اعلیٰ تعلیمی ادارے : تعلیم کے نام پر ایک " کاروباری ماڈل"
ہمارے ملک کے مروجہ عصری نظامِ تعلیم میں انٹرمیڈیٹ یا اس کی مساوی تعلیم کا حصول مکمل کرنے کے بعد باصلاحیت امیدواران اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ۔۔۔۔۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے : تعلیم کے نام پر ایک " کاروباری ماڈل"
تحریر: محمد حاشرعرفان۔ لاہور
مروجہ عصری نظامِ تعلیم کی طبقاتی سوچ
ہمارے ملک کے مروجہ عصری نظامِ تعلیم میں انٹرمیڈیٹ یا اس کی مساوی تعلیم کا حصول مکمل کرنے کے بعد باصلاحیت امیدواران اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ بارہویں تک کے تعلیمی نظام میں ہمیں جو طبقات نظر آتےہیں، اسی کا تسلسل اعلیٰ تعلیم میں بھی جاری رہتا ہے۔
بارہویں میں آکر جب ہمیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرنی پڑی تو معلوم ہوا کہ ان اداروں میں محض پرائیویٹ اور پبلک کی تقسیم ہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اور بھی مسائل ہیں۔ اولاًتو یہ کہ نویں سے بارہویں تک جو ہم بورڈ کے امتحانات دیتے ہیں، یہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی وہ محنت نا کافی ہے اور یونیورسٹیز اپنی منشا کے مطابق آپ سے داخلہ ٹیسٹ لیں گی، جس میں نہ صرف آپ کے تعلیمی بورڈ کا نصاب ہوگا، بلکہ دیگر بورڈز اور متبادل تعلیمی اسٹرکچرز کے نصابوں کا ایک ایسا ملغوبہ ہوگا، جس کو حل کرنے کے لیے پڑھائی کا ایک نیا (conceptual ) طریقہ اختیار کرنا پڑے گا، جس سے بورڈز کے طلبا ناآشنا ہوتے ہیں۔ اور اَب اگرکسی معیاری تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا ہے تو بارہویں کے امتحانات کے ساتھ ساتھ انٹری ٹیسٹ کی تیاری بھی کرنی پڑے گی۔ خدا خدا کر کے کسی طرح طلبا بورڈ کے ساتھ ساتھ داخلہ ٹیسٹوں کی تیاری کرتے ہیں تو ایک عجیب پریشانی جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ تقریباًہر یونیورسٹی اپنا داخلہ ٹیسٹ ہی قبول کرتی ہے۔ گویا دوسرے امتحانات تو طالب علم کی صلاحیت کی عکاسی کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر ٹیسٹ کی فیس ہزاروں میں ہوتی ہے اور ان کا شیڈیول بھی پورے تعلیمی سال پر پھیلا نظر آتا ہے۔ کچھ یونیورسٹیز تو گویا طلبا کو داخلہ دینے کے لیے اتنی بے صبر ہوتی ہیں کہ بارہویں کے امتحانات ہونے سے پہلے ہی اپنے ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں۔
پہلے درجے میں تو طلبا کو یہ چورن بیچا جاتا ہے کہ فلاں مشہور فنی تعلیمی ادارے کے تو چار چار ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ تسلی سے پہلے والے دو میں اگر نمبر نہ بھی آئے تو بھی کیا ہے، آئندہ پھر دے لینا"
اسی طرح ملک کے ایک اَور مشہور فنی تعلیمی ادارے کا ٹیسٹ تو ہر مہینے ہوا کرتا ہے، فیس بھی کم ہے خواہ تیاری ہو یا نہ ہو، ٹیسٹ تو دے دیا کرو۔ یعنی پہلے مرحلے میں یہ برانڈڈ یونیورسٹیز بالاتفاق مقامی بورڈز اور کیمبریج کے امتحانی نتائج کو مسترد کر کے اپنے متبادل ٹیسٹ بیچ کر طلبا سے کروڑوں روپے بٹورتی ہیں۔ طلبا میں آسامیوں کا سخت مقابلہ اس کاروباری حربے کو مؤثر بنانے کی ایک کلیدی وَجہ ہے۔ بدقسمتی سے میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں آسامیاں بہت کم ہوتی ہیں اور امیدواروں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا طلبا سبھی یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ داخلہ لینے کا ہوتا ہے۔ ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد یونیورسٹی میرٹ لسٹ کا اجرا کرتی ہے، جس میں ایگریگیٹ فارمولا بھی ہر ادارہ اپنی صوابدید پر متعین کرتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک دفعہ ٹیسٹ کے نام پر بٹوری گئی فیس سے بھی ان اداروں کا پیٹ نہیں بھرتا اور طلبا کو ایک مرتبہ پھر اپنے پسندیدہ کورس کی میرٹ لسٹ میں نام لانے کے لیے "اپلیکیشن فیس" دینی پڑتی ہے۔ گویا داخلہ لینا یا میرٹ بنانا، طالب علم کے پیش نظر نہیں اور وہ محض مزے لینے کے لیے ٹیسٹ دے رہا تھا۔ پہلے ٹیسٹ کی فیس لی جاتی ہے اور پھر اسی ٹیسٹ کی کارکردگی کی بنا پر طالب علم کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ کرنے کے لیے دوبارہ اس کی جیب کو مزید خالی کیا جاتا ہے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض سرکاری اور نجی ادارے اپنے "نام" یا "تعلیمی معیار" کی وَجہ سے طالب علموں کا ہدف (goal) بن جاتے ہیں۔اور عین ممکن ہوتا ہے کہ اگر یہ ادارے میرٹ لسٹ کا اجرا پہلے کردیں تو طلبا کا ایک بڑا حصہ سیدھا ان ہی اداروں کا رخ کرے۔ مگر کسی باہمی ملی بھگت سے یہ برینڈنما ادارے اپنی داخلہ لسٹیں سب سے آخر میں شائع کرتے ہیں،جس سے نچلے درجے کی نجی اور سرکاری یونیورسٹیز کو موقع ملتا ہے کہ طلبا کے داخلوں کے متعلق بے یقینی کی کیفیت سے پیدا ہونے والے ڈر کا فائدہ اُٹھائیں اور اپنے داخلوں کی ڈیڈلائنز حتی الامکان کم سے کم رکھیں۔ جس سے کئی طلبا ان کو اپنا "بیک اپ( backup) "بنا کر ان میں داخلہ بھاری فیسیں دے کر گویا 'خرید' لیتے ہیں اور بعدازاں جب کسی بہتر ادارے میں داخلے کا موقع ملتا ہے تو ان سے داخلہ کینسل کرنے کے لیے انھیں فیس میں سے بھاری کٹوتیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ گویا سب ادارے مل بانٹ کر تعلیم فر؛وشی سے بھی پہلے ڈر پھیلاکر کمائی کر رہے ہوتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی
سرمایہ داری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس کے اَثر سے تدریس و تعلیم جیسا مقدس شعبہ جو کہ انبیاعلیہم السلام کی میراث تھا، وہ بھی ایک ایسا استحصال پر مبنی کاروباری ماڈل بنا دیا گیا ہے، جس میں کوئی بھی شخص ڈگریوں کی فیکٹریا ں کھول کر حسبِ خواہش اپنا کاروبار جما سکتا ہے۔اس کاروبار کی کامیابی کی ایک بڑی وَجہ یہ ہے کہ اس کی پراڈکٹ یعنی ڈگری اور نوکری کوئی عیش و عشرت (luxury) کی چیز نہیں، بلکہ بنیادی انسانی ضرورت ہے،جس تک پہنچ تو اول غریب عوام کو حاصل نہیں اور متوسط طبقے کو بھی ان کاروباری بھیڑیوں کے ہاتھوں تعلیم کے نام پر لوٹا جاتا ہے۔اور عوام کے پاس ان کا کوئی متبادل بھی دستیاب نہیں۔ لہٰذا ان کو چار و ناچار ان ہی بزنسز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
حل
بہ ظا ہر تو اس مسئلے کا حل چند آسان تبدیلیوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ مثلاً:
1۔ ہر ادارہ اپنا علاحدہ ٹیسٹ لینے کے بجائے ایک جامع امتحان لیاجائے، جس کے نتائج سارے ادارے تسلیم کرتے ہوں ۔
2۔ اسی طرح میرٹ لسٹوں کے معاملے میں بھی یہ ہونا چاہیے کہ سب یونیورسٹیز بیک وقت داخلہ میرٹ لسٹیں جاری کریں، تاکہ طلبا بے جا کٹوتیوں سے بچ سکیں۔
مگر تعلیم جیسے مقدس پیشے کے نام پر چوں کہ ان کاروباریوں کے پیشِ نظر محض والدین کا خون نچوڑنا ہے نہ کہ طلبا کے لیے آسانی پیدا کرنا، اس لیے اس طرح کی اصلاحات ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتیں،بلکہ وہی بوسیدہ اور کاروباری تعلیمی نظام ہمیں آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جس کی اساس سرمایہ داریت ہے۔
برعظیم ہند کے آزاد قومی تعلیمی اداروں سے رہنمائی کی عصری ضرورت واہمیت
ایسے ماحول میں ہمیں کم از کم یہ جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ یہ منفی تبدیلی خاموشی سے دَبے پاؤں رفتہ رفتہ کیسے اور کیوں ہمارے ملک میں اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوئی ۔اس سے ہمیں اپنے کھوکھلے سیاسی و سماجی نظریات ونظام کی اصل کو سمجھنے کا موقع ملے گا ۔
برطانوی عہد کےایسے ہی طبقاتی صلاحیت کش قوم دشمن تعلیمی نظام و پالیسیوں کےخلاف ہمارےبزرگوں نے شعوری جدوجہد کی اور ایک (آزاد نیشنل مسلم یونیورسٹی ) جامعہ ملیہ کے نام سے قائم کی۔
ہمیں بھی اس بھونڈے نظام کے خلاف اپنے شعور کو بروئے کار لاکر قومی تعلیمی نظام کے قیام کےلیے کوشش کرنی ہوگی ۔