چکی کی مشقت
یہ کہانی ہے چکی کے دو پاٹوں میں پستے ہوئے ان لوگوں کی جن کے آباؤ اجداد نے چکی کی مشقت کو اپنا روزگار بنایا۔ اور صدیاں گزرنے کے باوجود۔۔۔۔۔۔۔
"چکی کی مشقت"
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
یہ کہانی ہے چکی کے دو پاٹوں میں پستے ہوئے ان لوگوں کی جن کے آباؤ اجداد نے چکی کی مشقت کو اپنا روزگار بنایا۔ اور صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی آنے والی نسلوں نے اپنے بڑوں کی یادگار سمجھ کر ابھی تک اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ یہ چکی دیکھنے میں تو عام سی ہی ہے لیکن صدیاں گواہ ہیں کہ ان کو "شاہی چکی" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
یوں تو پتھروں کو کاٹ کر کارآمد بنانے کا ہنر صدیوں سے انسانی تاریخ میں رائج رہا ہے لیکن جن چکیوں کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے ان کا تعلق سندھ کے کوہستانی علاقے "جنگ شاہی" سے ہے۔ "جنگ شاہی" ٹھٹھہ سے شمال کی جانب تقریباً 20کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شہر ہے جو سندھ کے کئی شہروں کی طرح اپنی پس ماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گذشتہ دنوں دوستوں کے ہمراہ جنگ شاہی جانے کا اتفاق ہوا۔ جنگ شاہی شہر کا نام شاید کبھی کسی شاہی خاندان کی وجہ سے رکھا گیا ہوگا لیکن تاریخ کے صفحات اس بارے میں چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ البتہ ایک بزرگ کا مزار جنگ شاہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں کے ریلوے اسٹیشن کے علاوہ جو چیزیں مشہور ہیں ان میں یہاں کی میٹھی اور خستہ "بالو شاہی" اور "شاہی چکیاں" ہیں۔
شہر کے مضافات میں واقع سخت پتھروں کے پہاڑ اس شہر کے باسیوں کا ایک ذریعہ روزگار بھی ہیں۔ کوہ کنی کے عادی یہ لوگ بغیر کسی جدید مشینری کے بڑے بڑے پتھر کاٹ کر یہاں لاتے ہیں اور پھر ان کو سلوں اور چکی کے پاٹوں کی شکل دیتے ہیں۔ پیلے رنگ کے ان پتھروں سے متعلق صنعت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ان پتھروں سے چکیوں کے پاٹ بنانے کے علاوہ سل بٹے، اوکھلی، بیلن، سرمے دانیاں، قبروں کے کتبے شامل تھے۔ مکلی، چوکنڈی، سونڈا کے طرح کے 100کے قریب قبرستانوں میں لگے پتھروں پر نقش و نگار کا کام دیگر علاقوں کی طرح اس جگہ بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ کام محض چکی کے پاٹوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ان پتھروں کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 700سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود قبروں پر لگے پتھروں پر بنائے گئے نقش و نگار آج بھی موجود ہیں۔ گو کہ صدیوں کے موسمی تغیرات نے ان پر اپنا اثر ضرور ڈالا لیکن ان پر موجود نقوش اس علاقے کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جس شہر میں چکیوں کےبنانے والے ماہرسنگ تراش کی اکثریت تھی اب وہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک غلام نبی سے بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ ان کا خاندان صدیوں سے یہ کام کر رہا ہے۔ کبھی ایک وقت تھا جب سنگ تراشی کا یہ کام نقش و نگار کی صورت میں تھا لیکن اب تو زندوں کو کوئی نہیں پوچھتا تو قبروں پر کون نقش بنوائے گا۔
ان ہنر مندوں کو پتھر پر لگائی جانے والی چوٹ کا اندازہ بہت خوب ہے۔ مقامی اوزاروں کا انتہائی خوبی سے استعمال اور ناپ تول کا روائتی انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ تیشے(چھینی) کی پتھروں پر چوٹ سے پیدا ہونے والی ٹھک ٹھک کی آواز کی موسیقی بھی بے مثل ہے جس کو سن کر یہ لوگ اپنے کاموں میں مگن ریتے ہیں۔ ہتھوڑی اور تیشے کی مدد سے پتھروں پر لگائی گئی چوٹ کا جواب پتھربھی اپنے اندر سے اٹھنے والی پتھریلی دھول کی صورت میں دیتے ہیں جو ان کاری گروں میں پھیپھڑوں اور سینے کی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے سینے پر لگی چوٹ کا بدلا پتھر نے کاری گر کے سینے کے اندر چوٹ لگا کر لیا ہو۔
ایک وقت تھا جب جنگ شاہی میں بنائی جانے والی چکیوں کی مانگ پورے برعظیم پاک و ہند میں تھی اور بڑی جانفشانی سے یہ کام کیا جاتا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے ریل کی پٹری بچھائی توجنگ شاہی کے ریلوے اسٹیشن کی وجہ سے یہ شہر ایک بار پھر آباد ہو گیا۔ سامان لانے لے جانے کے لیے ایک گودام بنایا گیا جو آج بھی اسٹیشن پر موجود ہے لیکن اپنی تہی دامنی اور خستہ حالی کا رونا رو رہا ہے۔ گاڑیوں کی آمد و رفت نے ان چکیوں کی دور دراز علاقوں تک رسائی ممکن بنائی تو اس علاقے کی سانس کچھ بحال ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد جیسے جیسے ٹرینوں کی آمد و رفت بڑھی تو اس علاقے کے پتھروں نے ایک وقت ایسا بھی دیکھا کہ ایک دن میں متعدد گاڑیوں نے یہاں رک کر سکون کاسانس لیا، سامان سے اپنا پیٹ بھرا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئیں۔ ہوٹلوں، ٹھیلے والوں،فروٹ اور مشروبات بیچنے والوں کا روزگار اسی اسٹیشن کے مرہون منت تھا لیکن آج اسٹیشن پر ہو کا عالم ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ٹرین بے وفا محبوب کی طرح علاقے کی خاموشی کا سینہ چیرتی ہوئی ایسے تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے جیسے کبھی شناسائی ہی نہ ہو۔
آمد و رفت کے ذرائع لا محالہ کسی خطے کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی صنعتوں کا دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ جنگ شاہی بھی ان بد نصیب شہروں میں سے ایک شہر ہے جس کا ماضی تو ہریالی و خوش حالی سے عبارت تھا لیکن اب سنگ تراشی کا یہ ہنر چند لوگوں تک محدود ہو گیا ہے اور وہ اس ہنر کی بے وقعتی کی وجہ سے اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کے لیے کسی طور بھی راضی نہیں ہیں۔ کئی مقامی صنعتوں کی طرح یہ قدیمی صنعت بھی رو بہ زوال ہے۔ ان ماہر ہنر مندوں کی زندگی بھی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے جس کے ایک طرف مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان ہے تو دوسری جانب اس قدیم ہنر کی عدم سرپرستی۔
کچھ دیر ان ہنر مندوں کے درمیان گزارنے کے بعد ان سے اجازت لے کر روانہ ہوئے تو وہ لوگ اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ یہاں آتے وقت چھینیوں کی جو آواز بڑی مدھر محسوس ہو رہی تھی کاری گروں کی خستہ حالی دیکھ کراب سینے پر کسی چوٹ سے کم اثر نہیں تھی۔ اس جگہ سے جیسے جیسے ہم دور ہوتے گئے ویسے ویسے وہ آوازیں کسی سنسان ویران ماحول میں دفن ہوتی گئیں۔
کسی قوم کے ہنر مندوں کا اس طرح زوال کی جانب چلے جانے میں ہمارے نظام کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا معاشرہ قائم کرنے کی جانب قدم بڑھایا جائے جس میں محنت و مشقت کی اساس پر معاشرت قائم ہو۔ تاکہ قوم کے ان جیسے ہنر مندوں میں کم مائیگی کا احساس نہ ہو اور قوم مجموعی طور پر ارتقا کی جانب قدم بڑھائے۔ ورنہ یہ اصولِ فطرت ہے کہ
"مکافاتِ عمل کی چّکی چلتی آہستہ ہے لیکن پیستی بہت باریک ہے"۔