آج کا نوجوان مایوس کیوں؟
نوجوان نسل کو مایوسی سے نکل کر اجتماعی طور پر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

آج کا نوجوان مایوس کیوں؟
تحریر: سعدسعید ، مانسہرہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ وہ قومی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کیوں کہ نوجوانی کا زمانہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بہار کا موسم ہے۔ جس قوم کے نوجوان باشعور، تربیت یافتہ اور اپنے مقصد سے آگاہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی ذہنی و جسمانی توانائیوں کو صحیح وقت پر صحیح سمت میں استعمال کرتے ہیں، تو پھر اس قوم کو ترقی کی منازل سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔ البتہ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب نوجوان اپنے اور اپنی قوم کی فلاح کے لیے صحیح سمت کا تعین کریں اور صدقِ دل سے اپنے ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے خود کو وقف کر دیں۔
اگر ہم اپنی قوم کا جائزہ لیں تو نوجوان طبقہ آبادی کے لحاظ سے نسبتاً زیادہ تعداد میں موجود ہے۔ تو پھر آخر ہماری اس تنزلی کا سبب کیا ہے؟ کیا ہمارے نوجوان محنت نہیں کرتے؟ کیا ان میں صلاحیتوں کی کمی ہے؟ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان نہ صرف محنت کرتے ہیں، بلکہ صلاحیتوں کے اعتبار سے کئی اقوام سے آگے ہیں۔ ذہانت اور استعداد میں کوئی کمی نہیں، پھر مسئلہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج کے نوجوان معاشی بدحالی اور سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ وہ اپنے معاشرے کے بنیادی مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ماحول ہماری شخصیت پر گہرے اَثرات مرتب کرتا ہے۔ چوں کہ ماحول معاشرے میں موجود نظام کے تابع ہوتا ہے۔ یوں ہم اسی نظام کے زیرِاَثر پروان چڑھتے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کی تمام صلاحیتوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں موجود استحصالی نظام نے نوجوان نسل کے ذہنوں کو اپنے مطابق ڈھال لیا ہے اور انھیں اس طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے کہ انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جب ہمارے نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں، تو ابتدائی دنوں سے ہی ان کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی جاتی ہے کہ حاصل کردہ ڈگری ان کے معاشی مسائل کا حل ہے اور مستقبل میں بہتر روزگار کی ضمانت ہے۔ لیکن جب وہ تعلیم مکمل کرتے ہیں تو حقیقت کچھ اَور ہوتی ہے۔ ان کے مسائل اور ان کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جب تعلیم وہ نتائج فراہم نہیں کرتی، جن کی توقعات وہ رکھتے تھے، تو یہیں سے ان کا سفر مایوسی کی جانب شروع ہوتا ہے۔
جب نوجوان اپنے لیے کسی شعبے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اپنی فطری صلاحیتوں کے بجائے معاشی فوائد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ چوں کہ اس کی اصل صلاحیت کہیں اَور ہوتی ہے، لہذا وہ شدید ذہنی مشقت سے تعلیم مکمل تو کر لیتا ہے، مگر اس کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیات ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ انتخاب دراصل نظام کی مجبوری ہے، کیوں کہ نوجوان اردگرد کے مسائل سے تنگ آکر مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے یہ راہ اختیار کرتا ہے۔ اصل ظلم یہ ہے کہ عملی زندگی میں وعدہ شدہ مواقع میسر نہیں آتے، اور وہ اور بھی بری طرح مسائل میں پھنس جاتا ہے۔ پھر سرمایہ دار طبقہ اس کی صلاحیات کا استحصال کرنے کے لیے اسے معمولی نوکریاں دے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسے حالات میں نوجوانوں کا مایوس ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
