کُرد ” اُمہّ “ کا ٹیسٹ کیس - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کُرد ” اُمہّ “ کا ٹیسٹ کیس

    اُمت مسلمہ کے جمہورکو اس بات کا شعوری ادراک کر لیناچاہیے کہ یہ دور قومی ریاستوں کا ہے

    By رشیداحمد Published on Oct 18, 2019 Views 3408

    کُرد ” اُمہّ “ کا ٹیسٹ کیس

    تحریر: چوہدری رشید احمد ، ملتان

    امت مسلمہ کا بین الاقوامی نظا م ٹوٹے سوسال مکمل ہوچکے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد یہ اُمہ کئی ملکوں میں بٹ گئی۔  تب سے امت مسلمہ کا جذبات بھرا نعرہ موجود ہے۔ مسئلہ صرف مسلم نظام حکومت کے خاتمہ کا نہ تھا بلکہ یہ  ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ حجاز میں  دین اسلام کے نظام کے قیام کے بعد امت مسلمہ کا سیاسی  غلبہ کسی نہ کسی مرکز(دمشق، بغداد، قسطنطنیہ ، غزنی ،   دہلی)  سے  ابھرتا رہا اور اس غلبہ کو محفوظ رکھنے  کی کوئی نہ کوئی صورت گری ہوتی رہی۔ لیکن بیسویں صدی  سے بین الاقوامی نظام کا بندو بست بدل گیا اور قومی ریاستوں کا تصو ر ابھرا ۔ اس دور میں غلبہ دین کی صورت گری کیا ہو ؟ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک سوال تھا۔ جس کےلیے   ٹھوس جواب  کی تلاش تھی۔   ایک طبقہ  پوری اُمہ کی اسلامی فکر کی  اساس پر اتحاد و اتفاق کا متمنی  تھا جو پچھلے سو سال سے حسرت  ہی بنا ہوا ہے۔  ایک طبقہ نئے دور کی حقیقتوں کو سمجھانے میں کوشاں رہا۔ جیسا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے1941 میں  برصغیر کے سماجی پس منظر میں جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے متوجہ کیا کہ

    "آج ہم اپنے نوجوان کو انٹرنیشنلسٹ بننے سے روکتے ہیں۔ کیوں کہ اسلامی انٹرنیشنلزم کا تو کوئی اجتماعی مرکز رہا نہیں۔ اور لا دینی انٹرنیشنلزم کا زور شور سے منظم پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔ وہ لوگ (یعنی سامراجی قوتیں )اپنے مطلب میں کامیاب ہونے کے لیے نہایت عمیق (گہری) چالیں چل رہے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان دھوکا سے لا دینی نہ بن جائے۔ ۔۔اسی طرح ہم ایک ہندوستانی عالم کو اس سے روکتے ہیں کہ وہ کسی مسلمان بادشاہ کا انتظار کرے جو باہر سے آئے گا ۔ ہم جانتے ہیں کہ اب کوئی مسلمان بادشاہ تو باہر سے آ نہیں سکتا۔ اور یہ بھولا مسکین کسی لا دینی دولت (حکومت)کے پیچ( آلہ کاری ) میں نہ پھنس جائے"۔

    اب  اُمہ کے پاس العالمی کے نام کی تحریکات تو موجود ہیں لیکن عدل کے  نظام کا وجود کسی  ایک قومی ریاست  میں بھی نظر  نہیں آرہا ۔ اور بعض ریاستوں میں تو بین الاقوامی ایشوز  کو  قومی  مسائل سے انحراف کے لیے بطور ایجنڈے کے استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں عوامی حقوق اور ا ن کے بنیادی مسائل ایک طرف ہوجاتے ہیں اور عالمی مسائل پر ایسے گفتگو کی جاتی ہے کہ قومی قیادت بین الاقوامی ایشوز کی  چیمپئین نظر آتی ہے۔ ابھی حال ہی میں 2019 کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اُمہ کے قائدین کی  دھواں دار تقریروں کی بازگشت ہے۔ جس کے ساتھ اُمہ کا نشریاتی ادارہ (ٹیلی ویژن چینل )تشکیل دینے کا تصوربھی دریافت ہوا ہے۔

    بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کی صورتحا ل یہ  ہے کہ   مسئلہ، فلسطین کے مسلمانوں کا ہو یا برما کے مسلمانوں کا،  یا جنوبی ایشیا کا سلگتا مسئلہ ، کشمیر کے مسلمانوں کا  ہو ۔ ان  میں سے کوئی مسئلہ ایک صدی پرانا ہے تو کوئی نصف صدی  لیکن کسی حل کی طرف جاتا نظر نہیں آتا ۔  پچھلے دو عشروں  میں امت مسلمہ میں گھرے ممالک افغانستان، عراق،لیبیا،  شام ادھیڑ کر رکھ دیے گئے ۔ امت کو آوازیں دی جاتی رہیں لیکن  ان ممالک کے عوام کی اپنی آواز کی گونج بھی لوٹ کر  نہ آنے دی گئی ۔ لیکن نہ جانے کتنی ہی قیادتیں ان ایشوز پر اپنی سیاست چمکاتی رہیں ۔ آج یہ ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں ۔ اگر یہ امت مسلمہ  ایک حقیقت  رکھتی ہے تو اس کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے تو  امور سماجیات کے مسلم طالبعلم اسے ایک ٹھوس سیاسی حقیقت کے طور پر اپنائے رکھیں اور  اگر ایسا کچھ نہیں ہوپاتا تو اس سچے جذبے سے انسانیت کا درد رکھنے والے عناصر اس دور میں دین کی اساس پر  سماجی تشکیل کی نئی حقیقتوں کے متلاشی بنیں اور   اس دور کے حق کا شعوری ادراک کرکے اس راہ حق  پر چلیں ۔ تاکہ جس تباہی کی طرف  معاشرے جارہے ہیں  اس کے راستے میں کوئی صحیح  بندھ باندھا جاسکے ۔اس کا بھی جائزہ لیں کہ  امہ کادرد کہا ں اٹھتاہے اور کہیں کیوں نہیں اٹھتا۔ کہیں  یہ درد عالمی قوتوں کے مفاد سے تو نہیں جڑا ہوا۔

    ٹیسٹ کیس مشرق وسطی میں موجود  کُردوں کا مسئلہ ہے ۔  فلسطینی ، کشمیری  اوربرمی مسلمانوں  کا قضیہ  تویہود و ہنود کے ساتھ جڑا ہواہے ۔ لیکن کُردوں  کے معاملے میں ہر طرف اُمہ کے ہی ممالک ہیں ۔ مشرق وسطی میں کُرد چوتھی بڑی قوم ہے۔ جن کی آبادی 3 سے ساڑھے تین کروڑ کے درمیان ہے۔ امت مسلمہ کے عظیم ہیرو صلاح الدین ایوبی بھی کُر د تھے ۔جنہوں نے کُرد سلطنت کی بنیاد رکھی اوراسی طرح کردوں کے آزاد قبائل کا نظام بھی رہا۔  کُر د وں کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے۔  علاقے کی اس مناسبت نے انہیں جفاکش ، بہادراور جنگجوقوم  کے طور پر  ڈھالا  ہےجنہیں  مشرق وسطی کی محافظ  ایک مضبوط مسلم  فوج  کے طورپر بھی منظم کیا جاسکتا تھا۔  برطانیہ نے جس طرح برصغیر پر قبضہ کیا تھا اسی طرح مشرق وسطی پر بھی اپنا تسلط قائم کیا ۔ جس  طرح برصغیر میں  مذہبی تفریق  کوابھار کرتقسیم کیا اسی طرح مشرق وسطی میں  علاقائی و  نسلی    شناخت ابھار کراس خطے کو  تقسیم کیا  اور بہت سے ملک قائم کردیے۔  جس طرح  برصغیر میں آزادکشمیر کو ایک مسئلہ کے طور پر چھوڑ دیا اسی طرح یہاں کردوں کے معاملے کو بھی ادھورا رکھا ۔ جس طرح کشمیر انڈیا، چین، پاکستان میں تین حصوں  میں تقسیم ہوا اسی طرح کُرد عراق، ایران،شام اور ترکی چار حصوں میں تقسیم ہیں۔

      کالونیل ماسٹرز  نے یہ عمل  دو طرح کے علاقوں اور قوموں میں  کیا۔ یا تو  وہ علاقے وسائل سے مالامال تھے یا وہاں کی قوم بہادر تھی جس نے سرنڈر نہیں کیا ۔ اس نے  ان قوموں کوتقسیم کردیا  اور انہیں ایک دوسرے سے بھی لڑایا اور ان کو اپنا اسلحہ بھی فروخت کیا اور ان کے وسائل کو بھی لوٹا۔یوں یہ منقسم قوم ایک دوسرے سے بھی برسر پیکا ر ہوتی رہیں ۔یہ جس ملک میں موجود ہوتے تھے ان ملکوں کے حکمران اپنے مفادات کے لیے ان کو ہمسایہ ملک میں مہم جوئی کے لیے بھی استعمال کرتے رہے۔   کردوں  میں دوطرح کے رجحانات پائے جاتے  ہیں ۔ مسلح جدوجہد اور جمہوری جدوجہد ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان چاروں ملکوں نے  جمہوری جدوجہد کے حامل کردوں کو آگے بڑھنے کے مواقع ہی نہیں فراہم کیے۔  دوسری طرف  اپنے حقوق کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے  کُردوں کو باغی قرار دے کر ان کی  نسل کُشی بھی کی جاتی رہی   ہے۔

