ذکر کچھ جامعہ ملیہ کا (۱)
آزاد تعلیم کا یہ تصور مسلمانوں کی اس ذہنیت کے عین مطابق تھا جو ان کے ہزار سالہ دور اقتدار میں تشکیل پائی تھی،اور یہ حکومت کے اثر سے آزاد تھی۔
ذکر کچھ جامعہ ملیہ کا (۱)
پروفیسرنعمان باقر نقوی، کراچی
جدید تعلیم کی اہمیت، مسلمانان پاک وہند کا ہردور میں ایک دلچسپ اور سدا بہار موضوع رہا ہے جس پر اکثر اہل دانش اور عام پڑھے لکھے لوگ بات کرتے ہیں یا اس کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ قومی تعلیم یا تعلیم کے قومی تقاضےآج پاکستان کے لیے کتنی اہمیت حاصل کرچکے ہیں ، اس کا ہمیں بخوبی اندازہ اب ہے۔ آج جب کہ ہر نئی خبر ہمیں ماضی سے بے خبر اور مستقبل سے مایوس کر رہی ہے ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم اپنی قومی تعلیمی تحریک سے واقف ہوں ،عزم و ہمت کی یہ داستان ہمارے لیے مایوسیوں سے نکلنے کا سبب بن سکتی ہے ۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہونے کے بعد مسلمانوں کے نظام تعلیم کی عمارت منہدم ہونا شروع ہوگئی، اجنبی حکومت نے ایک نئے نظام کی عمارت کھڑا کرنا ضروری سمجھا ۔ ہندوستانیوں میں سے پڑھے لکھے ملازم تیار کرنے کے لیے ایک نئی قسم کی تعلیم کو رواج دینے کی ضرورت انہیں محسوس ہوئی ۔وارن ہسٹنگز نےیہ تعلیمی پالیسی بنائی کہ قدیم مشرقی تعلیم کو عصر جدید کے رنگ میں رنگ دیا جائے اور اسے ضروریات زمانہ کے مطابق ڈھال لیا جائے لیکن بعد میں یہ خیال ترک کر دیا گیا اور عام طور سے میکالے کا یہ نظریہ کہ ہندوستان کی نجات خالص مغربی تعلیم ہی سے ہوسکتی ہےمقبول ہوگیا۔ اس تعلیم سے جومسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی روایت سے بےتعلق تھی، مسلم عوام اس قدر بدظن تھے کہ انگریزی مدرسوں میں پڑھانے سے اپنے بچوں کو جاھل رکھنا ہی بہتر سمجھتے تھے۔یہاں یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہندستان کےلیے دارالحرب کا فتویٰ صادر فرمانے والی نامور شخصیت حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رح نے جدید تعلیم کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی ۔
غورطلب نکتہ یہ ہے کہ ایک آزاد تعلیمی نظام کی اہمیت ہمیشہ ان مسلم زعماء کے پیش نظر رہی ہے۔ آزاد تعلیم کا یہ تصور مسلمانوں کی اس ذہنیت کے عین مطابق تھا جو ان کے ہزار سالہ دور اقتدار میں تشکیل پایا تھا ۔ مسلمانوں کی یہ تعلیم اس تمام زمانے میں حکومت کی دست اندازیوں سے آزاد تھی اور ان کے تمام تعلیمی ادارے حکومت کی مداخلت سے محفوظ رہ کر ملک و ملت کی خدمت میں سرگرم عمل رہتے تھے۔
جنگ آزادی 1857 کے بعد علی گڑھ کالج اور سرسید کی کاوشیں حکومت سے تعاون پر مبنی تھیں۔ان کا جذبہ تو ایک طرف رہا لیکن دوسری جانب یورپین عملےنےکالج میں اپنے مخصوص اہداف اور مقاصد کے تحت رسوخ حاصل کرلیااورسرسید کے بعدحکومت نے علی گڑھ کالج کو اپنی سیاسی اغراض کا آلۂ کار بنانا شروع کردیا ۔سر سید کے جانشین اس دن کے منتظر تھے کہ جب کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جاسکے ۔یہ منزل جوں جوں قریب آتی گئی کالج کے ہندستانی کارکنوں اور انگریزی اسٹاف کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئی ۔نواب وقارالملک علی گڑھ کالج سیکرٹری بنے تو وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ انگریزی اسٹاف نے کالج کی زندگی میں کچھ ایسا اثرورسوخ حاصل کرلیا ہے کہ آنریری سیکرٹری (یعنی وہ خود) اور ٹرسٹییز کی جماعت برائے نام رہ گئی ہے۔وہ خوب جانتے تھے کہ ارکان حکومت اور محکمہ تعلیم کےاعلی عہدیدار ہر موقع پر انگریز اسٹاف کی حمایت کرتے ہیں ۔
