موجودہ حالات ماضی کے آئینے میں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں ماضی سے سیکھنا چاہیے بجائے اسکے کہ ہم چند افراد یا اداروں کی کشمکش پر تجزیات کرکے وقت ضائع کریں بہتر ہے ہم تخلیقی کام کریں
موجودہ حالات، ماضی کے آئینے میں
تحریر: خالد انتظار، کوہاٹ
سامراج نے نو آبادیاتی منصوبے کی تحت برعظيم ہندستان کو مستقبل میں اپنے مفادات حاصل کرنے کےلیے مختلف ملکوں میں تقسیم کیا تھا،اس لیے وہ ان کالونیز کی ترقی یا ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی پوزیشن میں کبھی دیکھنا نہیں چاہتا۔اس نے اس خطے سے نکلتے ہی برعظیم کی تقسیمی عمل میں ہماری مجموعی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا تاکہ آئندہ ہم متحد ہوکر صدیوں سے مختلف مذاہب اور مسالک پر مشتمل اس خطے کو انسان دوستی اور راواداری کی اصولوں پر جو ترقی اور خوش حالی دی تھی اسے دوبارہ" سونے کی چڑیا" نہ بناسکیں۔
اس لیے اس نے ہماری مجموعی طاقت کو مختلف سازشوں اور ہندو مسلم کی مذہبی تفریق کے عنوان سے نفرت اور فساد کی آماج گاہ بنادیا اور اس سے بڑھ کر اس نے ہمیں ہمیشہ کےلیے باھمی دشمنی اور جنگی کیفیت میں مبتلا کرنے کی لیے کشمیر کا مسئلہ لاکھڑا کیا۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔
اب موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے محسوس ہورہا ہے کہ سامراج کو پھر سے ہمیں ایک نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے کی ضرورت درپیش ہے اورآپ جانتے ہیں کہ وہ اپنا بلاک ہم جیسے بنائے گئے کالونیز اور عرب ممالک ہی کی بدولت چلاتے ہیں، جبکہ ہمارے مفادات ریجنل ممالک سے بہتر تعلقات اور آزاد معاہدات پر مبنی ہیں لیکن بدقسمتی سے سامراجی مفادات کے تحت ہم اپنے قریبی ممالک سے دشمنی پالے ہوئے ہیں اور کوسوں دور ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سامراج ہمیشہ اپنے(بظاہر) دوست ممالک کو ٹشو پیپر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتا لہذا اب جبکہ پاکستان اوردیگر ایشائی ممالک اپنے تحفظ اور ترقی کےلیےاپنےخطے ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنا ضروری خیال کرتے ہیں، یہ بات ان سے کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوسکتی۔
اس لیے پاکستان اور ہندوستان کے اندرونی حالت کو مختلف طریقوں سے انتشار پر ابھارا جارہا ہے اور ان کی اندرونی استحکام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
یہاں پاکستان میں اچانک جو اندرونی معاملات پیدا ہوئے ہیں کہ قوم ایک طرف معاشی لحاظ سے بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف سیاسی انتشار پیدا کرکے قومی اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرنےکی کوشش کی جارہی ہے۔ اب کوئی ملک کسی پر ڈائریکٹ تو حملہ نہیں کرسکتا البتہ ان کی سیاست, معیشت اور اداروں کو کمزور کرکے اپنے مقاصد ضرور حاصل کیے جاسکتے ہیں اسلیے اب ایک طرف تو اس بحران سے ہمارا ملک دوچار ہے اور دوسری طرف بھارت میں بھی ایک طرف کشمیر میں کرفیواور دوسری طرف اقلیتوں خصوصاً ہندو مسلم میں مذہب کی بنیاد ایک بل کے ذریعےانتشار پیدا کیا گیا ہے اس کوبھی اسی تناظر میں دیکھاجائے تو صورت حال کو آسانی سے سمجا جاسکتا ہے۔
سامراج کی یہ پرانی تباہ کن چال ہے کہ پہلے ان ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کرواکر بعد میں ان کی کمزوری کو دور کرنےکا ڈرامہ رچا کر اپنی امداد کی میٹھی زہریلی گولیوں کےذریعیےان کو اپنی غلامی کے شکنجے میں مزید کس لیتا ہے۔
آج وقت کی اہم ترین ضرورت سامراج کی اس خوش نما پیکینگ میں بدترین غلامی کی ادویات کی پہچان حاصل کرنا ہے اور قوم میں ان کے زہریلی اثرات سے بچاؤ کا شعور پیدا کرنا ہے تاکہ ہم ان کی سیاسی, معاشی اور فکری غلامی سے نکل کر اپنے قومی مفادات میں آزاد فیصلے کرکے ایک خودمختار قوم بن سکیں۔
اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس ملک کی نوجوان نسل میں سامراج کے سیاسی, معاشی اورفکری ہتھکنڈوں کا شعور اور بیداری پیدا کرکے انہیں آزادی کا سامان مہیا کیا جائےاور انہیں متبادل علمی اور عملی تربیت کا ماحول فراہم کرکے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی تبدیلی میں ایک منظم اجتماعیت کا بہت بڑا کردار ہوتاہےاور یہ کہ شخصی اندھی تقلید سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتیں بلکہ تبدیلی کےلیے باشعور اور اعلی تربیت یافتہ ٹیم کا ہونا ضروری ہے۔