     بعض مسلم تحریکوں کا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ جمہوری طریقہ کار کو  چھوڑ کر اسلحہ اٹھالیتے ہیں۔اسلحہ  کے بیشتر ذرائع امریکہ سامراج کے پاس ہیں ۔ وہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور سامراجی مقاصد پورے ہوتے ہیں انہیں ہی ایک عفریت بنادیتا ہے۔  انہیں باغی قرار دے  کر ماراجاتاہے۔ دہشت گردی کا لیبل لگاکر تو کسی کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ وہ ایسی قوموں  اور گروہوں پر چڑھ دوڑے اور انہیں  کمزور کردے یوں  ان کی نسلوں میں تشدد اور انتقام کی سوچ پیدا کر کے انہیں مستقل اس راستے پر لگاکر رکھے ۔  شدت پسندی میں ڈھلی بعض قوتیں بے شعوری میں سامراج کی آلہ کاری کا کردار بھی اداکرتی  رہی ہیں ۔

    حالیہ دنوں میں ترک حکومت ، بشار الاسد   مخالف عسکریت پسند گروپوں کو متحد کرکے ان کے ذریعے کُردوں  پر لشکر کشی کررہی ہے۔ دوسری طرف  شامی فوج نے  بھی ان کُردوں کے ساتھ مل کر ترکی  کے زیر اثر اپنے علاقے خالی کروانے کی حکمت عملی بنائی ہے۔  یہ ایک صدی سے جاری عمل کا  حصہ ہے کہ مسلم ہی مسلم کے مدمقابل ہے ہیں ۔ جس سے کوئی مسئلہ تو حل ہو نہیں پاتا البتہ کوئی نیا انسانی المیہ جنم لیتا  رہتاہے۔

    مشرق وسطی کے ممالک  کی طرف سے اور نہ  ہی جدید جمہوریت کے بانی یورپ و  امریکہ  کی طرف سے  کُرد جمہوری پارٹیوں کی حوصلہ افزائی  کی گئی۔ خود ترکی نے کُرد جمہوریت نواز پارٹیوں پر پابندی لگائی، خواہ جوا ز کوئی بھی بنایا ہو لیکن اس سے مسلح جدوجہد کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔اگر  کُرد اپنی کوئی آزاد حیثیت چاہتے ہیں  تو یہ بھی  جمہوری راستے  اور ٹیبل ٹاک کے ذریعہ ہی ممکن  ہے۔ لیکن سامراجی قوتیں تشدد پسندی کی راہ  ہموار کرتی چلی آرہی ہیں ۔

     کرد وں کا مسئلہ چاروں جانب سے امت مسلمہ کے بیچ   ہے۔ مذکورہ ممالک کے حکمرانوں کے دل میں برماسے لیکر کشمیر سے ہوتے ہوئے فلسطین کے مسلمانوں کے لیے ہمدردی اور کُڑھن کے جذبات عالمی سطح پر بھی ملتے رہتے ہیں ۔اسی  طرح اُمہ کا جذبات سے بھرپور  نعرہ رکھنے والے راہنما مشرق وسطیٰ جائیں اور ان چاروں ملکوں کےساتھ مل کر  کروڑوں کی تعداد میں موجود کُرد مسلمانوں کے لیے کوئی معقول حل تلاش کریں ۔تاکہ امت مسلمہ اور مشروق وسطی کے ممالک کی آزادو خود مختار ہونے کی  حقیقت   واضح ہوسکے ۔ یوں سامراج کا اس خطے میں کسی بھی قسم کا مداخلت کا راستہ  بند ہوجائے ۔ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو اُمت مسلمہ کے جمہورکو اس  بات کا شعوری  ادراک کر لیناچاہیے  کہ یہ دور قومی ریاستوں کا ہے جب تک  ہر ملک اپنے  عوام کے حقوق کا محافظ نہیں بنتا ، اپنے وسائل کا مالک بن کراپنی قومی فیصلوں سے ان وسائل کو استعمال میں لاکر  معاشی طاقت نہیں بن جاتا، اس وقت تک اس کا کوئی وقار قائم نہیں ہوسکتا ۔آزاداور معاشی طاقت کے حامل  مسلم ملک علاقائی قوتوں کے ساتھ برابری کی بنیادپر تعلقات استوار کریں  جس کا اگلاعمل بین الاقوامی نظام پر اثر پذیری ہوگا۔

     

    Share via Whatsapp