وطنِ عزیز کا تعلیمی نظام ، چیلنجز اور نوجوانوں پر اس کے اَثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • وطنِ عزیز کا تعلیمی نظام ، چیلنجز اور نوجوانوں پر اس کے اَثرات

    پچھلے 78 سالوں میں وطن عزیز کے تعلیمی نظام کا جائزہ، ہماری حکومتی ترجیحات اور اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں پیدا ہونے والی مایوسی ۔

    By محمد ارباز Published on Oct 02, 2025 Views 107

    وطنِ عزیز کا تعلیمی نظام ، چیلنجز اور نوجوانوں پر اس کے اَثرات

    تحریر: محمد ارباز۔ گوجرانوالہ

     

    وطنِ عزیز کو اپنی 78 سالہ تاریخ میں جہاں بےشمار چیلنجز درپیش رہے ہیں، وہاں پر تعلیم کا شعبہ بھی آغاز سے ہی مسائل کا شکار رہا ہے۔ اس شعبے میں بہتری لانے کے نعرے تو ہر حکومت لگاتی ہے اور اس کا راگ الاپتی نظر آتی ہے، مگر ان کے اقدامات اور ان کی ترجیحات، ان کے نعروں کی مخالف سمت میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔حکومتی مقتدر حلقوں کی اس عدمِ دلچسپی کو اگر ہم حقائق کی رو سے پرکھیں تو

    جب 1947ء میں پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے تو متحدہ ہندستان کا لٹریسی ریٹ 17.5 فی صد تھا اور 1949ء میں جب چین میں انقلاب آیا تو وہاں کا لٹریسی ریٹ 47.5 فی صد تھا۔ جب یہ تینوں ملک اپنی آزادی کے پہلے بیس بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزار چکے تو 1970ء میں پاکستان کا لٹریسی ریٹ 26فی صد، انڈیا 41فی صد اور چین 66فی صد پر موجود تھا۔اور جب ہم آگے بڑھتے ہوئے اسی چیز کا تجزیہ 2000ء میں کرتے ہیں تو پاکستان 43فی صد، انڈیا 61فی صد اور چین 91فی صد پر کھڑا نظر آتا ہے۔

    "ورڈ ان ڈیٹا" کی رپورٹ کے مطابق 2023ء تک یہ اعداد و شمار پاکستان 62.8فی صد، ہندوستان 82فی صد اور چین 97فی صد پر نظر آرہا ہے۔یہ اعداد و شمار تعلیمی نظام کو لے کر ہماری ترجیحات کے آئینہ دار ہیں۔ آج وطنِ عزیز میں اس تعلیمی نظام پر طالب علموں اور ان کے والدین کا اعتماد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے ۔اس کی تین بنیادی وجوہات نظر آتی ہیں۔

    1۔ نصاب 

    جو طبقاتی نصاب اس وقت وطنِ عزیز میں رائج ہے، یہ آغاز سے ہی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اگر کوئی گورنمنٹ اداروں میں پڑھتا ہے تو اس کی صلاحیت کس حد تک ہوگی اور اگر کوئی مہنگے تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے تو اس کا نصاب آکسفورڈ اور کیمبرج کے لیول کا ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس کے اندر اسی درجے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور آگے چل کر جب وہ اس فرسودہ نظام کا حصہ بنے گا، تو اپنی صلاحیتوں کو اپنے طبقے کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہوا نظر آئے گا۔پھر جو نصاب موجود بھی ہے وہ صرف اور صرف کچھ کاغذی معلومات کو بغیر سمجھے رَٹنے اور امتحانات کی صورت میں خالی کاغذ پر منتقل کر کے نمائشی نمبر لینے کے سوا کسی کام کا نہیں۔ 

    2۔ تدریسی فیکلٹی 

    پبلک سیکٹر انسٹیٹیوٹس میں موجود اساتذہ کا معیارِ تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے بالکل 180  ڈگری پر کام کرنا ،بچوں کی تربیت کرنے کے بجائے نصابی کتابوں کو صرف رَٹے کی بنیاد پر پڑھانا شامل ہے۔ اساتذہ کی پروموشن اس بنیاد پر نہ ہونا کہ کون اچھا استاد ہے، بلکہ پرموشنز اور مراعات کا سیاسی اور خاندانی وابستگیوں کی بنیاد پر ملنا شامل ہے۔ اس کے برعکس ایک گورنمنٹ ٹیچر کو جب اس بات کا اندازہ ہے کہ اس کے اچھا یا برا پڑھانے سے اس کی پرموشن یا اس کی مراعات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تو اپنی ٹیچنگ سکلز کو بہتر بنانے کی کوشش کیوں کرے گا؟ اور اگر کہیں پر اساتذہ کی ٹرینگ کے لیے ورکشاپس رکھی جائیں تو ان میں اساتذہ کی عدمِ دلچسپی اور مداری قسم کے ٹرینرز کے محض ٹائم پاس کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ 

    دوسری طرف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز کے اساتذہ بےبسی اور لاچاری کی تصویر نظر آتےہیں۔ ان کا مقصد سکول یا کالج میں پڑھانے کے بعد ہوم ٹیوشنز اور اکیڈمیز میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو پڑھا کر اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی تگ ودو میں گزر جاتا ہے۔ اس سے بھی ان کی ٹیچنگ سکلز میں بہتری آنے کے بجائے وہ ذہنی طور پر بیمار نظر آتے ہیں۔

