نوآبادیاتی افسر شاہی ذہنیت
نوآبادیاتی عہد میں سول سروس میں برطانوی بیروکریسی کی تربیت غلامانہ طرز پر کی گئی تھی، مقصد لوٹ کھسوٹ تھا،نہ کہ ہندوستانیوں کو حکومت کے لیے اہل بنانا۔
نوآبادیاتی افسر شاہی ذہنیت
تحریر: یاسر علی، مردان
رابرٹ کلائیو(Robert Clive )کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نےآلہ کار نوابوں کے ذریعے طاقت کا استعمال کرکے برصغیر میں لوٹ کھسوٹ کوجاری رکھا۔ پھروارن ہیسٹنگز(Warren Hastings) کے دور میں ان نوابوں کی حیثیت ختم کرکے ملک کے انتظام پرکمپنی نے براہ راست قبضہ کرلیا۔چارلس کارنوالس ( Charles Cornwallis) نے کمپنی کے پیشہ ورانہ ملازموں کو تمام اعٰلی عہدوں پر فائز کیا۔ ہر ضلع میں انگریز افسر تعینات کردیے گئےان میں سےہرایک کے پاس ایک وقت میں عموما دو یا اس سے زائد انتظامی عہدے ہوتے تھے۔ حکومت کرنا،ٹیکس جمع کرنا اور عدالتی امورنبٹانے کاعمل یہی انگریز افسر کیا کرتے تھے۔ تمام ہندوستانیوں کو ان تمام کاموں سے بےدخل کیا گیا کیونکہ ان کا مقصد تو لوٹ مار تھا۔
1806میں لندن کے ہیلے برے کالج( Haileybury college) میں کمپنی کے خدمت کےلیے نوجوانوں کی تربیت کی گئی۔جہاں ان کی ذہن سازی کی جاتی کہ ہندوستانیوں کو غلام بناکر ان کے وسائل کوکیسے لوٹا جائے۔ 1833 کے بعد کمپنی ڈائریکٹروں کی منظوری کے لیے مقابلے کا امتحان متعارف کروایا گیا۔ 1853 کے بعدصرف انگریز گورے امیدوار ہی ان امتحانات میں شریک ہوئے اورمنتخب کیے گئے۔ یہ منتخب بیوروکریسی انڈیا میں سیاسی طاقت کا استعمال کرتی تھی برطانیہ میں یہ لوگ اس طرز حکومت کی امید بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پھر 1860 میں انڈین لوگوں کو بھی امتحان میں شمولیت کی اجازت مل گئی۔ لیکن یہ صرف انگریزوں کے اقتدار کے تحفظ کی خاطر تھا ۔انگریز ان ہندوستانیوں کو خود حکومت کرنے کےلیے تیار نہیں کررہے تھے بلکہ ہندوستانیوں کو توہین آمیز اور حقیر نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کو حکومت کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے۔کمپنی کے منتخب افسروں نے خودکو عوام سے فاصلے پر رکھا۔ بند کمروں میں قانون سازی اور فیصلے ہوتے تھے۔جن کی قسمت کے فیصلے ہوتے وہ نا تو خود اس میں شریک ہوتے اور نا ہی ان کے نمائندے۔ جبکہ اس سے پہلے ادوار میں ہندوستانی حکمران عوام کے درمیان رہتے تھے ان کے مسائل براہ راست سنتے تھےاور فیصلے کیا کرتے تھے۔
برٹش دور میں دفاتر کی کاغذی کاروائی بھی اتنی پیچیدہ تھی کہ کوئی کلرک بھی نہیں سمجھ سکتاتھا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ تمام اعلٰی عہدوں پر تعینات نوجوان برطانوں افسر مقامی زبان اور حالات سے ناواقف ہوتے تھے۔ صرف کمپنی کے مفاد کےلیے کام کرتے تھے ۔ انکا رہن سہن عام ہندوستانیوں سے ممتاز کردیا گیا۔ ان افسروں کو ہر قسم کی سہولیات ،تحفظ اور عیاشی کا سامان فراہم کیا گیا۔ یہ انگریز ہندوستانیوں کو کمتر اور خودکو برتر سمجھتے تھے۔ ان انگریز افسروں نے اپنے رہنے کےلیے ہندوستان میں پھولوں سے معطرجزیرے بنائے۔ ان رہائش گاہوں کو عوامی آبادی سے دور رکھا ۔ ان کی تربیت ایک غلام قوم پرحکمرانی کےلیے ہوئی تھی کہ جن کا واحد مقصد وسائل لوٹناتھا۔آ ج بھی پاکستان کی سول سروس کے افسروں اور حکمرانوں کی رہائش گاہیں انہی انگریزوں کی باقیات ہیں۔
