نوعِ انسانی کی تین بنیادی خصوصیات (امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی نظر میں) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نوعِ انسانی کی تین بنیادی خصوصیات (امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی نظر میں)

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑے ہی پروٹوکول سے دنیا میں بھیجا ہے۔ آپ خود سوچیں، فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا، کائنات آپ کے لیے مسخر کردی گئی

    By Sufian Khan Published on Oct 23, 2025 Views 205

    نوعِ انسانی کی تین بنیادی خصوصیات (امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی نظر میں)

    تحریر: سفیان خان بنوں

     

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑے ہی پروٹوکول سے دنیا میں بھیجا ہے۔ آپ خود سوچیں، فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا، کائنات آپ کے لیے مسخر کردی گئی، نعمتیں آپ پر تمام کردی گئیں۔ کیوں؟ کیوں کہ آپ عام نہیں ہیں، آپ معمولی نہیں ہیں، آپ بے کار نہیں ہیں۔ آپ ”خلیفۃ اللہ“ یعنی اللہ کے نائب ہیں۔ آپ نے اس دنیا میں خدا کی نمائندگی کرنی ہے۔ اَب ظاہر سی بات ہے کہ رَب کے نمائندے کے لیے پروٹوکول تو بنتا ہے۔ چوں کہ منصب بہت اعلیٰ ہے تو خصوصیات بھی بڑی انوکھی اور نرالی چاہییں۔ اسی لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بہ قول انسان میں تین خصلتیں ایسی ہیں جو تمام مخلوقات میں سے صرف انسانوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں:

    (الف) رائے کلی

    یعنی اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنا۔ انسانوں میں خدا تعالیٰ نے رائے کلی کا تصور پہلے سے ”انسٹال“ کیا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ انٹرکشن، گھر والوں کے فائدے کے لیے کام کرنا، مارکیٹ میں اپنی خدمات پیش کرنا، قومی اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات و معاہدات رکھنا۔ اگر ان سب میں پیش نظر اجتماعی مفادات (حریت فکر، امن، عدل اور معاشی خوش حالی) ہوں مدنظر ہوں، تو یہ رائے کلی ہے۔ اس کی ضد ”الرائے الجزئی“ ہے۔ جب کوئی صرف اپنی ذات، برادری یا خاص طبقے کی سوچے۔ یہ انسانی خصلت نہیں، بلکہ حیوانی خصلت ہے، کیوں کہ حیوان ہی صرف اپنے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

    (ب) ایجاد و تقلید 

    انسان کی دوسری اہم خصلت ایجاد و تقلید کا مادہ ہے۔ یعنی انسان اپنی سہولت اور بہتری کے لیے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتا رہتا ہے۔ غور و فکر کے نتیجے میں ایجادات اور دریافتیں سامنے لاتا ہے۔ یہ سلسلہ روزِاوّل سے جاری ہے۔ انسان نے ابتدائی دِنوں میں خوراک حاصل کرنے کے لیے ہتھیار بنائے۔ کھیتی باڑی کے لیے اوزار بنائے۔ دریا پار کرنے کے لیے کشتی بنائی۔ کپڑے سینے کے لیے سوئی بنائی۔ یہ سب ابتدائی ریسرچ کے نتیجے میں سامنے آنے والی ایجادات تھیں۔ آج ہمارے اردگرد جو نت نئی سہولتیں موجود ہیں، یہ پنکھا، یہ اینٹیں، یہ اسپیکر، یہ موبائل، یہ گاڑیاں، یہ سولر سسٹمز... یہ سب ہمیں ڈیڑھ یا دو سو سال پہلے نظر نہیں آتی تھیں۔ اسی طرح آج سے سو سال بعد ان ایجادات کی نئی نئی شکلیں سامنے آئیں گی، کیوں کہ یہ انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ نئی چیز تلاش کرے۔

    انسانوں میں ایک اور پہلو تقلید کا ہے، یعنی ایک انسان نے ایجاد کی، تو باقی سب نے خوشی خوشی اسے اپنا لیا۔ بلب ایڈیسن نے ایجاد کیا، لیکن آج پوری دنیا اسے استعمال کررہی ہے۔ پہلے کا بلب چھوٹا اور کم روشنی والا تھا، زیادہ توانائی لیتا تھا۔ آج کے بلب کم خرچ اور زیادہ روشنی والے ہیں، مختلف ورائٹی میں دستیاب ہیں، حتیٰ کہ سینسر لائٹس تک ایجاد ہوچکی ہیں۔ اسی طرح پہلے کا کمپیوٹر پورے کمرے کے برابر ہوتا تھا اور اسے چلانے کے لیے پورے گاؤں جتنی بجلی چاہیے ہوتی تھی۔ آج کمپیوٹر چھوٹا ہوتے ہوتے آپ کی جیب میں آگیا ہے۔ سمارٹ موبائل فون اس کی جدید ترین شکل ہے۔

