ہمارا شاندار ماضی اور پراپیگنڈہ!
کسی بھی قوم کو اگر اسکی تاریخ سے کاٹ دیا جائے تو وہ دُنیا سے بے نام و نشان ہو جاتی ہے۔
ہمارا شاندار ماضی اور پراپیگنڈہ!
تحریر: محمد عقیل وٹو، راول پنڈی
فرض کریں آپ جس محلے میں رہتے ہیں وہاں پر کوئی شخص آپ کے بارے میں یہ بات پھیلا دے کہ آپ کے دادا پردادا تو بالکل جاھل لوگ تھے نہ تو ساری زندگی وہ خود کو کسی مقام تک پہنچا سکے اور نہ ہی آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ زندگی میں کچھ کر سکو، اور آج آپ جو کچھ بھی ہو وہ ہماری مہربانی ہے جو ہم نے آپ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور جگہ جگہ آپ کی سفارش کی۔
آپ یقینا اس شخص کے جھوٹ کی تردید کریں گے لیکن اگر یہ معاملہ یوں ہی چلتا رہے اور آپ کے بیٹے کے کانوں میں یہ بات روز پڑتی رہے تو دھیرے دھیرے آپ کا بیٹا اس شک میں مبتلا ہو جائے گا کہ کہنے والا شاید سچ کہہ رہا ہے اور یہ شک تب یقین میں بدل جائےگا جب آپ تو اپنے خلاف ہونے والے اس پراپیگنڈے کا سد باب نہ کریں لیکن آپ کا مخالف اپنے شیطانی ذہن کا استمعال کرتے ہوئے پورے محلے کو اپنے منصوبے میں شامل کر لے ۔ نتیجتاً آپ کا بیٹا سوچ میں پڑ جائےگا کہ آخر پورا محلہ جھوٹ تو نہیں بول سکتا، یقیناً میرے باپ، دادا نا اہل لوگ تھے، اُس کا اعتماد ریزہ ریزہ ہو جائےگا۔ پھر آپ کے بیٹے کا بیٹا جب اس دنیا میں آئےگا اور ذرا ہوش سنبھالے گا تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائےگا کیوں کہ اتنے سالوں میں آپ کی نسل پوری طرح سے مرعوبیت کا شکار ہو چُکی ہوگی۔
یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس طویل فرضی قصے کا کیا مقصد، تو میں اصل مدعے کی طرف آتا ہوں۔
انگریز جب اس سرزمین پر جسے وہ "سونے کی چڑیا" کا لقب دیتا ہے، ایک عرصے تک لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کر کے جانے لگا تو باقاعدہ منصوبے کے تحت اس نے یہ پراپیگنڈا کیا کہ مغل حکمران عیاش اور بدکردار تھے اور ان کو حکومتی نظم و نسق کی الف،ب بھی نہیں پتہ تھی نہ ہی ان کو جدید ٹیکنالوجی سے کوئی سروکار تھا۔ انگریز نے بڑی چالاکی سے یہاں بسنے والی نسلوں کو اس کی اصل تاریخ سے کاٹ دیا اور مسخ شدہ تاریخ اس کے ذہنوں میں بٹھا دی، اس مقصد کے لیے اس نے سب سے زیادہ تعلیم کو بطورہتھیاراستعمال کیا اور لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نظامِ تعلیم پاکستان میں رائج کر گیا، ( اور ہمارے ہمسایہ مُلک نے انگریز کے ساتھ غدّاری کرتے ہوئے اپنے ملک میں مولانا ابو الکلام آزاد کے پیش کردہ نظامِ تعلیم کو فروغ دیا٬ چونکہ ہم نے انگریز کا نمک کھایا تھا اور اُس کا حق ادا کرنا اپنا اولین نصب العین رکھا ) جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا نوجوان ہر گزرتے دن ذہنی غلامی اور مرعوبیت کی دل دل میں دھنستا چلا گیا۔ پھر میڈیا کا دور آیا اور نوجوان کے ذہن کو ایسا گمراہ کیا گیا کہ ایک دن آتا ہے جب وہ مکمل طور پر اس سرمایہ پرست نظام کی کٹھ پُتلی بن جاتا ہے، ایک ایسا نظام جس کا مقصد انسانیت کا استحصال اور تذلیل ہے۔ اور یہ صرف اسی وجہ سے ہوتا ہے کیوں کہ انگریز نے آج کے نوجوان کو اس کی سنہری تاریخ اور نظامِ زندگی سے کاٹ دیا جو انسانیت کی فلاح و ترقی کا ذریعہ ہے۔ وہ نظام جس کا ڈھانچہ اللہ نے بطور خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درجہ بدرجہ ۲۳ سال کے عرصہ میں نازل کیا اور جس کا عملی نمونہ اور نفاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لےکر خلافتِ راشدہ، اموی، عباسی، عثمانی اور مغلیہ سلطنت میں مسلم حکمرانوں نے اپنی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کیا اور ہر گزرتے دن اس نظام کی بین الاقوامیت کو مضبوط کیا۔ امن وامان،خوشحالی، قومی وحدت، اور بغیر رنگ، نسل اور مذہب کے امتیاز کے ہر فرد کے لیے تعلیم کی فراہمی، روزگار کے وسائل اور حکومتی امور میں قابلیت کی بنا پر عہدے دیے اور انصاف کو یقینی بنایا۔
اور اس پورے عرصے میں ہمارے آباؤ اجداد نےاپنی آنے والی نسلوں کی مزید ترقی کے لیے راہنما اصول محفوظ کیے، اور اپنے حصے سے بڑھ کر قوم کا حق ادا کیا۔ اب اگر کمی ہے تو اُن اصولوں کو جاننے، سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے وطن عزیز میں نظام قائم کرنے کی کیوں کہ کسی بھی قوم کا قابل فخر ماضی اُس کا شاندار مستقبل ہوتا ہے۔