خلا کے بننے اور پُر ہونے کا آفاقی قانون، سماجی اَثرات اور ہماری سماجی ذمہ داریاں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • خلا کے بننے اور پُر ہونے کا آفاقی قانون، سماجی اَثرات اور ہماری سماجی ذمہ داریاں

    ایک بنیادی سائنسی اصول ہے، جس کا مشاہدہ عام طور پر گرمیوں کے موسم میں کیا جاتا ہے کہ جب کسی میدانی علاقے میں درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے

    By Asghar Surani Published on Sep 16, 2025 Views 170

    خلا کے بننے اور پُر ہونے کا آفاقی قانون، سماجی اَثرات اور ہماری سماجی ذمہ داریاں

    تحریر : محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں 

     

    ایک بنیادی سائنسی اصول ہے، جس کا مشاہدہ عام طور پر گرمیوں کے موسم میں کیا جاتا ہے کہ جب کسی میدانی علاقے میں درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے تو عصر یا شام کے وقت تیز ہواؤں کے ساتھ آندھی اور طوفان آجاتا ہے۔ اس کی وَجہ یہ ہے کہ شدید گرمی سے ہوا پھیل کر اوپر اُٹھتی ہے، جس کے نتیجے میں سطح پر کم دَباؤ (Low-Pressure Zone) پیدا ہوجاتا ہے۔ فطری طور پر، زیادہ دَباؤ والے علاقوں سے ٹھنڈی ہوائیں تیزی سے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بہت تیزی سے اس طرف بڑھتی ہیں، جس کے نتیجے میں تیز ہوائیں، بگولے یا بارش کے طوفان جنم لیتے ہیں۔

    یہی اصول انسانی سماجی، نفسیاتی اور سیاسی نظاموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی نظام، معاشرے، گروہ یا فرد میں کسی قسم کا خلا (Vacuum) پیدا ہو جائے—خواہ وہ تعلیمی ہو، اخلاقی، روحانی یا سیاسی— تو وہ خلا کسی نہ کسی طریقے سے فوری طور پر پُر ہوجاتا ہے۔ تاہم اگر اس خلا کو مثبت قوتیں نہ بھریں تو منفی عناصر اس جگہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر لیتے ہیں، جس کے نتائج اکثر تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔

     

    ذیل میں مختلف شعبوں سے مثالیں دے کر اس قانونِ خلا کو مزید واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    1 ۔خاندانی نظام اور تربیت کا خلا

    خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، جہاں بچے کی شخصیت، اقدار اور کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر والدین اپنی مصروفیات، لاپرواہی، یا عدم دلچسپی کی وَجہ سے اولاد کی تربیت میں خلا چھوڑ دیں، تو یہ خلا خارجی عوامل پُر کرا دیتے ہے۔ مثال کے طور پر آج کل کے بچے جب والدین کی رہنمائی سے محروم ہوتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ کی نامناسب ویڈیوز، یا غیرتعلیمی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گلی محلوں کے نامناسب دوست، فحش مواد، یا منفی رول ماڈلز بھی بچوں کے ذہنوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، بچپن میں تربیت کا یہ خلا جوانی میں مجرمانہ ذہنیت، نفسیاتی مسائل، یا سماجی بے راہ روی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارنے، ان کے سوالوں کے جوابات دینے اور ان کی ذہنی ضروریات کو سمجھنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یاد رکھیں تربیت کی ذمہ داری بہ حیثیت والدین اگر آپ نہیں اُٹھائیں گے تو سماج کا کوئی اور فرد یا گروہ اٹھائے گا، مگر ضروری نہیں کہ اس کے نتائج مثبت ہوں ۔

    2۔روحانی خلا اور جعلی رہنماؤں کا عروج

    انسانی فطرت میں روحانی تسکین کی طلب ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لیکن جب معاشرے میں نوجوانوں کو صحیح معنوں میں روحانی تعلیمات، عقلیت پسندی اور سائنسی سوچ سے ہم آہنگ مذہبی رہنمائی فراہم نہ کی جائے ، تو یہ خلا جعلی پیروں، نام نہاد مذہبی پیشواؤں، یا فرقہ پرست گروہوں سے پُر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ نوجوانوں کو ظاہری رسومات، توہمات اور شخصیت پرستی کے جال میں پھنسا کر انھیں حقیقی دین—جو خودشناسی، اخلاقی بلندی اور خدا سے گہرا تعلق سکھاتا ہے— سے دور کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پرآج کل کے نوجوان جب کسی ذہنی دَباؤ یا بحران کا شکار ہوتے ہیں تو وہ کسی مستند عالم دین یا ماہر نفسیات کے بجائے اِن "جعلی عاملوں" کے پاس جاتے ہیں جو انھیں تعویذ گنڈے، ٹونے ٹوٹکے، یا غیر معقول "حل" فراہم کرتے ہیں۔ نتیجتاً، نوجوان نہ صرف مادی مسائل میں اُلجھ جاتے ہیں، بلکہ روحانی طور پر بھی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ معاشرے میں حقیقی روحانی تعلیمات کو فروغ دیا جائے، جہاں دینی تعلیمات کے اسرار و حکم کے ذریعے عقلی سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا جائے۔ تاکہ نوجوانوں کی شعوری انداز میں روحانی آبیاری ہو سکے۔