     3۔ مطابقت (relevance) 

    اس وقت وطنِ عزیز کےتعلیمی شعبے میں جہاں نصاب اور ٹیچنگ مسائل جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، وہیں طالب علموں کو دیے جانے والے نالج کا اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور انڈسٹری اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ریلیونس( مطابقت) کا نہ ہونا بھی نوجوا نوں میں تعلیمی نظام کے حوالے سے مایوسی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اَب اگر ایک طالب علم یہ جانتا ہے کہ کسی شعبے میں ڈگری حاصل کرنے بعد بھی مجھے علاحدہ سے مہارت حاصل کرنے کےلیے نئے سرے سے جہدوجہد کرنا ہوگی اور کریلا اور نیم چڑھا یہ کہ پھر بھی سفارش کلچر کا سامنا کرتے ہوئے ہی نوکری حاصل کرنا پڑے گی تو وہ کیسے اس تعلیمی نظام پر اعتماد کرے گا؟

    آج دنیا پریکٹیکل بیسڈ ریسرچ ورک کی بات کررہی ہے اور اپنی یوتھ کو  Oriented Research Projects کے ذریعے ماہر (Skilled) بنا رہی ہے ، جس کے نتیجے میں وہ نوجوان اپنی قوم اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔

    تعلیمی نظام کے اندر ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ ، جن کی بات ہم اوپر کر چکے ہیں ۔اَب اگر ہم وطنِ عزیز میں صوبائی سطح پہ تعلیمی نظام کا تجزیہ کریں تو وہاں بھی ہمیں ایک بہت بڑی تفریق نظر آتی ہے جو کہ صوبائی تعصب کی ایک بہت بڑی وَجہ ہے، جس کا آج وطنِ عزیز شکار ہے۔

    پاکستان اکنامکس سروے 2022-2023ء کے مطابق اس وقت پنجاب کے اندر شرح خواندگی 66.3 فی صد ہے، سندھ میں 57.5 فی صد ہے، خیبرپختون خوا میں 51.1 فی صد ہے اور بلوچستان کے اندر صرف 42 فی صد پر موجود ہے۔ یہ اعداد و شمار وطنِ عزیز کے تعلیمی نظام میں تفریق کے ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب تک کسی بھی ملک کے مختلف علاقوں کے اندر یا مختلف صوبوں کے اندر اتنا زیادہ شرح خواندگی میں فرق موجود ہوگا تو ہم کیسے اس ملک میں بسنے والے 25 کروڑ سے زیادہ عوام کو کسی بھی قومی سوچ کے تناظر میں ایک دائرے میں لا سکتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔

    پھر ستم بالائے ستم دیکھیے کہ ان مشکل ترین حالات میں وہ طلبا جو اپنی ذاتی کاوش اور محنت کے نتیجے میں تعلیمی نظام میں کچھ حاصل کر لیتے ہیں، ان کا پہلا خواب وطنِ عزیز کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر اپنی صلاحیتوں کو ان کے حق میں استعمال کرنا شامل ہے۔ اسی لیے اگر ہم خاص طور پہ پچھلے چند سالوں کا تجزیہ کریں تو وطنِ عزیز پوری دنیا میں جنگی حالات والے علاقوں کے بعد سب سے زیادہ برین ڈرین کا شکار ہونے والا ملک ہے جوکہ نوجوانوں کا اپنے ملک کے نظام پر بداعتمادی کا کھلا ثبوت ہے ۔

    یونیسکو کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق وہ ملک جن کا لٹریسی ریٹ 90 فی صد سے زیادہ ہے، وہاں پہ مستحکم جمہوری حکومتیں ہیں، جب کہ جن ممالک کے اندر تعلیمی نظام کمزور اور شرح خواندگی کم ہے، وہ اپنے سیاسی معاملات کے اندر بھی غیرمستحکم نظر آتے ہیں۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہم حقیقی طور پر آزاد ہیں یا نہیں؟ اگر ہم آزاد نہیں ہیں اور یقیناً نہیں ہیں تو سب سے پہلے ہم اپنے ملک کو سامراج کے تسلط سے آزاد کرکے سیاسی نظام کو قومی بنیادوں پر مضبوط بنائیں اور پھر اس کے نتیجے میں اپنے تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو کریں اور اس کو دوبارہ سے ری سٹرکچر کریں۔ جس سے 25 کروڑ عوام کا اعتماد اپنے اس تعلیمی نظام پر بحال ہوسکے اور اپنی ایجوکیشن کو دورِجدید کے تقاضوں کے مطابق سکل بیس اور پریکٹیکل بیس لرننگ کو بنیاد بنا کر بہتر بنایا جا سکے۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے طلبا و طالبات کے لیے روزگار کے مواقع اپنے ملک کے اندر فراہم کیے جائیں ۔

    دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے وطنِ عزیز میں ایک ایسا مستحکم نظامِ تعلیم Establish کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو کہ ہمارے نوجوانوں کی ذہنی آبیاری بھی کرے اور مستقبل میں ان کی اسکلز اور ان کی پریکٹیکل صلاحیتوں کے نتیجے میں وطنِ عزیز کو ترقی و کامرانی کی نئی منزلوں تک بھی پہنچائے۔ آمین ثم آمین!

    Share via Whatsapp