکتا ہے جس نے خود فاقہ دیکھا ہواور اپنے جگر گوشوں کو بھی سے بلکتے دیکھا ہو ۔پیداہوتےہی سونے کے چمچ سے گھٹی پینے والے، اس درد کو سمجنے سے قاصر ہیں ۔ شائد۔۔۔
کرونا کے علاج کے لیے حفاظتی تدابیر یعنی ہاتھ دھونا سیناٹائزر کا استعمال اورساتھ میں وٹامن سی یعنی سٹرس پھل مالٹا,سنگترہ , کینو اور ان کا جوس بتایا جا رہا ہے ۔جس سے انسان کے اندر اللہ کی بنائی ہوئی فوج کو تقویت ملتی ہے جس کو نظام مدافعت یا امیون سسٹم کہا جاتا ہے مزید برآں پانی کا استعمال ہرے پتوں والی نباتات یعنی کہ سبزیاں اور ان کا عرق بھی مؤثر ہے۔۔
بتانے والوں نے بتا دیا سننے والوں نے سن لیا اور بعض درد دل رکھنے والوں نے سوشل میڈیا کے حوالے کر دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ وہ لوگ جن کو دو وقت کا کھانا بنیادی ضروریات زندگی میسر نہیں وہ کہاں سے چکھیں سٹرس فروٹ کے مزے ؟ کیونکہ ان کا امیون سسٹم تو سرمایہ داروں کےبنائے ظالم نظام کے مرہون منت ہے جس پر کوئی بحث اور کردار نظر نہیں آتا ۔ اگر کسی نےایسا کیا تو ان کو سلام کرنے والے آلہ کار کہاں سے ملیں گے اور اگر اس سسٹم کی وجہ سے غریب اپنی غربت میں ظلم و زیادتی کی وجہ سے پستی ذلت اور رسوائی کے سمندر میں دھنستا جائے تو اسے اس کا مقدر بتا کر ابدی طور پر مایوس کر دیا جاتاہے اور ہاتھ پھیللانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اگر کبھی انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھ بھی جائے تو سستی نیکی کی شھرت کے لیے کیمرہ ساتھ لے جانا نہیں بھولتے اس سے بڑھ کر ذہنی پستی اور کیا ہو سکتی ہے
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں انسانیت عامہ اور ملکوں اور قوموں پر مصیبتیں آئیں ہیں تو جن اقوام نے حالات کاڈٹ کر مقابلہ کیا تو وہ کامیاب ہوئی ہیں اس کی تازہ مثال موجودہ وباء سے نمٹنے کے لیے چائینہ نے قائم کی۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس مشکل وقت میں ڈاکٹرز اور دیگر درد دل رکھنے والے اداروں کا ساتھ ، اپنی نسل ملک اور قوم کی بقاء کے لیے دینا چاہیے تاکہ قومی واجتماعی زندگی کی مثال قائم ہو سکے،
کیوں کہ بقول شاعر
فرد قائم ہے ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں