شخصیت پرستی اور جماعت سازی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • شخصیت پرستی اور جماعت سازی

    جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کی سوچ پست اور معیارات بھی کم تر ہوجاتے ہیں۔

    By محمد علی Published on Nov 25, 2025 Views 255

    شخصیت پرستی اور جماعت سازی 

    تحریر: محمد علی ۔ڈیرہ اسماعیل خان 

     

    جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کی سوچ پست اور معیارات بھی کم تر ہوجاتے ہیں۔ان کے ہیرو،ان کے نظریات،ان کے عقائد سب دھندلا جاتے ہیں۔یہ فکری زوال معاشرے کو تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے۔اس فکری زوال کو برپا کرنے اور اسے مزید طاقت بخشنے کے پیچھے کچھ قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ان قوتوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ فکری طور پہ ہیجان اور زوال برقرار رہے،تاکہ چند مقتدر قوتیں اس سے فائدہ اُٹھاتی رہیں۔

    فکر چوں کہ ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے تیسری کو منتقل ہونے والی چیز ہےاور اسی فکر پر ہی نظریات تعمیر ہوتے ہیں۔لہٰذا اس کو ایک سسٹمیٹک طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہم یہاں زوال پذیر معاشرے میں پھیلے ایک غلط نظریے شخصیت پرستی“ کے حوالے سے بات کرتےہیں،جو کہ زوال پذیر معاشرے میں عام سی بات ہے۔

    شخصیت پرستی کو ترتیب دینے اور اس کی ترویج کرنے کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہے۔اس کے پیچھے خاص مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔عموماً شخصیت پرستی کا شکار کم عمر طبقہ ہوتا ہے،جس میں حالات و واقعات کے تجزیہ کی قوت کم ہوتی ہے۔وہ ظاہری اور جذباتی چیزوں سے جلد متاثر ہوجاتا ہے۔شخصیت پرستی کو پھیلانے کا ایک ذریعہ نصاب بھی ہے۔نصاب اصلاً تو تنقیدی اور تجزیاتی قوت کو بڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔لیکن یہاں نصاب کے ذریعے خیالات اور نظریات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    اگر ہم پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو یہاں ہم بچپن سے یہی پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایا،قدیر خان نے ایٹم بم بنایا اور علامہ اقبال مصورِ پاکستان ہیں۔

    پاکستان کس نے بنایا؟کیوں بنایا؟ان سوالات کے حقیقی جوابات اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہیں۔لیکن اگر تخلیق پاکستان کے حوالے سے ریاستی مؤقف کو ہی بیان کرنا تھا تو کم از کم مسلم لیگ کا نام ہی لکھ دیا جاتا۔اسی طرح پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے حوالے سے اس پوری ریسرچ ٹیم کا تعارف کروایا جاتا، جس کو ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہیڈ کررہے تھے،لیکن یہاں بھی یہی تعارف کروایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ایٹم بم بنایا۔

    اگر سیاست سے ہٹ کر فلم انڈسٹری کے حوالے سے بات کریں تو وہاں بھی "ایک ہیرو" پورے گاؤں کے مسائل حل کردیتا ہے۔وہ دس دس، بیس بیس غنڈوں سے لڑ رہا ہے۔ہر حادثے اور ظلم والی جگہ پر فوراً پہنچ جاتا ہے۔یہاں تک کہ گولیوں کی بوچھاڑ سے بھی زندہ و سلامت بچ نکلتا ہے۔یہ واردات صرف ہمارے یہاں نہیں ڈالی جارہی، بلکہ مغرب جیسے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں بھی یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔ہالی وڈ میں بننے والی کئی فلمیں جیسے سوپر مین،سپائڈر مین،آئیرن مین اور دیگر اس کی مثالیں ہیں۔

    اگر ان فلموں میں پیش کردہ ہیرو ایک عام انسان ہوتا، تب بھی کوئی بات تھی، لیکن اکثر ایسی فلموں کے ہیرو مافوق الفطرت قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔وہ کبھی آسمانوں میں اُڑ رہے ہیں،کبھی کھائی میں گِرتی بس کو گِرنے سے روک رہے ہیں تو کبھی فلک بوس عمارات کو گِرا رہے ہیں۔

    کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟شخصیات کو ذہن میں راسخ کرنے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟کیا کسی انسانی معاشرے کے مسائل فردِ واحد یا فافوق الفطرت مخلوق حل کرے گی یا انسان؟کیا ماضی میں کسی فردِ واحد نے معاشرے کے سارے مسائل ختم کیے؟

    دراصل شخصیت پرستی کو ذہن میں راسخ کرنے کے پیچھے یہ وَجہ پوشیدہ ہے کہ انسانی معاشرہ جماعت کے بجائے،فردِ واحد یا کسی مافوق الفطرت مخلوق کا انتظار کرے۔

     یہ خیال ذہن میں آسکتا ہے کہ محض جماعت سے دور رکھنے کے لیے شخصیت پرستی میں مبتلا کیوں کیا جاتا ہوگا؟جماعت میں ایسی کون سی چیز ہے جو اسے ممتاز بناتی ہے؟

    اس کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کسے کہتے ہیں؟کیوں کہ ہمارے ہاں جماعت کا تصور بھی کافی دھندلا چکا ہے، بلکہ بدنام ہوچکا ہے۔کیوں کہ اس نظام کی آلۂ کار قوتوں نے اپنی ضرورت کے لیے مختلف جماعتیں اپنے گملے میں لگائیں،ان کی آبیاری کی،پھر ضرورت ختم ہونے پہ ان کو اُکھاڑ کے پھینک دیا۔یہ کھیل آج تک جاری ہے۔

    ہم رہےسدا کے اناڑی نیاجال لائے پرانے شکاری

     پچھلے دِنوں صحافت سے جڑی ایک شخصیت نے ایک جماعت بنانے کا اعلان کیا۔جماعت تو بن گئی، لیکن ابھی تک یہ علم نہیں کہ اس کا نظریہ کیا ہے؟اور وہ کس کی نمائندہ ہے؟

     جماعت سے مراد انسانوں کی ایک ایسی منظم اجتماعیت ہے جو کسی خاص نظریہ پر تربیت یافتہ ہو۔اس کے تمام کارکنان اس نظریہ کو دل و جان سے قبول کرچکے ہوں اور جماعتی نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوں۔اس کے ادنیٰ سے ادنیٰ کارکن سے لے کر امیرِ جماعت تک کے نظریے میں سرِمو بھی اختلاف نہ ہو۔

    جماعتی طریقہ کےبرعکس شخصیت پرستی کو فروغ دینے سے انسانی معاشرہ ایک سسٹمیٹک طریقے سے آگے بڑھتا ہے۔جبکہ سماج ترقی کی منازل اجتماعی طور پر طے کرتاہے۔معاشرہ منظم جد وجہد اور اجتماعی کوششوں سے ہی اپنے اہداف کو حاصل کرتا ہے۔اگر اس میں اِنفرادی جدوجہد جاری ہو تو چند افراد تو ترقی کرجائیں گے،لیکن بہ حیثیت مجموعی معاشرہ زوال پذیر ہی رہے گا۔

    معاشرے کی اجتماعی ترقی کے لیے لازم ہے کہ اس کے با صلاحیت لوگ آگے آئیں۔وہ معاشرے کے مسائل کی تشخیص کریں۔اس معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا حل تجویز کریں۔پھر منظم انداز میں ان مسائل کو ختم کرنے اور طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں۔اگر معاشرہ اوپر بیان کردہ اصول کے بجائے کسی ایک شخصیت کے انتظار میں بیٹھا رہے۔یا کسی ایک شخصیت ہی سے یہ امیدیں وابستہ کر لے کہ وہ ہی ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہےتو ایسے میں معاشرہ بے عملی اور سستی کا شکار ہوجاتا ہے۔اس میں ترقی و تبدیلی کا عمل رُک جاتا ہے۔

    اردو میں ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ "ایک اکیلا دو گیارہ" یعنی دو"ایک" مل کر گیارہ بناتے ہیں، جن سے ان کی قدر بڑھ جاتی ہے۔لیکن اکیلے"ایک" کی قدر ایک ہی ہوتی ہے۔یہی اصول معاشرے کا ہے۔جماعت کی طاقت اور ایک شخصیت کی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔انسانی تاریخ کی زیادہ تبدیلیاں جماعت ہی سے رونما ہوئیں۔

    اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ان کو معجزات عطا کیے،لیکن ان باعزم پیغمبروں نے بھی اپنے معاشروں کے باصلاحیت افراد کو اپنے مشن، اپنے پروگرام کی دعوت دی۔ان کو ساتھ ملایا۔ان کی تربیت کی۔ان کو ایک جماعت کی شکل دی۔ ان کو نظم و ضبط کا نمونہ بنایا۔انھیں ایک بنیان مرصوص بنایا۔اس کی سب سے اعلیٰ مثال اللہ کے آخری پیغمبر رسول اللہﷺ کی جماعت ہے۔رسول اللہﷺ نے مکہ کے معاشرے سے باصلاحیت افراد کو اپنا ساتھی بنایا۔ان کو اپنے پیغام اور نظریے پہ تربیت دی۔ان کو ضائع ہونے سے بچایا۔انھیں انسانی مسائل کو حل کرنے،معاشروں کو آگے بڑھانے کے علوم منتقل کیے۔پھر اسی جماعت نے مدینہ میں جا کر ایک عادلانہ ریاست قائم کی،جس میں ہر فرد کو بلاتفریق رنگ،نسل،مذہب؛آزادی،امن،خوش حالی اور عدل میسر تھا۔پھر یہ سفر مکہ اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیل گیا۔

    آج انسان دشمن سامراجی قوتیں اور ان کے آلۂ کار،میڈیا،اخبارات اور نصاب کے ذریعے مختلف معاشروں کو شخصیت پرستی میں مبتلا کررہی ہیں،جس کی بنیادی وَجہ یہی ہے کہ وہ جماعت سازی کی طرف نہ چلے جائیں۔یوں سامراجی قوتیں ہمیں کبھی کسی شخصیت کے پیچھے لگا دیتی ہیں کبھی کسی کے۔بہ ظاہر تو وہ شخصیات کسی نہ کسی پارٹی کے سربراہ اور لیڈر ہوں گے۔لیکن پارٹی کا نہ تو کوئی نظریہ ہو گا نہ کوئی منشور،بس اس ایک شخص کی ذات ہی سب کچھ ہوگی۔

    یہ عمل دو طرح سے نقصان دہ ہے، ایک اس طرح عام آدمی نظام کے بجائے شخصیات کو موردِالزام ٹھہراتا ہے۔اسے لگتا ہے کہ مسئلہ نظام میں نہیں شخصیات میں ہے۔ اگر فلاں کو ہٹا کر فلاں کو بٹھایا جائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔دوسرا اس طرح کے انسانی معاشرے کا فطری اصول ہے کہ سماجی تبدیلی منظم جماعت ہی برپا کرتی ہے۔شخصیت پرستی میں اس اصول کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔

    آج شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہو کر نوجوان یہ نہیں سوچتا کہ مسئلہ نظام میں ہے یا شخصیات میں؟کیا جماعت کے بغیر فرد کی کوئی حیثیت ہے؟کیا وہ جس شخصیت کے سحر میں مبتلا ہے،اس میں انسانی معاشرے کے مسائل حل کرنے کی اہلیت ہے؟کیا اس کے پاس انسانی معاشرے کے مسائل کا حل ہے؟کیا سماجی تبدیلی فردِواحد سے ممکن ہے؟کیا معاشرے میں جماعت کی کوئی اہمیت ہے؟

    حل یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں پھیلے مسائل کے لیے کسی شخصیت کی طرف دیکھنے کی بجائے جماعت سے جڑیں۔ایسی جماعت سے جو اعلیٰ نظریے پہ قائم ہو۔جو انسان دوستی اور خدا پرستی پہ مبنی ہو۔جو بلا تفریق رنگ نسل و مذہب تمام انسانوں کی ترقی کا نہ صرف جذبہ رکھتی ہو، بلکہ اس کے پاس اس ترقی کو حاصل کرنے کا روڈمیپ بھی موجود ہواور ایسے افراد بھی جو کل کو ملکی اداروں کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

    Share via Whatsapp