وقت کا درست استعمال کیا ہے؟بینجمن فرینکلن اور امام غزالی کے تصورات کا جائزہ
کیا وقت کا تصور سب کے ذہن میں ایک جیسا ہے؟ وقت کے متعلق ان اہم سوالوں کے جواب تلاش کر کے ہم اپنی زندگی کو ایک بہتر رخ دے سکتے ہیں۔
وقت کا درست استعمال کیا ہے؟ بینجمن فرینکلن اور امام غزالی کے تصورات کا جائزہ
تحریر: ملک محمد سہیل، فیصل آباد
کیا وقت کا تصور سب کے ذہن میں ایک جیسا ہے؟ کیا لمحات، منٹ، گھنٹے، ہفتے، مہینے اور سال ہم سب کے لیے یکساں اہمیت رکھتے ہیں؟ کیا وقت کا تجربہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف احساسات اور نتائج رکھتا ہے؟ کیا ثقافت، طرزِ زندگی اور شعوری سطح وقت سے متعلق ہماری رائے اور رویوں پراثرانداز ہوتے ہیں؟ وقت گزارنے سے متعلق مختلف نظریات کو ہم کس بنیاد پر اچھا یا برا قرار دے سکتے ہیں؟ کیا مناکو، مکاؤ، ہانگ کانگ اور جاپان میں رہنے والے انسان زندگی کےاوقات کو سینٹرل افریقن ریپبلک، چاڈ اورنائجیریا کے باشندوں کی طرح دیکھ سکتے ہیں؟کیا مختلف معاشروں میں پیدل چلنے، کھاناکھانے اور کتابیں پڑھنے پے یکساں وقت صرف کرتے ہیں کیا انکے لئے وقت کی اہمیت یکساں ہے؟ کیا ایک پروانہ اور کچھوا زندگی کو ایک طرح سے دیکھ سکتے ہیں؟ وقت کے متعلق ان اہم سوالوں کے جواب تلاش کر کے ہم اپنی زندگی کو ایک بہتر رخ دے سکتے ہیں۔
وقت ہماری زندگی کے واقعات کو ایک سمت دیتا ہے۔ ہمارا ماضی، حال اور مستقبل سب وقت کے دھاگے میں بندھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں رائج مختلف ثقافتوں میں وقت کو بیان کرنےاور گزارنے کے حوالے سے مختلف طریقہ کار رائج ہیں۔ پہلا طریقہ ’گھڑی کا وقت‘ (clock time) جبکہ دوسرا طریقہ ’واقعہ کا وقت‘ (event time) کہلاتا ہے۔ گھڑی کا وقت (clock time)، وقت کی وہ قسم ہے جس سے ہم سب سے زیادہ واقف ہیں۔ گھڑی کا لکیری ٹائم باقاعدہ طے شدہ اکائیوں ( گھنٹوں، منٹس اور سیکنڈز)میں تقسیم ہوتا ہے اور مکینیکل (اور اب ڈیجیٹل) ٹائم پیس کے ذریعے ماپا جاتا ہے۔ گھڑی کے وقت کی پیروی کرنے والی ثقافتوں میں ، گھڑی مختلف اعمال سے متعلق فیصلہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے ۔ کب کوئی سرگرمی (مثلاً یونیورسٹی کا لیکچر ، بچوں کی پارٹی ، رات کی نیند) شروع ہوگی اور کب ختم ہوگی،ان سب باتوں کا فیصلہ گھڑی کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ ثقافتیں جو واقعہ کے وقت(event time) پر چلتی ہیں، وہ وقت کے بارے میں سوچنے کا ایک پرانا طریقہ کار اختیار کرتی ہیں اور قدرتی مظاہر اورواقعات کے حساب سے روزمرہ سرگرمیوں کو سر انجام دیتی ہیں۔ آج بھی روایتی معاشروں میں کاشتکاری میکانکی گھڑی کی بجائے قدرتی عوامل مثلاً گائے بھینسوں کےچرنے کو نکلنے، صبح کی روشنی پھیلنے اور مرغ کے اذان دینے جیسے واقعات کے مطابق کی جاتی ہے۔
مگر جدیدیت ہمارے باقی طرزِ زندگی کی طرح وقت سے متعلق ہماری سوچ اور رویے بھی تبدیل کررہی ہے۔ جدید تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ افراد میں کارکردگی کے لحاظ سے’گھڑی کے وقت‘ اور’واقعہ کے وقت‘ کے مابین کوئی فرق نہیں۔ جرنل آف پرسنالٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی کی ایک تحقیق کے مطابق گھڑی کے وقت (clock time) کے حساب سے چلنے والے افراد، واقعہ کے وقت (event time)کے حساب سے چلنے والے افراد کی نسبت مثبت جذبوں کو کم محسوس کر پاتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ جب ایک شخص کی نگاہ ہر پل گھڑی کی سوئی پر ہو تو وہ لمحہِ موجود اور کسی بھی کام کا لطف محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وقت کی ایک اور قسم ’نفسیاتی وقت‘(psychlogical time)بھی ہے۔ یعنی جب کوئی شخص ذہنی طور پر ہمیشہ اُس حالت میں رہے جو وہ بننا چاہتا ہو (مثلاً ایک ملازم ہر وقت کسی بہتر اور زیادہ تنخواہ والی نوکری کے متعلق سوچتا رہے)۔اس حالت میں رہتے ہوئے انسان اپنے حال کو نتیجہ خیز نہیں بنا پاتا۔
اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو اکثر لوگ عجیب سی جلدی میں نظر آئیں گے۔ ہمیں اپنے کام تیزرفتاری سے نمٹانے کی فکر ہے کیونکہ آج کی تیزرفتار دنیا میں پیچھے رہ جانے کا خوف ہمیں بے چین اوربےصبرکیے ہوئے ہے۔ مستقبل کا خوف اور حد سے زیادہ بے چینی ہمیں زندگی کے مقاصد اوراپنے نفس کے محاسبے پہ غوروفکر سے دور رکھتی ہے۔ مشہور جرمن دانشور اور روحانی مفکر Eckhart Tolle کے مطابق ’لمحہِ موجود‘ میں ہی روحانی خوشی اور خودی کی بیداری کا راستہ پنہاں (چھپا ہوا)ہے۔
آج وقت کو ہم معاشی حیثیت سےسوچنے لگے ہیں۔ ”وقت پیسہ ہے “ یعنی (time is money) کی سوچ نے انسان کو شدت کے ساتھ وقت کا صحیح مصرف صرف معاشی پیداوار اور مادی نتائج کے حصول میں لگانے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ نظریہ مابعد جدید (postmodern) اور صارفیت(consumerism) پرمبنی معاشروں (حقیقت میں یہ منافع سرمایہ داروں کا ہے نہ کے معاشروں کا) کا خاصہ ہے۔ وقت کو (مالی طور پر)منافع بخش بنانے کی سوچ دنیا بھر میں پروان چڑھائی گئی ہے جس کے نتیجے میں منافع سے خالی وقت ’ضائع‘ تصور کیا جانے لگا ہے۔
اٹھارہویں صدی کا امریکی دانشور بنجمن فرینکلن (1706ء تا 1790ء) وقت سے متعلق جدید رجحانات اور اسکی نئی اخلاقیات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ’کوئی وقت ضائع نہیں کرنا‘، ’ ہمیشہ کوئی مفید کام کرو‘، ’تمام غیر ضروری کاموں کو ختم کردو‘، یہ اور اس جیسے ملتے جلتے جملوں کا ماخذیہی طرزِفکر ہے۔ ’مفید‘ سرگرمی سے فرینکلن کی مرادمحض معاشی طور پر نتیجہ خیز کام ہے۔
وقت کو ہر لمحہ نتیجہ خیز (مفید) بنانے کے بارے میں سوچنا فطری بات ہے مگر وقت کی معاشی اہمیت اور اس کا پیداواری استعمال ایک حالیہ رجحان ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کے ساتھ گہرائی سے جڑا ہوا ہے ۔ آج ہم نے منٹ اور سیکنڈ کی پیمائش کرنے کی تکنیکی صلاحیت حاصل کرلی ہے اور وقت پر قابو پانے کی انسانی خواہش کو فطرت کے قریب بنا کے پیش کیا جار ہا ہے۔
ایسی صورتحال میں کچھ لوگ ڈچ تصور’نکسن-Niksen‘ (کچھ نہ کرنا) کو اپنانے کے لئے دلائل دیتے ہیں۔نکسن کو کام کے تناؤ اور ڈپریشن کے مسائل سے نمٹنے کے ایک طریقے کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے1932ء میں لکھے گئے اپنے مضمون ’بےکاری کی تعریف میں‘ میں اس نظریے پر کڑی تنقید کی جس نے مغرب میں(محض معاشی) کا م کو ”نیک عمل“ قرار دیا۔ رسل کا ماننا تھا کہ صنعتی ترقی کے نتیجے میں کام کم ہونا چاہیے، تفریحی وقت کا عقلمندانہ استعمال انسانی زندگی کو زیادہ بہتر اور اطمینان بخش بنا سکتا ہے اوربہت زیادہ کام کرنے کا رویہ انسانی زندگی کیلئے مفید نہیں۔ رسل کی خواہش تھی کہ اچھے نوجوانوں کو(اپنی ذات اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کی بجائے) ”کچھ نہ کرنے“ کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ ایک دائرہ ہے ،اس دائرے کو درست یا غلط افعال سے بھرا جاسکتا ہے یا پھرخالی چھوڑا جاسکتا ہے۔
امریکہ کے نامور دانشوراورفلسفی Josiah Royce کے مطابق ہم اپنی زندگی کیلئے جو مقاصد طے کرتے ہیں وہی ہماری ذات اور شخصیت کی بنیاد ہیں۔ ’میں کون ہوں؟‘، اس سوال کا جواب میری زندگی کے مقاصد کو سمجھے بغیرممکن نہیں۔ لہذا ایک فرد کی ذات کی تعریف اسکی اپنی زندگی سے متعلق مقاصد اور منصوبہ بندی کے ذریعے پہچانی جا سکتی ہے۔ Royce نے زور دے کر کہا کہ بےمقصد زندگی کی مثال ایک ایسے برتن کی طرح ہے جو اپنے اندر موجود پانی کے بخارات بن کر اڑ جانےکے بعد خالی رہ جاتا ہے۔
عظیم فرانسیسی مفکر Micheal de Montaigne بھی خدا اور انسانوں کے لئےوقت مختص کرنے کے سوال کی اہمیت پہ زور دیتا ہے۔ وہ ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ ’میں نے آج کچھ نہیں کیا، کیوں؟‘، ’میں نے آج کا دن کیوں نہیں جیا؟‘۔ یہاں فرانسیسی مفکر کی مرادمحض جسمانی طور پہ جینا نہیں بلکہ با مقصد جینا ہے ۔ Montaigne کے نزدیک زندگی میں سکون اور ٹھہراؤ، جنگوں اور دولت کے ڈھیر جمع کرنے جیسے کاموں سے کہیں بہتر ہے ۔
یہاں گیارہویں صدی کے ایک اہم مسلم مفکرابوحامد الغزالی (1058ء تا 1111ء) کے نقطہ نظر پر غور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ غزالی وقت سے جڑے انسانی رویوں کے متعلق تاریخی سوالات اور ان کے تہذیبی ارتقاء کی تاریخ کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیں اِس اہم ترین سوال کہ’ وقت سے متعلق ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے؟‘، کا جواب بھی دیتے ہیں۔ غزالی اپنی شہرہ آفاق کتاب’احیاء العلوم الدین‘ میں ”زندگی گزارنے کے فن“ کے بارے میں اپنے خیالات کا احاطہ کرتے ہوئے ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں کہ’ہمارا کن باتوں پہ ایمان ہونا چاہیے‘ ، ’ہمیں خدا اور انسانوں سے جڑے کاموں(حقوق و فرائض) کو کس طرح ادا کرنا چاہئے‘ اور ’ہمیں کیسا انسان ہونا چاہئے‘۔ خصوصا ً یہ کہ ’ہمیں اپنے کردار میں کن خوبیوں کو پروان چڑھانا چاہیے‘ اور’ کن باتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کرنی چاہیے‘۔
اگرچہ دمشق کی اموی مسجد میں نصب مشہور پانی سےچلنی والی گھڑی ’جیرون‘ ، غزالی کی زندگی کے بعد تعمیر کی گئی ،لیکن اسلامی دنیا میں عباسیہ خلافت کے اوائل سے ہی پانی سے چلنے والی گھڑیاں تعمیر ہونا شروع ہوچکی تھیں۔ دسویں صدی کی اموی مسجد میں وہاں ایک عوامی گھڑی تھی جس میں گھنٹوں کے گزرنے کا حساب بھی موجود تھا۔ یوں وقت کو ان چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کیا جارہاتھا۔ ان معلومات سے غزالی کے عہد میں اوقات کی تقسیم کےنظام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نفس کے محاسبے کیلیےغزالی بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کو صبح اٹھ کر اپنے آپ سے مخاطب ہوناچاہیے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے غزالی ایک کاروبار کی مثال دیتے ہیں جس میں انسان اور اس کے کاروباری ساتھی مل کرکام کرتے ہیں۔غزالی کے مطابق جیسے ایک تاجر اپنے ساتھی (یا ماتحت) کو کاروبار کے متعلق ہدایات دیتا ہے اور اس سے یہ عہد لیتا ہے کہ وہ اسکے اثاثوں کو کس طرح استعمال کرے گا، اسی طرح ہماری زندگی ہمارے پاس واحد اثاثہ ہے، ایک بار یہ ختم ہوجانے کے بعد ہمارا سرمایہ بھی گیا، تجارت بھی اور منافع کی تلاش کی امید بھی ختم۔ اس لئےہمیں روزانہ اٹھ کراپنے مقاصدِ زندگی او رطے شدہ اصولوں کو دہرانا چاہئے۔
غزالی کے مطابق اصل نفع روح کی پاکیزگی ہے جس میں انسان کی نجات ہے۔ جب تک ہم زندہ ہیں، ہماری ہر سانس ایک انمول خزانہ ہے جس میں ایک دائمی خوشی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے کی اصل اہمیت کو جانتے ہوئے آگے بڑھیں ، اور کوشش کریں کہ اسے ضائع نہ کریں، مبادا ایک بڑا نقصان اٹھانا پڑے۔ غزالیاس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ دن کے ہر لمحے میں ، کچھ نہ کچھ ایساضرور ہوتا ہے جسے کرنا یاجس سے بچنا ہم سب کا فرض ہوتا ہے۔ لہذا ،انسان کو موجودہ لمحے کے تقاضوں کو پہچانتے ہوئے اس کےمطابق جدوجہد (جہاد) کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جدوجہد پر مبنی ہر لمحے کو ہمیں اسی طرح گزارنا چاہئے ، گویا یہ ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہے۔
اگر ہم وقت کے بارے میں غزالی کی بیان کردہ معاشی تمثیل کی بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں اس کی سب سے اہم جڑ قرآن حکیم کے متن میں مل جاتی ہے۔ ایک معروف آیت میں خدا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے جنت کے بدلے مومنوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کو خرید لیا ہے (سورۃ توبہ، آیت 111)۔ قرآن میں ایک اور جگہ خدائے بزرگ و برتر، انسانوں کوآخرت کے دائمی انعامات کے بدلے میں دنیاوی زندگی کو ترجیح دینے کی حماقت کے خلاف انتباہ کرتا ہے (سورۃ بقرہ، آیت 86)۔
