حضرت شاہ ولی اللہ ؒ كا انقلابی فكر
شوشل ڈارون ازم اور شاہ ولی اللہ كے نظریات كا تقابلی جائزہ

حضرت شاہ ولی اللہ ؒ كا انقلابی فكر
تحریر: فہد محمد عدیل۔ گوجرانوالہ
یورپ کی جدید ترقی کے پسِ منظر میں نشاۃ ثانیہ اور یورپی انقلابات کا اہم کردار ہے، ہر انقلاب کسی نہ کسی فکر اور نظریے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ یورپ میں برپا ہونے والا جمہوری انقلاب ہو یا معاشی انقلاب، سائنسی ترقیات پر مبنی صنعتی انقلاب ہو یا مادی انقلابات، یورپی اسکالرز، مفکرین اور فلسفیوں نے افکار کی تشکیل و ترویج میں اہم کردار ادا کیا،مگر ان تمام انقلابات سے پہلے، اسلام کے فکر و فلسفہ کی اساس پر حضرت الامام شاہ ولی اللہؒ دہلوی نے معاشیات و سیاسیات، انسان کے نظریۂ ارتقا اور تمدن کی تشکیل پر جو افکار و نظریات پیش فرمائے، وہ جدید سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ اقتصادی فکر سے زیادہ جامع، جمہوری اور جدید تہذیب و تمدن کے نظریات سے زیادہ بہتر اور اعلی ہیں۔ یہ نظریات جدید تمدنی تشکیل کے مادی پہلوؤں سے کہیں زیادہ مفصل اور انسان کے مادی و روحانی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔
یورپی مفکرین نے "نظریۂ اصلِ مادہ" کی وضاحت کرتے ہوئے جو فکر پیش کی، وہ انسانیت اور انسانی معاشرے کی تشکیل کے مادی پہلوؤں کو تو بیان کرتی ہے، مگر انسان کے روحانی پہلو کو سراسر نظرانداز کرتی ہے۔ اگر فریڈرک ہیگل (1831ء) نے "روحُ الکُل" کا ایک غیرمکمل تصور پیش کیا، تو فیورباخ (1872ء) نے روح کا کلی انکار کر کے صرف معاشرتی تشکیل کے مادی پہلوؤں پر زور دیا۔ اس کے برعکس حضرت امام شاہ ولی اللہؒ نے اپنے "نظریۂ ارتفاقاتِ اربعہ" میں نہ صرف معاشرے کی مادی تشکیل کے بنیادی امور واضح فرمائے، بلکہ "روحُ الکُل" اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے "کمالاتِ اربعہ" کا ایک ایسا جامع اور معانی خیز نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد پر انسان کی مادی ترقی کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور روحانی ترقی کا ایک جامع منصوبہ بھی سامنے آتا ہے۔ اسی طرح آپؒ نے چارلس ڈارون (1882ء) کے "نظریۂ ارتقا"—جس کی بنیاد معاشرے میں گروہیت اور مخصوص افراد کی ترقی پر ہے—سے پہلے وحدتِ انسانیت کی بنیاد پر انسانی ارتقا کا ایسا نظریہ پیش کیا، جس میں معاشرے کی تشکیل کے نہ صرف بنیادی اور ثانوی پہلوؤں کو واضح کیا، بلکہ اجتماعِ انسانی کی ترقی کے لیے بین الاقوامی نظام کے خدوخال کا بھی تعین کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے جمہوریت کے یورپی نظریۂ اجتماع، جسے ژاں ژاک روسو (1778ء) نے پیش کیا، سے پہلے ہی حکومتی نظم و نسق کو طریقۂ بادشاہت (Autocratic Style of Management) کے بجائے ادارہ جاتی عمل (Democratic Style of Management) کے ذریعے چلانے اور پارلیمانی نظام کے لیے "امام الحق" کا تصور پیش کیا۔
حضرت امام شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا کہ جب سماج کے ادارے اور نظام انسانیت کے جملہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائیں اور انسانیت ترقی کی بجائے تنزلی اور زوال کی طرف جارہی ہو تو موجودہ نظام کو توڑ کر نئے نظام کی تشکیل کی جائے۔ اس مشہور انقلابی فکر کو آپؒ نے "فک کل نظام" کا نام موسوم فرمایا، جو یورپ کے انقلابات سے کم و بیش سو سال پہلے پیش کیا گیا۔ آپؒ کی تعلیمات میں انسانی اجتماع کے معاشی مسئلے پر نہ صرف زور دیا گیا، بلکہ یورپ کے معاشی نظریات کے بالمقابل اسلام کی بنیادی فکر پر مبنی ایک منفرد اقتصادی نظریہ پیش فرمایا۔ اس میں انسانیت کے مجموعی اخلاق کی بربادی کا سبب اقتصادی جبر اور معاشرے میں معاشی طبقاتیت کو قرار دیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ:
” انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہوجاتے ہیں، جب کسی جبر سے اسے اقتصادی تنگی پر مجبور کردیا جائے۔ “
