ذکر کچھ جامعہ ملیہ کا (۲)
سرکاری سکولوں اور کالجوں کا مقصد اس سے زیادہ نہ تھا چند افراد سرکاری نوکری پاکراپنی غریب قوم کےمقابلےمیں فخرومباہات (بڑائی )اورچین وآرام کی زندگی گزار
ذکر کچھ جامعہ ملیہ کا (۲)
تحریر: نعمان باقر نقوی، کراچی
سرکاری سکولوں اور کالجوں کا مقصد اس سے زیادہ نہ تھا کہ چند افراد سرکاری نوکری پاکر اپنی غریب قوم کے مقابلے میں فخرو مباہات (بڑائی ) اور چین و آرام کی زندگی گزار سکیں۔ان اداروں میں تعلیم پانے پر اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ ادنی متوسط طبقے کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اپنی اولاد کو ان میں تعلیم دلائیں ۔
شاید اسی صورت حال پر شیخ الہند نے یہ فرمایا تھا ، آپ نے سنا ہو گا کہ بغداد میں مدرسہ نظامیہ کی بنیاد ایک اسلامی حکومت کے ہاتھوں سے رکھی گئی، اس کے افتتاح کے موقع پر اس دن علماء نے جمع ہو کرعلم کا ماتم کیا تھا۔ کیا افسوس ! آج سے علم حکومت کے عہدے اور منصب حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے گا۔ ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے داموں کے غلام پیدا کرتے رہیں۔
"یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ایک طرف تو مسلمان اپنی صدیوں کی ذہنی اور روحانی میراث سے کنارہ کش نہ ہوں گےاور دوسری طرف نئی نسل میں یہ قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائےگی کہ تہذیب و تمدن کے اس خزانے میں سے جو اسے بزرگوں سے ملا ہے وہ خود اپنی جدوجہد سے اضافہ کرسکے"
منتظمین نے جب یہ صورت دیکھی تو والدین کو ڈرایا کہ تمہارے لڑکے کی جان خطرے میں ہے۔ حکومت سے کہا کہ پولیس اور فوج بھیجے طلبہ سے چھپ کر ملےوظیفوں کا لالچ اور نوکری کے سبز با غ دکھائے۔ پھر بھی چند سو لڑکے رہ گئے۔ڈائننگ ہال سے کھانا بند کردیا گیا ۔ پولیس افسر مولانا محمد علی کے نام حکم نامہ لے کر پہنچا کہ ہاسٹل خالی کردیا جائے ۔سامنے میدان میں خیمے لگ گئے یہ جامعہ ملیہ کا آغاز تھا ۔ یہ سفر تھا راہ وفا کاجس میں دھوپ ہے زیادہ اور سائے کم ۔۔۔ لیکن اس پر چلنے والے خوش تھے بہت پچھتائے کم
ہاسٹل کی آرام دہ زندگی طلبہ نے چھوڑی اور کچھ اساتذہ نے نوکریاں چھوڑیں مستقبل کو قوم کے لیے وقف کردیا ، اور اس زمانے میں جو بیرون ملک سے پڑھ کر آئے اور اپنی زندگی ملک و قوم کے لیے وقف کردی۔ اورجامعہ کی بقا اور ترقی کا سفر جاری رکھا۔
ابتدا میں جب کبھی مسلمانوں کے سیاسی انتشارنےمایوسی کے سائے گہرے کرنے کی کوشش کی تو حکیم اجمل خان کی استقامت اور کوششیں اور ڈاکٹر مختار احمدانصاری کی ہمت ہی سخت مشکل حالات میں نوجوانوں کا سہارا بنتی رہی ۔ قاضی عبدالغفار لکھتے ہیں "جامعہ اپنے قیام کےوقت کاغذ کی ایک ناؤ تھی رفتہ رفتہ یہ لکڑی اور لوہے کی کشتی بن گئی " اور "نئے نوجوان ملاحوں کا قافلہ " اس کشتی کو حالات کی کشاکش سے نکال لایا۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن کےابتدائی خطبے اور مسیح الملک حکیم اجمل خان اور مولانا محمد علی کی تحریروں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چھ ایسی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے جنہیں اس کے مرکزی مقاصد اور بنیادی اصول کا درجہ حاصل ہے۔
تعلیمی آزادی :جامعہ نے آزادی سے پہلے نہ تو سرکاری گرانٹ لی نہ کسی دوسرے سے مشروط مالی امداد ۔ اس طرح وہ حکومت کے اثر اور ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے آزاد رہا ۔
سادگی و کفایت شعاری : اس سے عام متوسط مسلمان طلبہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرپائے جو ان کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے جدید تعلیم کے اداروں میں جہاں تعلیم کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے تھے ممکن نہ تھا ۔
دینی اور دنیاوی علوم کی ہم آہنگی : بانیان جامعہ کے نزدیک دین و دنیا دو جدا جدا چیزیں نہیں بلکہ دین دنیا کا صحیح طور پر برتنے کا نام ہے
اردو زبان میں تعلیم: لارڈ میکالے کی پالیسی کے نفاذ کے بعد انگریزی ذریعہ تعلیم بن گئی ۔بانیان جامعہ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کے قائل تھے وہ سمجھتے تھے کہ اس سےزبان بھی ترقی کرے گی اور عام طلبہ کے حصول علم کی رکاوٹیں بھی دور ہوں گی ۔
