ترقی کی جدوجہد اور نظریہ کی ضرورت
قوموں کی ترقی ان کے نظریات میں مضمر ہے جس قدر اونچا نظریہ ہوتا اس قدر قوم با وقار اور اعلی ظرف ہوتی ہے
ترقی کی جدوجہد اور نظریہ کی ضرورت
تحریر: محمد اشفاق خٹک، میانوالی
انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ قدرتی ماحول کی طرف رغبت رکھتا ہے اور اسی قدرتی ماحول کی کشش ہے کہ انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ ضروری اور ناگزیر تقاضوں کی کمی کو محسوس کیا اور خود کو اس کےسانچے میں ڈھالا۔
انسان نے جس سادگی سےاپنی زندگی کا آغاز کیا اس پر گفتگو سے پہلے یہ سمجھنا لازم ہے کہ انسان روح اور جسم کا مرکب ہے اور اسی بنیاد پر اس کو بہیمی اور ملکوتی خصوصیات حاصل ہیں۔
انسان جب روح اور جسم کا مرکب ہے تو اب اس کی ضروریات بھی اسی حوالہ سے ہیں روح کی خوراک ما دی غذا نہیں بلکہ اس کی غذا اور سکون ذکر و فکر الہی ہے جس کی طرف سے یہ آئی اور جس کی طرف اس نے لوٹ کر جانا ہے ۔
جسم کا تعلق مادی خوراک سے ہے جس سے جسم توانائی حاصل کرتا ہے اور پھر اس توانائی کو بروئےکار لا کر اس میں عمدگی پیدا کرتا ہے۔
یہ توانائی اس کائنات میں موجود ہے اور انسان اس کے ذریعے سے کبھی تو انسانیت کی خدمت کر کےخود کو اخلاق کے اعلی نمونے تک لے جاتا ہے اور کبھی اسی کی بنیاد پر اپنی جیسی دیگر اقوام کو اپنا غلام بنا کر جانور یا شاید اس سے بھی اضل اور بد تر ہو جاتا ہے۔
آج یورپ پوری دنیا میں خود کو ترقی کا علمبردار کہتا ھےلیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس ترقی میں انسانیت کی بھی ترقی اور معیار بلند ہوا ہے تو عام سطحی ذہنیت یہ ھے کہ یہ دنیا مومن کے لیے قیدخانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ۔اور دوسری طرف ایسا گروہ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے مسلمان اس قابل نہیں کہ کچھ کریں ۔ تیسری دنیا کےممالک ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔
کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہمارے ملک کے نوجوان جو دیگر تعلیمی اسناد کے لیے اپنے ملک کو چھوڑ کر وہاں کردار ادا کرتے ھیں ۔۔۔ آج اگر ان بچوں کو اپنے ملک میں مواقع ملتے تو شائد کبھی بھی نہ جاتے لیکن ایساکرنےکے لیے پہلے ہمیں اپنا تعلیمی نظام طبقاتیت سے پاک کرنا ہو گا تا کہ ملک کے ہر باشندے کی سوچ میں یکسوئی آئے۔
کیونکہ ترقی کے لیے قوم کے شعور کااعلی ہونا فکر کی بلندی اور آزادی وحریت کا نظریہ نا گزیر ہے
علم کا مطلب محض ڈگری کا حصول نہیں ہوتا علم تو روشنی پیدا کرتا ہے جس سے دل دماغ اور عقل کی ترقی کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں اور یہ اسی علم کا نتیجہ ہے کہ انسان اس پتھر کے دور سے نکل کر آج کے ڈیجیٹل دور میں موجود کائنات کی تسخیر میں لگا ہوا ہے۔
اب اگر ہم وطن عزیز کا عمیق نگاہ سے مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پچھلے ستر اکہتر سالوں سے ہم بتدریج پیچھے کو جا رہے ہیں کیونکہ کوئی قوم یا نسل صرف اسی صورت میں ترقی کر سکتی ھے جب وہاں کے مقتدر طبقہ اور اہل دانش کی سوچ کل انسانیت کو پروان چڑھانے کی ہو اور ہر عمل کے لیے پوری قوم کا بیانیہ ایک ہو جبکہ آج پوری قوم پہلے مذہب کی بنیاد پر تقسیم ھے۔ اھل سیاست کی بڑی تعداد ہے جو اپنے حصے کے پانچ سال پچھلی گورنمنٹ پر الزامات لگا کر گزارا کرتی ہے۔تو اس طرح کے ناساز ماحول میں تو معاشرہ جمود ہی کا شکار ہوتا ہے۔
اج کا دور سپیشلائزیشن کا دور ہے اور یہ موجودہ دور کا تقاضہ ہے اسلیے آج جب ہم اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ انسانیت کی کامیابی مسلمان قوم کے اپنائے ہوے نظریہ سے ہی ممکن ہے تو پھر اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی کس روش اور کن نظریات سے روگردانی کی ہے جس کی وجہ سے پستی کا شکار ھیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ یے کہ اقوام آئین اعلی اصولوں اور ان پہ عملدرآمد کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں۔
انسان کی شخصیت کی معراج نظریہ کی بلندی ہے جس کی بنا پر ایک صالح ,بے لوث اور منظم اجتماعیت کا وجود عمل میں آتا ہے اور اس اجتماعیت کا کردار بغیر کسی رنگ نسل کے امتیاز کے ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا ہو تا کہ امن خوشحالی اور عدل و انصاف کے نظام کو عمل میں لایا جائے اور اس تاریک رات کو سحر نصیب ہو۔