کراچی پر برطانوی فوج کا حملہ اور شہر پرکمپنی کا قبضہ
7 فروری تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن جب برطانوی سامراج نے کراچی شہر پر فوج کشی کی اور شہر پر کمپنی کی حکومت کا آغاز ہوا۔
کراچی پر برطانوی فوج کا حملہ اور شہر پرکمپنی کا قبضہ(7 فروری: تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن)تحریر : وسیم اعجاز، کراچی
برعظیم کی تاریخ کا یہ الم ناک واقعہ ہمیں تاریخ کےاس دور میں لے جاتا ہے جب انگریزوں نے اس خطے کے حریت پسندوں کو اپنے استعماری مقاصد کے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے۔ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعد اگست1799ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تالپوروں سے ساز باز کر کے کراچی شہر کے باہر لیاری ندی کے ساتھ تجارتی کوٹھی قائم کی تو اس کی حفاظت کا بھی ہر ممکن بندوبست کیا۔ ٹھٹھہ اور کراچی میں ان کوٹھیوں کا جہاں ایک مقصد افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے زمان شاہ کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کرنا تھا وہیں سندھ دھرتی پر قبضہ جمانا بھی تھا۔سندھ کے میرانِ حیدرآباد پہلے سے ہی مختلف معاہدات کے ذریعے انگریزوں کے دست نگر ہوچکے تھے۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کراچی کی تجارتی اہمیت کے پیش نظر اس شہر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سندھ کی آمدن کا زیادہ تر انحصار کراچی بندر گار پر ہی تھا لیکن اس کے باوجود میروں نے کراچی قلعے کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا تھا۔انگریز نے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لئے کراچی قلعے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنا شروع کردیں۔ اس عمل کے پس منظر میں وہ ذہنیت کارفرما تھی جس میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور درندگی اپنے عروج پر پہنچ کر انسانیت کے قتل عام سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ نومبر1838ء میں برطانوی افواج ٹھٹھہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوئیں تو حیدرآباد میں موجود میروں کو یہ پیغام بھجوایا گیا کہ ہماری پیش قدمی افغانستان کی جانب ہے ہماری مدد کی جائے۔ جب میروں نے مددکرنے میں پس و پیش سے کام لیا تو انگریز کرنل ہنری پوٹنجرغصے میں آگ بگولا ہو گیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پوری سندھ دھرتی کو خون میں نہلا دے۔ لیکن اس نے چالاکی سے کام لیا اور ایک جانب میروں کو دوستی کا پیغام بھجوایا اور دوسری جانب بمبئی حکومت کو خط لکھا کہ ہر حال میں کراچی پر قبضہ کیا جائے اور اس کے لیے اضافی کمک ارسال کی جائے۔بمبئی میں موجود انگریز ریزرو فوج کو سندھ کی جانب روانہ ہونے کا حکم دیا گیا۔اس فوج کی سربراہی کی ذمہ داری انگریز نے اپنے سب سے بہادر اور چالاک افسر "فریڈرک مٹلینڈ'' کو سونپی جس نے 1815 ء میں ''نیپولین'' کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ ''ویلزلی''، ''حنا'' اور ''سیرین'' نامی جہازوں پر مشتمل یہ فوج کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ راستے میں دو مزید جنگی جہاز ''الجیراین'' اور ''کونسٹینس'' بھی اس بحری بیڑے میں شامل ہوگئے۔ 5 جنگی بحری جہازوں پر مشتمل یہ لشکر اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ کراچی کو نیست و نابود کرنے کے لیے تیار تھا۔31 جنوری1839ء کو بمبئی سے ایک جملے کا پیغام موصول ہوا،" فوراً کراچی پہنچو اور حملہ کردو۔" اس مختصر سے پیغام میں سفاکیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ قوموں کو غلام بنانے کا فلسفہ اور اس کی بھیانک شکل کراچی کے ساحل کی جانب رواں دواں تھی۔ یکم فروری کو 800 گز کے فاصلے پر رک کر انگریز افواج نے بھرپور حملے کی تیاری کا آغاز کردیا تھا۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا جس کو پورا کرنے کے لیے انگریز نے کسی قسم کی کمی کی گنجائش نہ چھوڑی۔ اپنے اعلیٰ افسران، جدید جنگی سازو سامان اور توپوں سے لیس اس وقت کے جدید بحری جہاز صرف اور صرف اس مقصد کے لیے روانہ کیے گئے تھے۔2 فروری 1839ء کو انگریز فوج نے قلعے کے محافظ واصل بن بچا کو للکارا کہ ،" فوراً ہتھیار ڈال دو۔" لیکن اس نے جواب دیا کہ " میں ایک بلوچی بچہ ہوں، ہم قلعے کو خالی کرنے پر اپنے موت کو ترجیح دیں گے۔" بحری جہاز سے سفاکی سے بھرپور جواب دیا گیا ،" چلو اچھا ہوا۔ موت کے آرزومندوں کو موت ضرور ملنی چاہیے۔ ان مغرور بلوچوں کو تمیز اور تہذیب سکھانا ہمارا فرض ہے۔اسی فرض کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنا وطن چھوڑ کر آئے ہیں۔"سامراج نے ہمیشہ آزادی، تہذیب، تمیز اور جمہوریت کے خوش نما نعروں کے لبادے میں تہذیبوں کو ملیا میٹ کیا ہے۔ دنیا ماضی میں بھی اس کی مثالیں دیکھ چکی ہے اور آج بھی اس سےدوچار ہے۔ اس اعلان کے بعد مہذب دنیا نے دیکھا کہ تمیز سکھانے کے دعوے داروں نے کراچی قلعے پر بے دریغ حملہ کردیا۔ 3 گھنٹے مسلسل گولا باری کے نتیجے میں قلعے کا مغربی حصہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوا۔ جہازوں کی توپوں سے داغے گئے گولوں نے انسانیت کی کوئی پرواہ نہ کی اور بدتمیزی کی تمام حدیں پار کرلیں۔ کراچی بندرگاہ کو دھویں کے بادلوں نے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پورا شہر گردوغبار میں لت پت تھا۔ پورے شہر پر خوف اپنے عروج پر تھا۔ دن کے وقت بھی رات کا گمان ہوتا تھا۔ شہر کے پرامن باسی اس افتاد کے لیےقطعا تیار نہ تھے۔انگریز قوموں کو غلام بنانے کی سفاک ذہنیت کے ساتھ کسی تہذیب کی پرواہ نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے بغیر کسی جواز اور پیشگی اعلان جنگ کے قلعے کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے تباہ تو کردیا تھا اور اب اگلا پلان یہ تھا کہ آس پاس کی ان بستیوں کو بھی نیست و نابود کردیا جائے جہاں سے ان کے خلاف ذرا سا بھی بغاوت کا اندیشہ تھا۔تالپور حکمرانوں کے مقامی راہنماؤں نے انگریزوں کے قریبی ساتھی سیٹھ ناؤ مل کے بھائی پریم داس کو انگریزوں سے مذاکرات کرنے کے لیے بھیجا تب کہیں جا کر انگریزی آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی اور گولہ باری کا سلسلہ رکا اور شہر کے باشندوں نے سکھ کا سانس لیا۔3 فروری1839کو کراچی کے تالپور گورنر خیر محمد اور سول گورنر علی ریکھا نے برطانوی افسران سے مذاکرات کیے تاکہ شہر کو مزید تباہی و بربادی سے بچایا جاسکے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں معاہدہ طے پا گیا۔ پورا شہر برطانوی فوج کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ شہر میں آبادی ہونے کے باوجود ہو کا عالم تھا۔ کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا۔ خوف و ہراس کی حالت شہر کے گلی کوچوں میں رقصاں تھی۔کتاب Kurrachee Past Present and Future میں کراچی پر اس حملے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ خوفناک حملہ بلا جواز تھا۔ جسے برطانیہ نے اپنی شاندار فتح قرار دیا تھا۔پھر سندھ دھرتی نے وہ سیاہ ترین دن دیکھا جب 7 فروری 1839ء کو بوجھل قدموں کے ساتھ فوجی گورنر خیر محمد انگریز افسران سے ملنے گیا تو ملکہ وکٹوریہ کی 40 ویں رجمنٹ کے کمانڈر جے چیوو(J.Chav) اور برطانوی شاہی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ پوسٹانس کے سامنے اس کی یہ حالت تھی جیسے ایک غلام کسی آقا کے حضور پیش ہوتا ہے۔ ایک سفاک اور فاتحانہ مسکراہٹ آقاؤں کے لبوں پر رقصاں تھی۔اس بے کسی اور کسم پرسی کی حالت میں تالپور افسر خیر محمد نے 7 فروری1839ء کو کراچی شہر کی چابیاں انگریزوں کے حوالے کیں۔(بحوالہ: تاریخ سندھ از اعجاز الحق قدوسی، کراچی تاریخ کے آئینے میں از عثمان دموہی، کراچی کی کہانی از علی محمد راشدی، Karachi and it's neighbourhood,Gazetteer of sindh)