کلیان کوٹ: زمین دوز ہوتا ہوا سندھ دھرتی کا ایک قدیم اورعظیم قلعہ
تیزی سے زمین دوز ہوتے سندھ کے عظیم اور قدیم قلعے کا احوال اور تاریخ جس نے کئی صدیوں تک ٹھٹھہ کو لوگوں کو دشمنوں سے بچایا۔

کلیان کوٹ: زمین دوز ہوتا ہوا سندھ دھرتی کا ایک قدیم اورعظیم قلعہ
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
مکلی کی پہاڑی سے جنوب کی جانب سفر کریں تو تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک کے بائیں جانب کھنڈرات کے آثار نظر آ تے ہیں۔ یہ اس تہذیب کے آثار ہیں جو اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ گزار کر زمین میں دفن ہو چکی ہے۔
شہر کراچی کے ہنگاموں سے بھری زندگی سے بھاگ کر اور مکلی کے شہر خاموشاں سے گزر کر جب کچھ دیر کے لیے ہم اس جگہ گئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے خاموشی اور سکون نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ شاید اسی سکون اور خاموشی کی وجہ سے ہی اس قلعہ کا نام تاریخ کی کچھ کتابوں میں "کلیان کوٹ" یعنی '' امن اورسکون والا قلعہ" ملتا ہے۔
قلعے کے مغرب میں ایک جھیل یہاں کے سکون میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ مکلی نامہ کے مطابق کبھی اس جھیل کے کنارے پر سایہ دار درختوں کی قطاریں ہوا کرتی تھیں۔ میر قانع نے اس جگہ کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے بہشت کا نمونہ اور سایہ ظل رحمانی لکھا ہے۔
سندھ کے تاریخ دانوں، علی شیر قانع، مرزا قلیچ بیگ،میر معصوم بکھری، پیر حسام الدین وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کے مختلف نام تحریر کیے ہیں۔ جن میں تغلق آباد، طغرل اۤباد، کالا کوٹ، کلاں کوٹ اور کلیان کوٹ ہیں۔ اس قلعے کو زمانے کے رواج و زوال کے دوران جیسے جیسے حالات سے واسطہ پڑا، اس کے نام بھی بدلتے رہے۔ مرزا قلیچ بیگ کی تحقیق کے مطابق اس قلعے کا قدیم نام کلا راج تھا جو بعد میں "کلا کوٹ" اور پھر "کلیان کوٹ" بن گیا۔ اس قلعے کی وسعت اور تاریخی اہمیت کے تناظر میں کلاں کوٹ یعنی بڑا قلعہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا۔
اس قلعے کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق یہ قلعہ اس وقت بھی موجود تھا جب سکندر اعظم نے سندھ دھرتی پر حکومت کی۔ کبھی اس جگہ سے وقت کے بادشاہوں کو پیار تھا۔ وہ سکھ اور شانتی کی تلاش میں یہاں آیا کرتے تھے۔ اس جگہ کو بھی یہاں کے رہائشیوں سے اس قدر محبت تھی کہ اپنی مضبوط فصیلوں کی وجہ سے دشمنوں پر اس قلعے کا رعب رہتا تھا۔ اس جگہ ٹھٹہ کے سومرو، سمہ اور جام رہائش پذیر رہے ہیں۔ کلیان کوٹ کو حفاظتی نقطہ نظر سے ایک مضبوط شہر سمجھا جاتا تھا۔بوقت ضرورت حکمران اس قلعے میں قیام کرتے تھے۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں کے ساتھ ساتھ اہم سامان بھی یہاں منتقل کیا جاتا تھا۔
جام فتح خان کے انتقال کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کا چھوٹا بھائی جام تغلق عرف جام جونا ثانی بن صدر الدین سکندر شاہ 1427ء میں تخت پر بیٹھا تو اس نے ایک طرف تو سندھ کے مضافات کے علاقوں سے اچھے روابط پیدا کرلیے اور دوسری جانب اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے پورے سندھ میں تھانے داروں کی طرز کے انتظامی عہدے دار مقرر کیے۔ وہیں اس قلعہ کی مرمت اور وسعت کا کام بھی کیا۔ "لب تاریخ سندھ" کے مطابق جام تغلق نے اس قلعہ کو ٹھٹہ کی بجائے اپنا پایہ تخت بنایا۔ اسی وجہ سے اس کا ایک نام "تغلق آباد" بھی ہے۔
1591ء میں مغل بادشاہ اکبراعظم نے اپنے انتہائی قابل وزیر اور اپنے 9 رتنوں میں سے ایک عبدالرحیم خان خاناں کو سندھ کے لیے بھیجا تو 'مرزا جانی بیگ' نے اس کے حملے سے بچ کر کلاں کوٹ میں آکر پناہ لی اور کلیاں یعنی سکھ کا سانس لیا۔ بعد میں مرزا جانی بیگ نے خان خاناں سے صلح کرلی تو اس کے بعد وادی سندھ میں بھی مغلوں کی باضابطہ حکومت قائم ہوگئی۔
کلیان کوٹ اپنے دور کی بندر گاہ بھی تھی جس کے ایک جانب دریائے سندھ اور دوسری جانب خوبصورت جھیل تھی۔ خان خاناں نے صلح کے بعد سمندری سفر کی فرمائش کی تو جانی بیگ اسے کلیان کوٹ لے کر آیا جہاں سے دونوں نے ایک کشتی کے ذریعے کھلے سمندر کی سیر کی اور سمندری راستے سے موجودہ کراچی کے ساحل منوڑہ تک آئے۔