آپؒ نے یہ بھی واضح کیا کہ انسانیت کی تباہی اور زبوں حالی کا اکثر سبب یہ ہوتا ہے کہ عام جمہور کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں، اور یوں انھیں محتاج رکھ کر معاشی اور اخلاقی حیثیت سے تباہ کردیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ تمام انسانیت کے فطری امور پر حضرت امام شاہ ولی اللہؒ نے اخلاقِ اربعہ کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کا ایک جامع نظریہ پیش فرمایا:
1۔ طہارت: ہر انسان فطری طور پر ظاہری و باطنی پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔
2۔ اخبات: ہر انسان کسی نہ کسی بڑی طاقت کو مانتا ہے، جیسے مسلمان اللہ کو اور عیسائی خدا کو۔
3۔ سماحت: ہر انسان معاشرے میں عزت اور عصمت والی زندگی کو پسند کرتا ہے۔
4۔ عدالت: ہر انسان اِنفرادی اور اجتماعی سطح پر عدل و انصاف قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہ نظریہ انسانیت کے مادی اور روحانی دونوں پہلوؤں کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔
حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے علمی میدان میں جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں، ان کی آج کے دور میں مثال تقریباً ناممکن ہے۔ آپ نے متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے قرآنِ حکیم کا اس دور کی مقامی زبان یعنی فارسی میں "فتح الرحمن" کے نام سے ترجمہ کیا۔ "علم اسرارِ دین" پر آپ کی شہرۂ آفاق تصنیف "حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔ معاشرتی تشکیل کے امور پر آپ نے "البدور البازغہ" تحریر فرمائی، حرمین کے مشاہدات پر مشتمل کتاب "فیوض الحرمین" لکھی، خلافت و حکومت پر معرکۃ الآرا تصنیف "ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء" پیش کی، جب کہ قرآنی علوم اور اصولِ تفسیر پر آپ کی گراں قدر کتاب "الفوز الکبیر" ہے، جس میں آپ نے قرآنی علومِ خمسہ—علم الاحکام، علم المخاصمہ، علم التذکیر بآلاء اللہ، علم التذکیر بأیام اللہ، علم التذکیر بالموت و ما بعد الموت، پر نہایت علمی انداز میں بحث فرمائی۔ ان مشہور تصانیف کے علاوہ آپؒ کی بہت سی دیگر کتابیں بھی ہیں، مثلاً قول الجمیل، تفہیماتِ الٰہیہ، سطعات، لمعات وغیرہ، جو آپ نے اپنی حیات میں تحریر فرمائیں۔ مزید برآں، آپؒ نے ادارہ جاتی امور کی وضاحت میں محض حکمتِ نظری کی بجائے حکمتِ عملی کی تشکیل پر زور دیا اور اس دور میں، جب یورپ ابھی ڈارک ایج سے نکلنے کی جدوجہد میں تھا، آپؒ نے Planning, Organizing, Leading & Controlling کے ساتھ ساتھ Strategy Design اور Strategy Analysis جیسے جدید تصورات سے بھی روشناس کروایا۔
آپؒ ایک ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے فکر کو محض لائبریریوں کی زینت نہیں بنایا، بلکہ اپنے دور میں ایک جماعت کی تشکیل فرمائی جسے "ولی اللہی جماعت" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس جماعت نے نہ صرف اپنے عہد کے حالات کا درست انداز میں تجزیہ کیا، بلکہ زوال پذیر مغلیہ سلطنت کو بچانے اور اس میں انقلابی اصلاحات قائم کرنے کے لیے بھرپور حکمتِ عملی بھی ترتیب دی۔ تاہم شاہانِ سلطنت اس قدر زوال میں مبتلا ہوچکے تھے کہ حضرت امام شاہ ولی اللہؒ جیسی عظیم شخصیت کے فکر کا ابلاغ تو درکنار، آپؒ کے بتائے گئے عملی اقدامات کو بھی سلطنت کا حصہ نہ بنا سکے۔
اس کے باوجود آپؒ نے جاٹوں اور مرہٹوں کی شورش کو فرو کرنے اور سلطنت کی مرکزیت قائم رکھنے کے لیے ہندوستان کے اندرونی صالح عناصر جیسے نواب نجیب الدولہ، روہیلہ سرداروں اور احمد شاہ ابدالی جیسے رہنماؤں سے مدد حاصل کی۔ پانی پت کی جنگ دراصل آپؒ کی مرہونِ منت تھی، جس میں احمد شاہ ابدالی نے نومبر 1760ء میں مرہٹوں کو شکست دی۔
یوں حضرت امام شاہ ولی اللہؒ نے اس مشن کی تکمیل کی جس کا آغاز حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے کیا تھا۔ آپؒ نہ صرف اپنے دور کے ایک جلیل القدر فلسفی اور مفکر ہیں بلکہ آنے والے زمانوں کے بھی مستقل امام ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آپؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں جدید دور کے مسائل پر شعور و ادراک حاصل کیا جائے، تاکہ معاشرے کی درست تشکیل و تعمیر ممکن ہو سکے۔