میڈیا اور رائے سازی
صحافت کا تعلق کسی بھی معاملے کی تحقیق اور اس کی خبروں کو تحریری، صوتی یا بصری شکل میں عوام تک پہنچانے کے عمل سے ہے۔۔۔۔
 
                                        میڈیا اور رائے سازی
تحریر: محمد علی ۔ ڈیرہ اسماعیل خان 
صحافت کا تعلق کسی بھی معاملے کی تحقیق اور اس کی خبروں کو تحریری، صوتی یا بصری شکل میں عوام تک پہنچانے کے عمل سے ہے۔آج کل میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔عوام کی اکثریت آج بھی میڈیا کو نہ صرف معلومات اور خبروں کا ذریعہ سمجھتی ہے،بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے،لیکن حقیقت میں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔میڈیا صرف معلومات یا خبریں پہنچانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا آلہ ہے، جس سے مختلف قوتیں عوامی رائے پر اثرانداز  ہوتی ہیں۔
مغربی غلبے کے بعد کالونیل عہد کے تقاضوں نے اس شعبے کو بھی نئی جہتوں سے متعارف کرایا، جس میں ایشیا اور افریقا کے ممالک کی تاریخ، معاشرت اور رویوں پر اثرانداز ہوکر اپنے مفادات کی تکمیل مقصود تھی ۔ایسے ہی مفادات نے تجارت اور نشریات کو سیاست سے  ہم آہنگ کرکے منافع اور لالچ  کی ہوس نے انسانی اقدار کی پامالی کا منظم منصوبہ تشکیل دیا کہ جس سے ہر قیمت پر مفادات کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے ۔
اس معاملے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہمیں جدید ریاست خصوصاً سرمایہ دار ریاست کی ساخت کو سمجھنا ہو گا۔ ملک یا ریاست  جس کا ایک طے شدہ جغرافیہ ہو،گورننگ باڈی ہو،اس کا کوئی آئین ہو اور وہ خودمختار ہو۔دوسرا عمومی تصور یہ ہے کہ ریاست میں مرکزی حیثیت عوام کو حاصل ہوتی ہے۔وہی ریاست کی اصل طاقت ہیں۔وہی ریاست کے قوانین طے کرتے ہیں۔  یہ معاملہ سرمایہ دار  اشرافیہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بڑی بڑی  کارپوریشنز اور مفاداتی گروہ ریاست کے قوانین طے کرتے ہیں۔ یہی حکومتیں بناتے ہیں اورجب آپس میں تنازع ہو تو یہی حکومتیں گراتے ہیں۔جنگوں کو  ہوا دیتے ہیں۔امن کی بات کرتے ہیں، یعنی عوام یا ریاست ان کی ٹھوکروں پر ہوتے ہیں ۔سرمایہ دارانہ  ذہنیت کا یہ تقاضا ہے کہ طاقت کا کوئی مرکز یا ادارہ ان کے اَثر سے باہر نہ ہو۔ اس لیے میڈیا کو بھی یہ ہی کنٹرول کرتے ہیں اور اس کی سمت متعین کرتے ہیں۔کون سی خبر چلانی ہے، کون سی نہیں چلانی۔کس بندے کو بلیک آوٹ کرنا ہے، کس کو مشہور کرنا ہے۔عوام کی رائے کو اپنے حق میں کیسے بدلنا ہے۔عوام کی توجہ کیسے منتشر کرنی ہیں، یہ سب ملٹی نیشنل کمپنیاں،کارپوریشنز اور مفاداتی گروہ طے کرتے ہیں کیوں کہ ان کا بنیادی مقصد "پیسہ کمانا"ہے۔اور پیسہ ایڈورٹائزر نے دینا ہے اور ایڈورٹائزر یہی کارپوریشنز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔اس سارے کھیل کا مقصد منافع میں بڑھوتری،عوام کی رائے کو کنٹرول کرنا،ظلم سے توجہ ہٹانا اور عوام کو ہمیشہ دھوکے میں رکھنا ہے۔
امریکی دانش ور نوم چومسکی اور ایڈورڈ ایس ہرمین نے میڈیا کے طریقۂ واردات پہ"مینوفیکچرنگ کانسنٹ"کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس کتاب میں رائے کو مینوفیکچر کرنے کے بارے میں نوم چومسکی اور ایڈورڈ ایس ہرمین نے پانچ فلٹر بیان کیے۔یہ فلٹر ایسے ہیں جو منافع اور عوامی رائے کو بنانے میں مدد گار ہیں۔ذیل میں ان کی تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