    یہی ہے تقلید اور ایجاد کا حسین امتزاج؛ ایجاد ہوتی ہے، لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں اور پھر اس تقلید سے اُس ایجاد میں مزید بہتری اور ترقی پیدا ہوتی ہے۔

    جانور اور ایجاد و تقلید 

    اَب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خصلت دیگر حیوانات میں بھی پائی جاتی ہے؟

    کیا کبھی کسی کتے نے اپنی آواز خوب صورت بنانے کے لیے کوئی ساز (instrument) ایجاد کیا؟ کیا کسی پرندے نے اپنے گھونسلے کو بہتر بنانے کے لیے نئی تکنیک نکالی؟ کیا کسی جانور نے خوراک یا لباس میں جدت لانے کی کوشش کی؟ نہیں!!! پانچ ہزار سال پہلے کے جانور جیسے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں، اور پانچ ہزار سال بعد بھی ویسے ہی رہیں گے۔ کیوں کہ ایجاد و تقلید کا مادہ صرف انسان کو دیا گیا ہے۔ یہی خصوصیت انسان کو حیوانات سے ممتاز کر کے اشرف المخلوقات بناتی ہے اور اسے ترقی کی شاہراہ پر ڈالتی ہے۔

    (ج) حُبِ جمال 

    تیسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ انسان محض ضرورت پوری کرنے پر اکتفا نہیں کرتا۔ کوئی ناقص اور ادھوری چیز بھی اس کی ضرورت پوری کرسکتی ہے، مگر وہ حسن، نزاکت اور جمال چاہتا ہے۔ وہ مکان چاہتا ہے تو صرف چھت اور چار دیواری پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ کشادہ کمرے، اچھا ڈیزائن، علاحدہ کچن اور باتھ روم وغیرہ چاہتا ہے۔ اسی طرح اسے لباس چاہیے ہوتا ہے، مگر اس طرح کہ لباس خوب صورت ہو، موسم کے مطابق ہو اور اس کی شخصیت کو بھی نکھارے۔ خوراک کے معاملے میں بھی یہی حال ہے۔ بھوک تو صرف روٹی کھانے سے بھی پوری ہو جاتی ہے، لیکن انسان چاہتا ہے کہ روٹی کے ساتھ سالن ہو، خوراک لذیذ ہو، متوازن ہو، جلد ہضم ہونے والی ہو اور زیادہ توانائی فراہم کرنے والی ہو۔ یہی جذبہ اسے ایجادات پر مجبور کرتا ہے۔ ابتدا میں وہ پتوں اور کچی چیزوں پر گزارا کرتا تھا، آج وہ سینکڑوں قسم کے لذیذ کھانے پکانے کی تراکیب (recipes) ایجاد کر چکا ہے۔ لباس کے میدان میں شلوار قمیض، پینٹ کوٹ، ویسٹ کوٹ، جیکٹ، شورٹس، جوتے، بوٹ، چپل، ہیٹ، کیپ وغیرہ جیسی ہزاروں ورائٹیز تخلیق کی ہیں۔ اسی طرح پہلے وہ پیدل چل کر طویل فاصلے طے کرتا تھا، پھر سائیکل بنائی، اس کے بعد موٹر سائیکل، پھر موٹر کار اور اَب جدید ترین اور ہر قسم کی سہولت سے بھرپور لگژری گاڑیاں دریافت کر چکا ہے۔

    یہ سب کچھ انسان کی اسی جبلت کا نتیجہ ہے کہ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کا متلاشی رہتا ہے۔

    انسانی خصوصیات کے نتائج 

    انسان کی یہ تینوں جبلّی خصوصیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایک اجتماعیت پسند مخلوق ہے۔ وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اسے انسانوں جیسی زندگی گزارنے کے لیے انسانی اجتماع چاہیے ہوتا ہے۔

    اجتماعیت کی اہمیت 

    انسان میں رائے کلی کی صفت اس لیے ودیعت کی گئی، تاکہ وہ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اپنے خاندان، محلے اور قوم بلکہ ساری انسانیت کے لیے کردار ادا کرے۔ رائے کلی کا لازمی نتیجہ اجتماعیت ہے، کیوں کہ انسان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارے۔

    اسی طرح ایجاد و تقلید کا مادہ بھی اجتماعیت کے قیام کے لیے ہے۔ کوئی بھی ایجاد تب تک بے کار ہوتی جب تک تقلید اسے دوسرے انسانوں تک منتقل نہ کر دے۔ ایجاد و تقلید سے پورے معاشرے کو فائدہ دینا مقصود ہے۔

    اسی طرح انسان کا حب جمال محض اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میرا گھر، میری گلی، میری سڑک، میرا بازار، میری منڈی، میری تہذیب و تمدن، میری روایات، میرا ملک، میرے قوانین… سب کچھ خوب سے خوب تر حالت میں ہوں۔

    ان تینوں خصلتوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انسان فطری طور پر اجتماعیت پسند ہے۔ اِنفرادیت دراصل انسانی خصلت نہیں، بلکہ حیوانی خصلت ہے۔


    Share via Whatsapp