    3 ۔ معاشرتی اقدار کا خلا اور اخلاقی زوال

    کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اس کے اخلاقی اصولوں، باہمی اعتماد اور اجتماعی نیک نیتی پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں جھوٹ، رشوت، بدعنوانی اور استحصال جیسی برائیاں عام ہوجائیں اور ان کے خلاف اجتماعی مزاحمت نہ کی جائے، تو یہ خلا سماجی انتشار میں بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب کسی دفتر میں ایمان داری سے کام کرنے والے افراد کو ترقی نہیں ملتی، جب کہ رشوت دے کر عہدے حاصل کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں، تو دوسرے لوگ بھی غیراخلاقی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب معاشرے میں صنفی تعصب، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، یا کمزوروں کا استحصال بڑھ جائے، تو یہ خلا انتہاپسندی، فرقہ واریت، یا سماجی تقسیم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کو صرف فرد تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ انھیں اداروں، قوانین اور معاشرتی حرکیات کا حصہ بنایا جائے۔

     4۔ تعلیمی نظام میں خلا اور کاروباری تعلیم

    تعلیم کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر حکومت سرکاری اسکولوں میں معیارِتعلیم، اساتذہ کی تربیت اور جدید سہولیات پر توجہ نہ دے، تو یہ خلا پرائیویٹ تعلیمی ادارے پُر کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثر پرائیویٹ اداروں کا بنیادی مقصد "کاروبار" ہوتا ہے نہ کہ "تعلیم اور قوم کی خدمت"۔ نتیجتاً، امیروں کے بچے مہنگے ترین اسکولوں میں جدید لیبارٹریز اور بین الاقوامی نصاب کے ساتھ پڑھتے ہیں، جب کہ غریب طبقے کے بچے ناقص عمارتوں، فرسودہ طریقہ ہائے تدریس اور غیرتربیت یافتہ اساتذہ کے سہارے رہ جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی تفریق معاشرے میں طبقاتی کشمکش کو جنم دیتی ہے۔ مزید برآں، سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت، بجٹ کی کمی اور انتظامیہ کی بے حسی کے باعث قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو قومی ترجیح بنایا جائے اور ہر طبقے تک یکساں معیاری تعلیم کی سہولت پہنچائی جائے۔

    5 ۔ سیاسی خلا اور غیر منتخب قوتوں کا عروج

    جمہوری ممالک میں عوام کے منتخب نمائندے ملک کے اداروں کو چلانے، قوانین بنانے اور عوامی وسائل کو منصفانہ تقسیم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی قیادت نااہل، غیرتعلیم یافتہ، یا مفاد پرست ہوں، تو یہ خلا بیوروکریسی، عدلیہ، حتیٰ کہ فوج جیسی غیر منتخب قوتیں پُر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جب اسمبلیوں میں قانون سازی کی بجائے ذاتی مفادات پر بحث ہوتی ہے، تو بیوروکریٹس پالیسیاں بناتے ہیں، عدلیہ حکومتی فیصلوں کو چیلنج کرتی ہے اور ریاستی مشینری انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر مقامی حکومتوں کو اختیارات نہ دیے جائیں، تو عوامی مسائل کو نجی کمپنیاں یا مافیا گروپس اپنے مفاد میں حل کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں جمہوریت کی روح فنا ہو جاتی ہے اور عوام کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔

     6 ۔ عدالتی نظام کا خلا اور خودسری کا فروغ

    عدل کسی بھی معاشرے کا بنیادی ستون ہے۔ اگر عدالتیں فیصلوں میں تاخیر کریں، انصاف کو مہنگا بنا دیں، یا امیروں اور طاقت وروں کو رعایت دیں، تو عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں لوگ متبادل طریقے اختیار کرتے ہیں، مثلاً 

    جرگہ سسٹم :جہاں طاقت ور قبائلی رہنما اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔

    ویجیلانٹ اِزم(Vigilantism): جہاں مظلوم خود ہی مجرم کو سزا دینے کی کوشش کرتا ہے۔

    انتقامی کارروائیاں: جس سے معاشرے میں تشدد اور خوف کی فضا پھیلتی ہے۔

    مثال کے طور پر، اگر کسی غریب شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے، تو وہ یا تو مجرم کو خود ہی نشانہ بناتا ہے، یا پھر انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال ریاست کی قانونی بالادستی کو کمزور کرتی ہے اور معاشرے کو جنگل کے اصولوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

     7۔ معاشی خلا اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا فروغ

    امام شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک معاشیات اور اخلاقیات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب معاشی نظام میں انصاف نہ ہو، دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے اور عوام کو بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت) میسر نہ ہوں، تو لوگ اخلاقی اصولوں کو ترک کر دیتے ہیں۔ مثلاً بے روزگار نوجوان منشیات کی سمگلنگ، چوری، یا دہشت گردی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ عام آدمی رشوت، دھوکادہی، یا جعلسازی کو روزگار کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ سماجی رشتے ٹوٹتے ہیں اور طبقاتی نفرت جنم لیتی ہے۔ دورِجدید کےماہر معاشیات امام شاہ ولی اللہؒ اور امرتیہ سین کے مطابق، معاشی عدم مساوات صرف غربت نہیں پھیلاتی، بلکہ سماجی صلاحیتوں (Social Capabilities) کو بھی ختم کرتی ہے، جس سے انسان کی اخلاقی اور ذہنی ترقی رک جاتی ہے۔

     خلا کو مثبت قوتوں سے پُر کرنے کی ضرورت

    خلا کو مثبت قوتوں سے پُر کرنے کی اجتماعی کوشش ہی کسی معاشرے کی بقا اور ترقی کی ضمانت ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب کسی قوم نے سماجی، اخلاقی، یا سیاسی خلا کو نظرانداز کیا، تو وہاں انتشار، استبداد، یا تخریب کاری کے بیج ضرور پنپے۔ مثال کے طور پر، قدیم روم کی اخلاقی پستی، فرانس کی انقلابی ہولناکیاں، یا جدید دور میں معاشی ناہمواری سے جنم لینے والی سماجی بغاوتیں اور انقلابات—یہ سب خلا کو منفی یا مثبت قوتوں کے حوالے کرنے کے نتائج ہیں۔ 

    یاد رکھیں

    "خلا کو پُر کرنے کا عمل اُس لمحے شروع ہو جاتا ہے جب ہم اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتے ہیں"۔ 

     لہٰذا، ہر فرد سے لے کر اداروں اور حکومت تک کو اپنے دائرۂ کار میں خلا پیدا ہونے سے روکنا یا اسے مثبت سرگرمیوں سے پر کرنا ہوگا، تاکہ معاشرہ استحکام، ترقی اور انصاف کے راستے پر رواں دواں رہ سکے۔

    اس مقصد کے حصول کے لیے دو حالتیں ممکن ہیں:

    الف۔ اگر ملک میں ایک مضبوط عادلانہ نظام موجود ہو تو:

    ایسے نظام میں خلا کو منفی عناصر سے بھرنے کا موقع ہی نہیں ملتا، کیوں کہ عدل پر مبنی ڈھانچہ خودکار طریقے سے خلا کو مثبت سرگرمیوں سے پُر کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب تعلیمی ادارے معیاری ہوں، عدالتیں شفاف ہوں اور معیشت متوازن ہو، تو افراد کا رجحان بھی تعمیری ہوتا ہے۔

    ب۔ اگر عادلانہ نظام موجود نہ ہو تو:

     ایسی صورت میں باشعور عوام کو اجتماعی جدوجہد کے ذریعے پہلے جماعتی کوشش کرنا ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر اصلاح کی کوشوں کو منظم کرنا ضروری ہو جاتا ہے ، تاکہ ایک نئے اور متوازن نظام کی بنیاد رکھی جا سکے۔ 

    یہ بات ذہن نشین رہے کہ:

     "خلا فطرتاً موجود رہتا ہے، لیکن اسے کس چیز سے بھرنا ہے—یہ ہمارا اجتماعی انتخاب ہے"۔ 

    اگر ہم آج اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے ہیں، تو کل آنے والی نسلیں ہمیں ضرور سراہیں گی۔ ورنہ تاریخ کے وہی اوراق ہمارے لیے عبرت کا سامان بن جائیں گے جو ہم نے کبھی دوسروں کے لیے لکھے تھے۔

    Share via Whatsapp