1۔ملکیت: ماس میڈیا فرمز بڑی کارپوریشنز کی ملکیت ہیں،جن کا بنیادی اور پہلا مقصد "منافع" ہے جو چیز ان کے منافع میں اضافہ کرے، ماس میڈیا ایسے ٹرینڈ سیٹ کرتا ہے۔ہمارے ملک اور پڑوسی ملک کے بزنس ٹائیکونز کے بارے یہ ہی تاثر ہے کہ میڈیا ان کی ملکیت ہے ۔
2۔ایڈورٹائزمنٹ:دوسری چیز اشتہار ہے۔میڈیا اپنے دیکھنے والوں سے براہِ راست اتنا نہیں کماتا، جتنے اس کے اخراجات ہیں۔یہ غور طلب ہے کہ اتنا مہنگا انفراسٹرکچر اور آلات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ سب ایڈورٹائزر ادا کرتا ہے۔کیوں کہ میڈیا کی اہم پیداوار ہے آڈینز یعنی "ناظرین" (دیکھنے والوں) کو وہ بہ طور پراڈکٹ ایڈورٹائزر کو بیچتا ہےاور بدلے میں ایڈورٹائزر کی پراڈکٹ ہمیں بیچنے کی کوشش کرتا ہے،جسے آپ عام زبان میں،ایڈ،اشتہار یا مشہوری کہتے ہیں۔
یہ ایڈورٹائزمنٹ  ہمیں   ایک معمولی خریدار معاشرے میں تبدیل کرتا آرہا ہے،اس کے ذریعے ایک چیز کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نا چاہتے ہوئے بھی اسے خریدتے ہیں۔کئی بڑی اور مشہور کمپنیاں اپنے منافع کی ایک بڑی شرح اشتہارات میں لگاتے ہیں۔ یوں ہماری سماجیات کی طبقاتی تقسیم  مزید بڑھتی ہے، جس سے سماجی رویے متاثرہوتے ہیں۔ 
اس کا آغاز  حکومتی حلقوں کی مدد سے ہوتا ہے ۔وہ اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہیں،جیسے پاکستان میں پیزا کا رواج غور کیا جائے تو اچھے بڑے اسکولوں سے ہوا ۔اور نیتجے میں آپ کی جیب سے اس سے دگنا تگنا پیسہ نکالتے ہیں۔
3۔اعانتِ جرم:تیسری چیز جو وہ بتاتے ہیں وہ ہے اعانتِ جرم۔ماس میڈیا کے متعلق ہمارا عمومی تصور یہ ہے کہ وہ حکومت اور دیگر طاقت ور کارپوریشنز کے بارے سچ ہم تک پہنچاتا ہے۔ان پہ کڑی نظر رکھتا ہے،ان کا احتساب کرتا ہے، لیکن ایسا نہیں۔بڑی کارپوریشنز، بڑے ادارے اور حکومتیں جانتی ہیں کہ میڈیا گیم کیسے کھیلنی ہے۔وہ میڈیا کوساتھ ملاتے ہیں،اس کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔وہ نیوز بیانیے پہ اثر انداز ہونا جانتے ہیں۔اس لیے وہ خود کو صحافتی عمل میں اہم اور فیصلہ کن بناتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومتیں،کارپوریشنز اور اس پر نظر رکھنے والا میڈیا ، آپس میں مجرمانہ گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں۔
اگر آپ اُن کو چیلنج کریں گے،ان کے سامنے مزاحمت کریں گے،تو وہ آپ کو صحافتی انڈسٹری سے نکال باہر کردیں گے۔آپ کی رسائی ختم کردی جائے گی۔ 
4۔Flack یعنی درگت بنانا یا مختلف رائے رکھنے پر معتوب بنانا۔
چومسکی اور ایڈورڈ ایس ہرمین لکھتے ہیں کہ جب آپ کے بیان کردہ حقائق طاقت ور حلقوں کے لیے پریشان کن ہوں گے،جن سے وہ اچھا محسوس نہیں کریں گے یا اگر میڈیا،خبر کے ذرائع یا صحافی ان طے شدہ اصولوں سے انحراف کریں جو کارپوریشنز،طاقت ور اداروں اور حکومتوں نے میڈیا سے مل کر ترتیب دیے۔تو آپ کو صرف مختلف بیانیہ رکھنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو معتوب ٹھہرایا جائے گا۔آپ کی درگت بنائی جائے گی۔آپ کے ذرائع کو غیرمعتبر ثابت کردیا جائے گا۔ 
