اختصار و رفتار اور فطرت
شارٹ کٹ اور فاسٹ کا طرز فکر اور فطرت کے اصولوں کا موازنہ۔
اختصار و رفتار اور فطرت
تحریر: توصیف افتخار، لاہور
آج کا دور تیز رفتاری کا ہے۔ ذرائع مواصلات انتہائی ترقی کر چکے ہیں۔زمینی ذرائع میں ٹرین کی رفتار 400 میل فی گھنٹہ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ تیز رفتاری صرف ذرائع نقل و حمل تک محدود نہیں ہے بلکہ پیغام رسانی کے ذرائع کی ترقی اس سے بھی تیز تر ہے۔ آپ ایک ای میل سے یا واٹس ایپ میسج یا ٹویٹر کے ذریعے اپنا پیغام نہ صرف لاکھوں میل دور بلکہ لاکھوں افراد تک پلک جھپکتے پہنچا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے لاکھوں لوگوں کو باہم منسلک کر دیا ہے۔ پھر یہ تیز رفتاری صرف فاصلوں کے سمٹنے تک ہی محدورنہیں بلکہ انسانی ذہن بھی اس تیز رفتاری کا خوگر ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی کم رفتار اذیت کا باعث بن جا تی ہے۔سست رفتارٹریفک کھٹکتی ہے۔
اس تیز رفتاری کے ساتھ اختصار کا عمل بھی جاری ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی میں اشیاء کا حجم کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ کمپیوٹر سمٹ کر موبائل بن گیا۔ خط سمٹ کر ایس ایم ایس بن گیا۔ بڑی مشینوں کی جگہ چھوٹی مشینیں آ گئیں۔ اور انسانی ذہن بھی اسی اختصار کا عادی ہو تا جا رہا ہے۔ کتاب کی جگہ پوسٹ اور طویل ویڈیو کی جگہ کلپس پسند کیے جاتے ہیں۔اس تیز رفتاری اور اختصار نے نئی نسل کو سب سے زیادہ متأثر کیا ہے۔ اس کے اثر سے ان کی قوت برداشت بھی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ فوری نتیجہ مانگتے ہیں ۔ فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں ۔لمبا لیکچر نہیں سن سکتے۔ طویل مضمون نہیں پڑ ھ سکتے۔ اس نئی نسل کو کون سمجھائے کہ کچھ چیزیں فطری اصول پر چلتی ہیں۔
فطرت کی اپنی مخصوص رفتار ہے۔ نا تو دن جلدی سمٹنے شروع ہوئے ہیں نہ ہی رات کی تاریکی جلد چھٹتی ہے۔ اب بھی شکمِ مادر میں ایک بچے کی نمو نو ماہ میں مکمل ہوتی ہے۔ اب بھی سال ڈیڑھ تک کا بچہ پاؤں پر چلنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ سب وقت سے پہلے نہیں ہو سکتا اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی گئی تو نتیجہ برائلرمرغی کا سا ہو گا۔ جس میں اتنی سکت نہیں کہ چند منٹ اپنے قدموں پر کھڑی رہ سکے۔ ایک قدرتی گلاب کی خوشبو فارمی گلاب میں نہیں آ سکتی ، ایک فارمی دال میں ، دیسی دال کا ذائقہ نہیں ہوسکتا۔ آج بھی ذہنی آبیاری کے لیے مشقت اٹھانی پڑے گی، علوم کھنگالنے پڑیں گے۔ گہرا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ آج بھی سائنسدان نئے علم کی تخلیق کے لیے موجود علوم کی تہ میں اترتے ہیں۔ تخلیقی عمل آج بھی مشقت کا تقاضا کرتا ہے۔
جیسے فاسٹ فوڈ کھانے والا اپنی جوانی جلد کھو دیتا ہے۔ غذائیت کی کمی جلد بڑھاپے کی طرف لے جاتی ہے ویسے ہی سطحی مطالعہ کرنے والے عملی میدان میں جلد فکری جنگ ہار جاتے ہیں اور بد عملی کا شکار ہو جا تے ہیں۔ دو سطری پوسٹ سیر حاصل مضمون کامتبادل ہر گزنہیں ہو سکتی۔ 5 منٹ کا کلپ ایک گھنٹے کے ویڈیو لیکچر جتنی وضاحت نہیں کر سکتا۔ ایک ویڈیو ایک کتا ب کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ایک مضمون اور ایک کتاب اپنی ساخت کے ذریعے بتدریج قاری کے دماغ کو خاص سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ دلائل و براہین کے ذریعے ایک خاص بنیاد بناتے ہیں اور پھر سیاق و سباق کے ساتھ جب اصل پیغام دیا جاتا ہے تو وہ ذہن سازی کرتا ہے اور دیر پا اثر رکھتا ہے ۔
اسی طرح منجھدار میں پھنسی قوم کی کشتی ساحل تک پہنچانے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے۔ ایک ایک فرد پر محنت کر کے ناخداؤں کی ٹیم بنا نا ہی پڑتی ہے، جو طوفان کے مقابلہ میں کٹ مرنے کا تو عزم رکھے مگر اجتماعی فریضہ کی ادائیگی سے منہ نہ موڑے۔ مصنوعی قیادت کے ذریعے پیدا کی ہو ئی تبدیلی کبھی حقیقی نہیں ہوا کرتی بلکہ اسی نظامِ کہن میں اپنا حصہ بقدر جُثہ وصول کرنے کی طمع ہوا کرتی ہے۔جو بعد میں کھوٹے سکوں کا رونا رو کر نا اہلی کو چھپا نے کی کوشش ہوتی ہے۔
جب تک یہ شعور حاصل نہیں کرتے کہ سماجی امور میں اختصار و رفتار سے زیادہ صبر اور برداشت فطرت کا تقاضا ہے اس وقت تک دھوکے کھاتے رہیں گے۔ جماعتوں کی اٹھان اور قوموں کی تقدیر سازی کے لیے اختصار(Shortcut) نہیں ہوا کرتے۔ پہلے ایک علمی سفر طے کرنا ضروری ہوتا ہے،اس کی شعور ی تعبیر حاصل کرنا ضروری ہوتی ہےجو گہرے مطالعے اور صحبتِ صالح کا متقاضی ہے پھر ایک لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر ثابت قدمی اور جاں فشانی سے چلنا ہوتا ہے۔ جماعت حقہ اور صراط مستقیم پر چلنے والوں کے نقش قدم کی پیروی کرنا اس کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