اس قلعے کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی دیواروں کی چوڑائی اتنی زیادہ تھی کہ ایک وقت میں 4 بیل گاڑیاں چلائی جاسکتی تھیں۔ لیکن اب وہ تمام دیواریں زمین دوز ہو چکی ہیں۔ قلعے کے وسط میں ایک شاندار مسجد کے آثار ابھی بھی باقی ہیں جو اپنی شکستہ حالی کے باوجود پرشکوہ نظر آتی ہے۔نیلے رنگ کی ٹوٹی ہوئی ٹائلیں دیواروں پر لگی ہوئی ہیں۔ مسجد کا ممبر سخت پتھر کا بنا ہونے کے وجہ سے ابھی بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے جس پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ مسجد کی چھت گر چکی ہے اور دیواریں بھی زبوں حالی کا رونا رو رہی ہیں۔ مشرقی سمت میں مسجد کا تالاب جو شاید کبھی وضو خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا اب خشک ہو چکا ہے۔ مسجد کے شمال کی جانب کمروں کے آثار کسی مدرسے کی نشان دہی کرتے ہیں جہاں کبھی اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا جاتا ہوگا۔ اب سناٹے کے سوا کچھ نہیں۔قلعے کی مغربی جانب جھیل کے کنارے کسی مندر کے آثار نمایاں ہیں۔ قلعے کے مشرقی کنارے پر زمین دوز دیواریں کسی بازار کا منظر پیش پرتی ہیں۔
تاریخ معصومی کے مطابق آخری بار اس قلعے کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام مرزا جانی بیگ نے 16 ویں صدی عیسویں کے آخرمیں کیا تھا۔ لیکن مکلی نامہ کے مطابق اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ایک صوبے دار مرید خان مغلیہ سلطنت کی جانب سے اس قلعے پر مامور تھا۔ اس نے بھی کچھ مرمت کا کام کروایا۔ اس کے بعد سے اس قلعے میں مرمت کا کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ لیکن استبداد زمانہ کی چوٹیں مستقل اس قلعے کا مقدر بنتی رہیں۔ایسی شاندار تہذیب کے تباہ و برباد ہونے کا کیا پس منظر ہوا ہوگا؟ اس بارے میں تاریخ کےصفحات پلٹے گئے تو وہاں بھی اس قلعے کے نام کی طرح کلیان یعنی سکون اور سکوت ہی نطر آیا۔
کلیان کوٹ کا یہ مطالعاتی دورہ ہمیں ایسے ماضی میں لے گیا جہاں تاریخ کے صفحات تو خاموش ہیں لیکن پتھر بولتے ہیں،زمین اشارے کرتی ہے اوراجڑے ہوئے شہر کے کھنڈرات زبان حال سے اپنے واقعات بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اس قلعے کی کھدائی کے دوران اناج کا جلا ہوا ایک بڑا زخیرہ دریافت ہوا تھا جو کہ زمین میں دفن تھا۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شہر آگ سے تباہ ہوا ہوگا۔مرزا قلیچ بیگ نے بھی کچھ ایسا ہی بیان کیا ہے۔ قلعے میں چکر لگاتے ہوئے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں بہت سارے ایسے پتھروں کے ڈھیر تھے جن کی رنگت کالی سیاہ تھی۔ ایسے پتھر وہاں وسیع رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ سیاہ پتھر زبان حال سے ہمیں ماضی میں کسی ایسی آگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے شاید پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوگا۔ یوں ہی چہل قدمی کرتے ہوئے جوتوں کے نیچے کسی چیز کے چڑچڑانے کی آواز نے ہمیں نیچے دیکھنے پر مجبور کیا تو پتہ چلا کہ یہ سمندری سیپیوں کے ٹوٹنے کی آواز تھی۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوا کہ اس شہر کی بربادی میں رہی سہی کسر کسی بڑے سمندری طوفان نے پوری کردی ہوگی۔واللہ اعلم۔
جہاں حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کئی دیگر آثاروں کی طرح یہ تاریخی مقام بھی مزید تباہی کی جانب جا رہا ہے وہیں تھوہڑ کے جا بجا لگے پودے اس جگہ کی وحشت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ کلیاں کوٹ کے اس قلعے کو دیکھنے کے دوران اردو کا ایک ضرب المثل مصرعہ مسلسل یاد آتا رہا۔
"آثار کہہ رہے ہیں،عمارت عظیم تھی"
آخر میں سندھ دھرتی کے ایک محقق پیر حسام الدین راشدی کا وہ جملہ دل میں پیوست ہو جاتا ہے جو انہوں نے کلیاں کوٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ،" یہ سرزمین آج کل ویران اور ایسی بربادی کہیں بھی نہ ہو''۔