5۔عام دشمن/خوف: پانچواں فلٹر جو آپ کی رائے سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے"مشترکہ یا عام دشمن"۔امریکی معاشرے کے تناظر میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ عوامی رائے کو ایک ہی چھت تلے رکھنے کے لیے مختلف چیزوں کا خوف دکھایا جاتا ہے،جیسا کہ اشتراکیت ، مہاجرین ، دہشت گرد وغیرہ وغیرہ۔
اس خوف کو وہ "بُگی مین" سے تعبیر کرتے ہیں۔بُگی مین ایک خیالی ڈراؤنا کردار ہے، جس سے امریکی مائیں بچوں کو ڈراتی ہیں، تاکہ وہ اچھا رویہ اپنائیں۔اس طرح کے خوف اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں، جب عوامی رائے منتشر ہو یا کسی مسئلے کو لے کے کوئی شعوری بحث جاری ہو اور حکومت انھیں کولہو کا بیل بنانا چاہتی ہو۔ تاکہ عوام ان کے کنٹرول  میں رہے۔اسی طرح کے ڈر  عام ہیں 9/11  اس کی اچھی مثال ہے ۔ایسے ممالک میں   نصاب ہو یا وڈیو گیم  اپنے مخالف ممالک کو دشمن بناکر دکھایا جاتا ہے ۔
رولنگ سٹون سے جڑے صحافی مٹ طیبی کہتے ہیں کہ یہ فلٹرز غیرمحسوس انداز میں کام کررہے ہوتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔مٹ طیبی کہتے ہیں رائے سازی میں میڈیا کا کردار اتنا زیادہ ہے کہ 9/11 کے واقعے کے بعد کوئی امریکیوں کو کہتا کہ عراق کا اس حملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،تو کوئی آپ کی بات پہ یقین نہ کرتا۔یوں امریکی حکومت نے بڑی آسانی سے میڈیا کے ذریعے لوگوں میں جنگی بیانیہ بیچا۔
لوگوں کو میڈیا کے ذریعے کنٹرول کرنے کے حوالے سے نوم چومسکی کہتے ہیں:
”لوگوں کو سست اور فرماں بردار رکھنے کے لیے قابلِ قبول آرا کا مخصوص دائرہ کھینچیں اور پھر اس میں جوشیلی بحثیں کروائیں“۔
 ان بحثوں سے لگے گا کہ میڈیا بہت آزاد ہے۔اس میں ہر طرح کی بحث اور رائے کی اجازت ہے،لیکن حقیقت میں آپ اس طے شدہ دائرے کے اندر ہی ہوں گے۔
اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ طاقت اور پیسہ مل کر پروپیگنڈا کا وہ ماڈل تیار کرتے ہیں جو محدود رائے اور ایسی خبر عوام کو پہنچاتا ہے جو طاقت ور کے مفاد میں ہوتی ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہمیں  نظریہ اور  اپنے قومی تاریخی شعور سے آراستہ ہوکر  خبر اور معلومات کا سائنسی بنیادوں پہ تجزیہ کرنا چاہیے۔محض معلومات یا جاری واقعات کی خبروں پر ٹوٹ پڑنے کے بجائے ، ان کے تسلسل اور زمانی ترتیب کو سامنے رکھنا چاہیے۔کسی پروپیگنڈا اور جھوٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔نیوزچینل کے اپنے مفادات ہوتے ہیں،وہ انھی خبروں کو جگہ دیتے ہیں جو ان کے مفادات میں ہوں۔اس لیے ان کا شعوری بنیادوں پہ تجزیہ لازمی ہے۔ ہمیں جلد ردِعمل دینے کے بجائے غور و فکر کا رویہ اپنا کر باشعور اورمتحمل مزاج  بننا چاہیے۔
نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ”عوام کی اکثریت حقائق سے لاعلم ہوتی ہے“۔ 
 غور کرنے کی بات  یہ ہے کہ لا علم   ہونا اتنا خطرناک نہیں ہے، جتنا معلومات یا سطحی سوچ  کی رومیں بہک کر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنا مہلک ہے  ۔
آج  نوجوان نسل کی صلاحیت کو پروپیگنڈے کی رو میں مشتعل کرکے استعمال کرنا۔ سوشل میڈیا ایپس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔ لہٰذا  شعوری سماجی تبدیلی کے لیے، ایک بڑے مقصد کے پیش نظر اپنی زندگی تاریخی بصیرت کی روشنی میں آراستہ کرنا اور آہستہ آہستہ منزل کی جانب بڑھنا عہدموجود کا تقاضا ہے ۔