اَب یہ نظام یہاں سے اس کی صلاحیتوں کو اپنے مفادات میں استعمال کرنا شروع کرتا ہے۔ چوں کہ یہ نوجوان معاشی حالات سے تنگ ہوتا ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ ہیں، اس لیے وہ اپنی صلاحیتیں اور طاقت کو اس نظام کے سرغنوں کے لیے صرف کرنا شروع کرتا ہے وہ بھی اُن کے طے کردہ معاوضے کے عوض۔ اور اس پر ظلم یہ ہے کہ وہ نوجوان ان مسائل میں اس قدر گھرا ہوتا ہے کہ وہ ان کے حل کی طرف توجہ ہی نہیں کر سکتا، جس سے اس کی سوچ اُس ایک خاص طبقے کے قبضے میں آجاتی ہے جو اسے بے رحمی سے استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ جب اتنی محنت کے باوجود اُس کی محنت کا صلہ اسے نہیں ملتا تو اُس کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح وہ نوجوان جو روزگار کے سلسلے میں کہیں بیرونِ ملک چلا جاتا ہے یا بھیج دیا جاتا ہے کہ شاید اس سے اس کے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہاں! کچھ وقت جتنا وہ وہاں رہ کر کماتا ہے تو کسی حد تک وہ ان مسائل کو کم کر دیتا ہے۔ لیکن جب واپس آ تا ہے تو دوبارہ اسے انھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے پہلے تھے۔ آخر اس بات کی وَجہ کیا ہے کہ اتنی محنت اور پردیس کاٹنے کے بعد بھی اس کے مسائل حل نہیں ہوتے؟ جب وہ نوجوان واپس آتا ہے تو انھی معاشرتی حالات میں آتا ہے، جن سے نکل کر وہ گیا تھا۔ اس کی جدوجہد اور محنت ان معاشرتی حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ معاشرتی حالات چوں کہ نظام کے تابع ہوتے ہیں، اس لیے ان حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے نظام کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔
اگر اسی طرح نوجوانوں میں بیرونِ ملک جا کر ہی کام کرنا ہے تو اس کا یہاں رہنے کا کیا فائدہ؟ کیوں کہ جب وہ بیرونِ ملک جاتا ہے تو وہاں اس کی شہری حیثیت تو صفر ہوجاتی ہے، نہ وہ کوئی رائے دے سکتا ہے، نہ ہی آزاد ہوتا ہے۔ وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں: "آزادی بنیادی طور پر انسان کی شناخت ہے۔ آزادی کے بغیر انسان نامکمل ہے جو آزاد نہیں، وہ حقیقت میں انسان نہیں ہے"۔ اس فاسد نظام کا ظلم اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ یہ انسان سے اس کی شناخت تک چھین لیتا ہے۔
دراصل یہ تمام مسائل جن کو آج کا نوجوان اِنفرادی طور پر حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ تو اجتماعی مسائل ہیں اور اجتماعی مسائل کو اِنفرادی طور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ فرسودہ نظام کے پیدا کردہ مسائل اجتماعی طور پر اَثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے اسی فرسودہ نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا صالح نظام لانے کی ضرورت ہوتی ہے جو اجتماعی قومی مسائل کو مجموعی طور پر حل کرے اور ساری انسانیت کو فائدہ پہنچائے۔ ولی اللّٰہی فکر و فلسفہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسا نظام وضع کرتا ہے جو مکمل طور پر اسلام کے سیاسی اصولوں پر مبنی ہے اور معاشی انصاف، سماجی اقدار جیسے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ "رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں" (الحجر:56)۔ یہ آیت ہمیں درس دیتی ہے کہ ہمیں کسی صورت مایوسی کی طرف مائل نہیں ہونا، کیوں کہ یہ انسان کو گمراہ کر دیتی ہے اور بہکا دیتی ہے۔ پھر جو مایوس ہو جاتے ہیں وہ اور بھی بہت سے غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ اپنی صلاحیتیں اور وقت کو غلط جگہ غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے آج کے نوجوان کو چاہیے کہ وہ مایوسی سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کو غلط جگہ استعمال ہونے سے بچائے۔
اگر آج کا نوجوان ان معاشی حالات کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس فرسودہ نظام کے خاتمے کے لیے بیدار ہونا پڑے گا۔ اور ایسی اجتماعی سوچ کے ساتھ مخلص جدوجہد کرنی ہوگی جو تمام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہو۔ اسے عصر حاضر کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور ان کے حل کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ایسی جماعت تیار کرنی ہوگی جو صحیح معنوں میں تربیت یافتہ ہو اور جو نظام اور اس کے نتائج کو سمجھتے ہوں۔ تب کہیں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اللہ پاک ہمیں حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے تاکہ ہم اس فرسودہ اور ظالم نظام کو تبدیل کر کے ایک ایسا صالح نظام قائم کریں جو تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ آمین!