اسی عہد میں مولانا ابوالکلام آزاد کے مشہور ہفت روزہ الہلال نے مسلمانوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونےکی ضرورت اور اہمیت یاد دلائی۔ انہوں نے سرسید کی پالیسی پر کئی سوالات اُٹھائے اور آزادی کے لیے جدوجہد کو عین تقاضائے ایمانی قرار دیا۔ خلافت تحریک اور تحریک ترک موالات نے ملک میں انقلاب برپا کردیا تھا ۔
قصہ مختصرکہ جب علی گڑھ یونیورسٹی کا مجوزہ خاکہ حکومت نے رد کردیا تو علی گڑھ کالج کی انگریز انتظامیہ اور حکومت کے رویہ نے طلبہ کو بھی برگشتہ کردیا ۔ اور پھر حالات کے تقاضے کے تحت کچھ طلبہ نے ابھرتے ہوئے لیڈر مولانا محمد علی جوہر (جو علیگڑھ کالج کے اولڈ بوائے لیڈرتھے ) کو ترک موالات کی دعوت طلبہ کے سامنے رکھنے کے لیے مدعو کیا ۔اس جلسے کو ناکام کرنے کے لیے انتظامیہ نے چند ایسے طلبہ کو بھیجا جو سوالات اور اشکالات کا غوغا یا شور شرابہ کریں لیکن یہ بات مؤثر نہ ہوسکی بلکہ ہر کوشش ناکام رہی ۔
اور پھر کچھ ہی دن کے بعدعلی گڑھ کالج کی جامع مسجد میں یہ الفاظ گونج رہے تھے ۔
" میری قوم کےنونہالو: جس غم میں میری ہڈیاں گھلی جارہی ہیں اس کے غم خوار مجھے مدرسوں مسجدوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادہ نظر آتے ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلصاحباب نے ایک قدم علی گڑھ کی جانب بڑھایا اس طرح ہم نےہندستان کے دو تاریخی مقاموں ( دیوبند اور علی گڑھ) کا رشتہ جوڑا "
یہ الفاظ مجاہد آزادی ، بانی تحریک ریشمی رومال، پیکر عزم وبصیرت حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن رح کے تاسیسی خطبے کے تھے جو جامعہ ملیہ کے افتتاح کے موقعہ پر دیا جارہا تھا۔ یہ انگریز کی ناکامی اور تحریک شیخ الہند کی تاریخی کامیابی تھی۔ اس تاریخی واقعہ کے بارے میں جامعہ کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر ذاکرحسین کہتے ہیں
"مجھے وہ وقت یاد ہے اور میرے ممتاز ساتھیوں کو بھی کہ جب علی گڑھ کالج کی مسجد میں ایک وجود مقدس قید جلاوطنی، علالت اور تفکرات ملی نے جس کی ہڈیاں پگھلا دی تھیں جس کے چہرے کی زردی سے معلوم ہوتا تھا کہ غم کی آنچ نے خون کا ایک ایک قطرہ خشک کردیا ہے لیکن جس کی روشن آنکھیں اس یقین کی غمازی کررہی تھیں کہ اگرچہ سب کچھ بگڑا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن مردوں کی طرح ہمت کی جائے تو مدد خداوندی سے بہت کچھ بن سکتا ہے، یہ وجود مقدس دیوار کا سہارا لیے بیٹھا ہے ناتوانی کے باعث مجمع کو مخاطب بھی نہیں کرسکتا اور اس کا پیغام اس کے شاگرد رشید مولاناشبیراحمدعثمانی سناتے ہیں۔
صاحبو! یاد رہے کہ وہ جس دیوار کا سہارا لیے بیٹھے تھے وہ خالی اینٹ پتھر کی دیوار نہ تھی وہ ایمان محکم اور اس ایمان کے نتیجے یعنی ایک عظیم الشان ملی ماضی کی دیوار تھی۔ وہ صرف ان نوجوانوں کو مخاطب نہ فرما رہے تھے جو ان کے سامنے تھے ان کا روئے سخن ساری آنے والی نسلوں کی طرف تھا"۔(جاری ہے )