سیلاب یا سازش؟ اصل تباہی نظام ہے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیلاب یا سازش؟ اصل تباہی نظام ہے

    وطنِ عزیز پاکستان کی سرزمین گویا سیلابوں کا مسکن بن چکی ہے۔ کبھی پنجاب کے کھیت سیلاب میں بہہ جاتےہیں، کبھی۔۔۔۔۔

    By محمد صداقت طلحہ Published on Sep 09, 2025 Views 159

    سیلاب یا سازش؟ اصل تباہی نظام ہے

    تحریر: محمد صداقت طلحہ۔ وہاڑی 


    وطنِ عزیز پاکستان کی سرزمین گویا سیلابوں کا مسکن بن چکی ہے۔ کبھی پنجاب کے کھیت سیلاب میں بہہ جاتےہیں، کبھی سندھ کی بستیاں اُجڑتی ہیں اور کبھی خیبرپختونخوا کے پہاڑوں سے اُترنے والا پانی سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق    1950ءمیں پاکستان کا پہلا بڑا سیلاب شمالی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آیا۔1955ء اور1956ء کے سیلاب نے پھر بستیاں بہا دیں۔1973ء اور 1976ءمیں بپھرے ہوئے پانی نے پنجاب اور سندھ کو برباد کیا، 1988ءمیں خیبرپختونخوا ڈوبا،1992ء میں شمالی علاقہ جات اور پنجاب پانی میں ڈوبے۔1998ء میں بلوچستان متاثر ہوا،2003ء اور 2011ء میں سندھ اُجڑا اور2020ء میں کراچی شہر  پانی میں ڈوب گیا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اَب تک درجنوں بڑے سیلاب آچکے ہیں اور اوسطاً ہر تین سال بعد یہ آفت ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

    پے در پے آنے والے ان سیلابوں  میں 2010ءکا سیلاب سب سے بڑا سانحہ تھا، جس میں  دو کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے، لاکھوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے  کھیت ویران ہوئے اور مجموعی نقصان کا تخمینہ 43 ارب ڈالر سے بھی آگے نکل گیا۔ دنیا نے امداد دی، سعودی عرب نے 362 ملین ڈالر، چین نے 50 ملین ڈالر، امریکا نے 150 ملین ڈالر، برطانیہ نے 209 ملین ڈالراور یورپی یونین نے 450 ملین ڈالر  دیے۔ اقوامِ متحدہ نے 687 ملین ڈالر اکٹھے کیے۔ عالمی بینک نے ایک ارب ڈالر  اور آئی ایم ایف نے 450 ملین ڈالر کا پیکج دیا۔ دیگر ممالک جیسے جرمنی، ناروے، سویڈن، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی مل کر اربوں ڈالر کے عطیات دیے۔ یوں کل امداد چار سے پانچ ارب ڈالر کے قریب پہنچی، لیکن نقصان کے مقابلے میں یہ   دسویں حصے سے زیادہ نہ تھی۔

    بارہ سال بعد2022ء میں ایک اور قیامت نازل ہوئی۔ اس بار ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا، تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے اور نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ دنیا نے پھر وعدے کیے۔ ابتدائی طور پر 800 ملین ڈالر  فوری امداد ملی اور جنیوا کانفرنس میں دس ارب ڈالر  کے وعدے ہوئے، لیکن ان وعدوں کا 90 فی صد قرض کی شکل میں تھا۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے 4.2 ارب ڈالر، عالمی بینک نے 2.5 ارب ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک نے 1.5 ارب ڈالر  اور سعودی عرب نے ایک ارب ڈالردیے۔ امریکا، چین، یورپی یونین اور جرمنی سمیت کئی ملکوں نے سینکڑوں ملین ڈالر بھیجے۔ ورلڈبینک نے بعد میں مزید 450 ملین ڈالر سندھ کے ہاؤسنگ منصوبوں کے لیے منظور کیے،لیکن اس سب کے باوجود عوام آج بھی خیموں کے سائے میں پڑے ہیں اور بستیاں آج بھی ملبے میں دفن ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ اتنے سیلاب جھیلنے کے بعد بھی ہم نے سبق کیوں نہ سیکھا؟ کیوں نہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے؟ کیوں بند مضبوط نہ کیے گئے؟ کیوں نکاسی آب کے نظام کو درست نہ کیا گیا؟ جواب بس سادہ مگر تلخ  ہے۔ حکومتیں جانتی ہیں کہ ہر تباہی کے بعد دنیا سے اربوں ڈالر کے فنڈز ملیں گے۔ یہی سوچ ہماری بدقسمتی کی جڑ ہے۔ فنڈز کبھی نمائشی منصوبوں میں دفن ہوجاتے ہیں، کبھی کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے سیاسی مصلحتوں پر خرچ ہوتے ہیں اور مستقل حل پیچھے رہ جاتا ہے۔  سیلاب محض پانی نہیں لاتا، یہ ہمیں ہماری غفلت کا آئینہ بھی دِکھاتا ہے۔ وہ آئینہ جس میں حکمرانوں کی نالائقی اور عوام کی بے بسی جھلکتی ہے۔ قدرتی پانی کو ہم نے زحمت بنا دیا، حال آں کہ یہی پانی ڈیموں میں محفوظ کیا جائے  تو زراعت کو سہارا دے، بجلی پیدا کرے اور خوش حالی کا ذریعہ بنے۔ مگر ہم نے ہمیشہ وقتی مرہم پر قناعت کی اور مستقل علاج سے منہ موڑا۔

    اَب وقت ہے کہ عوام آگے بڑھ کر اپنے قائدین سے سوال کریں کہ  یہ اربوں ڈالر کہاں گئے؟ یہ امداد کن منصوبوں میں خرچ ہوئی؟ یہ قرض کس کی جیبیں بھرتا رہا؟ اور کب تک ہمارے بچے خیموں میں پیدا ہوں گے اور ہمارے بزرگ مٹی میں دفن ہوں گے؟ یہ سرزمین ہماری ہے اور اس کی حفاظت کا فیصلہ بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ لیکن یہ جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست دان، کبھی عوام کا نہیں سوچیں گے۔ ان کی سیاست انھی بحرانوں پر پلتی ہے، ان کے کاروبار انھی فنڈز پر چلتے ہیں۔ اس لیے اصل ضرورت اس نظام کو بدلنے کی ہے، اس سرمایہ دارانہ ڈھانچے کو توڑنے کی ہے، جہاں آفات کو کمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جب تک یہ نظام سلامت ہے، ہر سیلاب ہمارے گھروں کو بہائے گا اور ہمارے حکمرانوں کی تجوریاں بھرتا رہے گا۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اپنا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔

    Share via Whatsapp