ٰہمارا فکری المیہ
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس بات کا شعور حاصل کرنا چاہیے کہ سامراج ہمیں ہماری تاریخ سے کاٹنے کے لیے کس انداز سے فکری حملے کرتا ہے۔
ہمارا فکری المیہ
تحریر : محمد اشفاق لاہور
گزشتہ دنوں مولانا مودودی (بانی جماعت اسلامی) کی تصنیف "خلافت و ملوکیت" کے مطالعہ کا اتفاق ہوا جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام صرف 40 سال یعنی خلافت راشدہ تک ہی قائم رہا اس کے بعد ملوکیت یعنی آمریت کا آغاز ہو گیا۔
"خلافت و ملوکیت " کے مطالعہ کے بعدایک عام ذہن کا اپنی اعلیٰ اور بےمثال تاریخ کے حوالے سے فکری انتشار اور ابہام کا شکار ہونا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ مذکورہ کتاب کے رد میں بہت سےاہل علم لوگوں نے قلم اٹھائے ہیں ۔ان میں ایک کتاب "شواہد و تقدس" جو کہ حضرت مولانا سید محمد میاں ؒصاحب کی تصنیف ہے، مطالعہ سے گزری ہے۔ میاں صاحب ایک مستند اور اعلیٰ پایہ کے عالم دین ہیں اور مؤرخ بھی ہیں۔ "شواہد و تقدس" میں میاں صاحب نے مودودی صاحب کے مقدمہ کا علمی اور تاریخی حوالہ سےتجزیہ کیا ہے۔" شواہد و تقدس" کا مقدمہ جناب پروفیسر امجد علی شاکر صاحب نے لکھا ہے اور مودودی صاحب کے ذہنی و فکری پس منظر کا ایک بہترین تجزیہ بھی کیا ہے۔
تاریخ شناسی کے حوالے سے یہ رائے بنتی ہے کہ جب کوئی قوم زوال کا شکار ہوتی ہے تو پہلے اس کا سیاسی اور معاشی نظام ختم ہوتا ہے پھر اس کے فکر و فلسفہ پر حملہ ہوتا ہے۔ اگرفکر و فلسفہ محفوظ رہے تو وہ قوم جدوجہد کر کے پھر سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ حاصل کر سکتی ہے لیکن اگر اس کا فکر و فلسفہ بھی انتشار کا شکار ہو جائے یااس میں ابہام پیدا ہوجائے تو پھر وہ قوم کبھی بھی زوال سے نہیں نکل سکتی۔ اس سلسلے میں اس قوم کا اپنی تاریخ کودرست حقائق اور صحیح تناظر میں سمجھنا بہت ہی اہم ہوجاتا ہے۔
ایک قوم جب کسی علاقہ کو فتح کرتی ہے تو اپنے مفتوحہ علاقوں میں اپنے فکر و فلسفہ کو فروغ دیتی ہے اور مقامی فکر و فلسفہ پر بھی چوٹ لگاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال برصغیرکاخطہ ہے۔ انگریز سامراج نے جب ہندوستان میں اپنا سیاسی و معاشی تسلط قائم کیا تویہاں کے مقامی سسٹم کو ختم کر کے یہاں کی اقوام کو فکری طور پر بھی مفلوج بنانے کا کام کیا۔ خاص کر مسلمانوں کے فکر و فلسفہ میں انتشار اور ابہامات پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں اور مختلف کج فکر گروہوں کو پروان چڑھایا ۔ قادیانی لابی کوجنم دیا، مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔دینی نظام فکر اور عمل کی نئی نئی تعبیریں پیش کی گئیں، جن کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ جہادِ اسلامی ،اسلامی خلافت، اسلامی معیشت،اسلامی حکومت کے عنوان دے کر من پسند تشریحات کروائیں اور سیرت رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ ایک ہزار سالہ روشن مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جس کا مقابلہ اس خطے کے جید علماء ربانیین اور صوفیاء کرام نے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سامراج کی ان چالوں کو سمجھیں اور دینی فکر کی اساس پر درپیش عصری تقاضوں کو سمجھیں اوراس کی تشکیل نو کے لیے عمدہ حکمت عملی اختیار کریں۔