انگریز آفیسر ڈانس، شراب،کلب اورفحاشی کو پسند کرتے تھے۔ برطانیہ سے آئی گوریوں کے ساتھ پرفضا مقامات پر وقت گزارتے تھے۔ ان میں سے بعض خواتین مجرمانہ کاموں میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ انگریز افسر 30 سال کے بعد بھی کنوارے ہی ہوتےتھے۔مقامی خواتین سے شادی کے خواہشمند نہیں تھے اس لیے طوائفوں کی طرف مائل ہوئے۔جب نسل کی بنیاد پر ہندوستانیوں سے نفرت مزید بڑھ گئی تو یہ غلامانہ طرز کی بیوروکریسی انگریز سامراج کا وہ ہتھیار تھی جس کے ذریعے ہندوستانیوں کو لوٹا گیا اوران کے افکار وخیالات میں شگاف ڈالا گیا، ان کے رویوں میں تضحیک آمیزی شامل کی گئی، نسل پرستی،تعصب پرستی اور ان سب سے بڑھ کر ہندوستانیوں کے ذہنوں میں یہ راسخ کیا گیاکہ ہم برتر ہیں اور آپ کم تر ۔ اس نسلی اورعصبی برتری پر سول سروسزسے جڑے ہندوستانی ملازمین اور افسروں کو نشانہ بنایاگیا ۔ انڈیاکے پہلے مقامی سول سروس آفیسر سریندرناتھ بینر جی کو محض اس لیے ملازمت سے ہٹا دیا گیا کہ انہوں نے اپنی عمر غلط لکھی تھی ۔اسی طرح معروف انڈین سول آفیسر ستیندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ امتیازی سلوک برتاگیا ۔سر سید احمد خان کے بیٹے سید محمود جو الہ آباد ہائی کورٹ میں جج تھے چیف جسٹس سر جان ایج اسے روزانہ تعصب اور امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے تھے۔1892 میں اسے برخاست کیا گیا تو وہ دلبرداشتہ ہوا اور کثرت شراب اور ڈپریشن سے فوت ہوا۔
انڈین افسروں کی تنخواہیں برٹش ملازمین سے بھی کم تھیں۔8000انگریز سول ملازمین کی تنخواہیں 13930554 پونڈ جبکہ 130000 انڈین سول ملازمین کی تنخواہیں 3284163 پونڈ تھی ۔یوں انڈین سوسائٹی کی نفسیات اس پر ڈھلیں کہ انگریز برتر اور مقامی کم ترہیں۔ انہی بنیادوں پر انڈین سول سروس کا نظام متعارف کیا گیا ۔یہی افسر شاہانہ ذہن تقسیم کے بعد پاکستان کے ورثہ میں آیا۔ اس مرعوبیت نے ماضی کی عظمت کا تصور چھین لیا اوراس خطے کے نوجوانوں کو ذہنی اپاہج اور مغرب زدہ بنادیا جو غلامی کو مزید گہرا کرتا چلا گیا۔ افسوس کہ انگریز یہاں سے چلاگیا لیکن غلامانہ اور مرعوبانہ ذہنیت رکھنے والی افسر شاہی سوچ چھوڑ گیا جو افسر در افسر منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ آزادی کے بعدبھی بیوروکریسی کے اس تربیتی نظام کو تبدیل نہ کیاگیا۔جس کی وجہ سے 73 سال بعد بھی وطن عزیز میں وہی غلامانہ اصول و قوانین اور اور برتری کا ذہن رکھنے والی بیوروکریسی موجود ہے۔جو عوام کے بجائے بالادست طبقات کے مفادات کی محافظ ہے۔اس طبقاتی اور برتری کی سوچ کو تبدیل کیے بغیرانصاف پر مبنی پرامن سماجی تشکیل نا ممکن ہے۔