غزالی کو اس امر میں دلچسپی نہیں ہے کہ روزمرہ سرگرمیاں کس طرح طے کی جائیں۔ غزالی کے مطابق وقت کی زیادہ بنیادی اور اہم تفہیم کو سمجھا جانا زیادہ ضروری ہے کہ انسانی وقت کا مصرف مقاصد کے لحاظ سے کیا ہونا چاہیے۔ یعنی اعمال سے زیادہ ان اعمال کے پیچھے موجود مقاصد اہم ہیں۔ اس لئے ہمیں ہر عمل کرتے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ اس عمل کا نتیجہ انسانی حوالے سے بھلائی اور ترقی کا نکلے گا یا تخریب اور نقصان کا۔ اس کے برعکس فرینکلن نے وقت کومعاشی سرگرمیوں کے لحاظ سے نتیجہ خیز بنانے پہ زور دیا ہے۔ آج کے دور کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انسان کا واحد مقصد محض اپنی ذات کے لئے معاشی فوائد اورنفسانی خواہشات کا حصول ہے یا اپنی ذات سے بالاتر کوئی جذبہ اور ہدف بھی انسان کی زندگی کا مقصد بن سکتا ہے؟
آج جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے اور مصنوعی ذہانت انسانی زندگی میں کام، محنت اور سرمائے کے تصورات پر اثرانداز ہو رہی ہے، ایسے میں وقت کے متعلق رائج بیانیہ ”زیادہ سے زیادہ منافع خیز وقت“ ہی ہے۔ غزالی کے اس نظریہ سے جو ہمیں اپنی اخلاقی کارکردگی کو بہتر بنانے پہ زور دیتا ہے، جدید اخلاقی فلسفیوں کا شدید اختلاف ہے۔ جدید فلسفی اخلاقیات اور مذہب کو الگ الگ دیکھنے کے حامی ہیں۔ غزالی ہم سے جن سرگرمیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ان میں فطرت کا غور و فکر (مثال کے طور پہ کائنات کی تخلیق) اور روشن خیال کتابوں کا مطالعہ جن میں مذہبی و دیگرکتب بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں ایسی اخلاقی سرگرمیاں بھی شامل ہیں جن پر ہم سب کا اتفاق ہے ، جیسا کہ اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے طریقوں پہ غوروفکر۔
امام غزالی کا یہ فہم کہ ہمیں وقت کے ساتھ کیسے تعلق قائم کرنا چاہئے، ہمیں اس بات کی طرف راغب کرتا ہے کہ ہم جو کام بھی کریں ، ہمیں بیدار رہتے ہوئے زندگی کے ہر لمحے کی قدر ہونی چاہیے۔ کسی لمحے کو بیکار نہیں گزارنا چاہئے۔ پس ہر لمحے میں سے خیر، خدمت اور انسانی بھلائی کی قدر حاصل کرنی چاہئے ۔ہمارا ہر عمل ، یہاں تک کہ دسترخوان پر بیٹھ کرکھانا کھانے کا آسان ترین کام بھی ایک روحانی ترقی اور ذہنی بیداری کا لمحہ بن سکتا ہے جس سے روح اور فکر کی بلندی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر چیز گنی اور تولی جارہی ہے، اگر ہم اپنےروزانہ کے مقاصد میں رحمدلی، تشکر، خدمتِ خلق اور صلہء رحمی کو شامل کر لیں تو زندگی بہت خوشگوار ہو سکتی ہے ۔
ملک محمد سہیل سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔
(اس مضمون کا بیشتر حصہ Sophia Vasalou کے مضمون ’Counting the Minute‘سے ماخوذ ہے۔ Sophia Vasalou یونیورسٹی آف برمنگھم میں Birmingham Fellow in Philosophical Theologyکے طور پہ کام کر رہی ہیں۔)