صنعت حرفت : جامعہ کی تعلیم کا یہ مقصد نہ تھا کہ وہ حکومت کے لیے ملازم تیار کرے۔اس لیے پانچویں جماعت سے ایک حرفہ سیکھنا ضروری تھا ۔ تاکہ طالبعلم ہنر مند ہواور آڑے وقت میں کسی کا محتاج نہ ہو اور زندگی میں ہنر کے سہارے کوئی بہتر کاروبار کرسکے۔ یاد رہے کہ تعلیم یافتہ صنعت وحرفت کوجاننےوالا تقلیدمحض نہیں کرتا بلکہ جدت و اختراع کو اختیار کرتا ہے ۔
وطن دوستی :جامعہ ملیہ مذہب اور وطن دوستی میں کسی قسم کا تضاد نہیں مانتا ۔ ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ملک کی خدمت بھی پیش نظر تھی۔
ادارہ تعلیم و ترقی کے تحت جامعہ میں تعلیم بالغاں پر اس لیے زور دیا گیا کہ ان پڑھ بالغ ملک کی جدوجہد آزادی کی اہمیت اور اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات دونوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔اس میں خواندگی سے بڑھ کر زندگی کے مختلف پہلوؤں کی اصلاح و ترقی کے کام شامل ہوتے چلے گئے۔
کنڈر گارٹن اسکول کالج یونیورسٹی اور دینی تعلیمات کےساتھ تعلیم کے جدید نظریا ت اور ان کااطلاق، اساتذہ کی تربیت کے ادارے، تکنیکی تعلیم ،غرض یہ کہ تعلیم کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو جامعہ نے پیش نظر نہ رکھا ہو اور آہستہ آہستہ قدم بہ قدم ان کو اپنایا نہ ہو ۔اپنے ملک کے علاوہ غیرملکی ماہرین تعلیم ، وفود اور اداروں سےبھی داد پائی۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں بچوں کے لیے سیرت نگاری کے میدان میں مسلمانانِ ہند کی اس مشہور دانش گاہ اور اس کے موقر اساتذہ کی خدمات زریں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس کے بانیان نے ابتداہی سے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کو اپنا مطمح نظر بنایا اور اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کیں۔اس کے علاوہ اردو اکیڈمی اور مکتبہ جامعہ نے اردو کے نثری ادب میں گراں قدر اضافہ کیا اورملک گیر شہرت پائی۔ اس کا ایک راز یہ بھی تھا کہ اس نے کتابوں کو سلیقےاور خوبصورتی کے ساتھ شائع کرنے کا ایک نیا اور اعلی معیار قائم کردیا ۔
صدیق الرحمن قدوائی لکھتے ہیں
آزادی کی جدوجہد تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں جو ادارے وجود میں آئے ان میں سے ایک اہم ادارہ جو خاموش تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا جامعہ ملیہ تھا۔ اس نے اپنے عہد کے دانشوروں پر گہرا اثر ڈالا۔ ایک آزاد تعلیمی نظام جس کا مقصد یہ تھا کہ محض مادی خوشحالی نہ ہو بلکہ آنے والے زمانوں کی ضرورتوں کے ادراک کے ساتھ ایک نئے نظام زندگی کا خاکہ تیار کرے۔
جامعہ کا ظہور گہرے سیاسی شعور کی بنا پر ہوا تھا چناچہ تعلیم کے ذریعے سماج پر اثر انداز ہونے کا مقصد انہیں وقتی سیاسی اتار چڑھاؤ سے دور رکھتے ہوئے بھی مجموعی طور پر قومی تحریک کے نصب العین سے وابستہ رکھنا تھا۔جامعہ بیک وقت انگریز کاباغی بھی تھا اور تعمیری بھی۔ وہ نوآبادیاتی سامراجی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بھی چاہتا تھا۔
اسی شعور کی بدولت جامعہ سے ہمیں بہت سے قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل دانشور ، بہترین استاد اور ماہرین تعلیم، ادیب ،قومی کارکن، سیاسی رہنما ملے ۔ جن سے مسلم سماج نے بدلتے حالات میں جرات و ہمت اور ایثار کے ذریعےجینے کا ہنر سیکھا ۔جامعہ ملیہ ملیر کراچی پاکستان میں بھی قائم ہوا لیکن قومیا لیا گیا آج بھی کھنڈر بتاتے ہیں کہ عمارت عظیم تھی ۔
آج پاکستان میں جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس جامعہ ملیہ اسلامیہ یعنی آزاد مسلم یونیورسٹی کے اس تاریخی تجربے کو پیش نظر رکھنا چاہیے جس میں ہماری معنوی بقا اور ظاہری ترقی کاپورا خیال رکھا گیا تھا۔اس تاریخ سے واقفیت ہمیں نعروں کے بجائے ٹھوس کام کے لیے ہمت اور مایوسی سے نکلنے میں مدد دے گی ،اور
تعلیم کے ذریعے ترقی کا خیال رکھنے والوں کو قومی تعلیمی تقاضوں کو نباہنے کے لیے شعور اور راہ عمل ملے گی۔