قوم کا فکری زوال اور علمی بیداری کا فریب - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قوم کا فکری زوال اور علمی بیداری کا فریب

    ہمارے معاشرے میں بعض ایسے رجحانات پیدا ہوگئے ہیں جو بظاہر "فکری بیداری" اور "آزاد خیالی" کا روپ دھارتے ہیں، ، مگر حقیقت میں یہ اجتماعی ناکامی ہے۔

    By جہانزیب اکرم Published on Sep 28, 2025 Views 174

    قوم کا فکری زوال اور علمی بیداری کا فریب

    تحریر:جہانزیب اکرم۔ فیصل آباد 


    ہمارے معاشرے میں بعض ایسے رجحانات پیدا ہوگئے ہیں جو بہ ظاہر "فکری بیداری" اور "آزادخیالی" کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ ایسے رجحانات کے حامل افراد، ہماری تاریخ اور اس میں ذکر کردہ مقدس شخصیات پر تنقید کرتے ہیں۔بہ ظاہر قرآن و حدیث اور کتابی حوالوں سےمسلم تاریخ کے کسی ایک گروہ کو درست اور دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔روایتی علما اور صوفیا پر تنقید کرتے ہیں۔سوالات اُٹھاتے ہیں اور روایتی مذہبی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ "حق گوئی" اور "بے باکی" کا اِظہار ہے، مگر حقیقت میں یہ ہماری اجتماعی فکری ناکامی کی علامت ہے۔

    ایسے رجحانات میں تنقید کا زور علمی تجزیے پر کم اور شخصیات پر حملے یا روایتی اقدار کی تضحیک پر زیادہ ہوتا ہے۔ بہ ظاہر یہ "آزاد فکری" کا مظہر دِکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک نئی قسم کی فکری غلامی ہے، جس میں تحقیق کی جگہ سطحی اعتراضات اور دلیل کی جگہ جذبات لے لیتے ہیں۔ ایسے رجحان میں سوال ضرور اُٹھایا جاتاہے، مگر مشکل سماجی مسائل کا کوئی تعمیری جواب دینے کے بجائے ایک نئے طرز کی افترا پردازی کو جنم دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے بیانات اکثر ایسے افراد کے لیے کشش رکھتے ہیں جو کسی بھی مذہبی، فکری یا سماجی اتھارٹی سے لاشعوری نفرت رکھتے ہیں۔

    علم یا صرف اختلاف؟

    اسلامی تعلیمات میں اختلافِ رائے اور تنقید کی اجازت ہے، لیکن اس کا دائرہ اخلاق اور علم سے جڑا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت"

     جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ یا تو خیر کی بات کرے یا خاموش رہے۔(صحیح بخاری و مسلم)

    اسی طرح قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:

    "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ" (النحل: 125)

    یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت سے دعوت دو۔

    لیکن ہمارے معاشرے میں پھیلتے رجحانات عموماً حکمت اور نصیحت سے خالی ہوتے ہیں اور زیادہ تر جارحانہ رویے، معاشرتی ٹکراؤ اور فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔

    معاشرتی پس منظر: شکست خوردہ ذہن کی تشکیل

    ایسے رجحانات کا اصل ہدف وہ عوام ہیں جو مسلسل محرومی، عدمِ تحفظ، ، سیاسی بے یقینی، سماجی ناانصافی، معاشی تنگی، ذہنی دَباؤ اور احساسِ کمتری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی قوم کا ایک بڑا طبقہ برسوں سے شناخت کے بحران کا شکار ہے ۔نہ ان کے پاس کوئی واضح فکری پہچان ہے، نہ قومی سطح پر کوئی معتبر مقام اور نہ ہی عالمی برادری میں انھیں کوئی باعزت حیثیت حاصل ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، بے توقیری، تحقیر اور ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہے۔

    ایسے میں جب کوئی فرد — چاہے وہ کتنے ہی سطحی مطالعے یا محدود فہم کا حامل ہو — روایتی مذہبی، فکری یا سماجی طور پر بااثر شخصیات پر تنقید کرتا ہے، تو یہ تنقید اُن زخم خوردہ دِلوں کے لیے ایک نفسیاتی مرہم بن جاتی ہے۔ اُنھیں اِس عمل میں ایک طرح کا داخلی سکون محسوس ہوتا ہے، گویا وہ کسی بڑے کو نیچا دِکھا کر خود کو "بڑا" سمجھنے لگتے ہیں۔ دراصل یہ ایک وقتی خوش فہمی ، ذہنی فریب اور نفسیاتی ردِعمل ہے، جس میں دینی اور روایتی مُسَلَّمات پر تنقید سن کر، چاہے وہ کیسی سطحی اور خلافِ واقعہ بھی ہو، وقتی سکون، مصنوعی بیداری اور ایک جھوٹا احساس تفاخرجنم لیتا ہے۔ حال آں کہ  یہ احساس نہ تو فکری پختگی کی علامت ہوتا ہے، نہ ہی سچائی کی تلاش کا نتیجہ۔ یہ سوچ فرد کے لیے وقتی سکون تو لاتی ہے، مگر مجموعی طور پر معاشرے کو مزید عدمِ برداشت، بدگمانی اور فکری انتہاپسندی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

    یہ رجحان چند افراد کی "کامیابی" نہیں، بلکہ پورےمعاشرے کے فکری دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ یہ صورتِ حال برسوں کی محرومی، علمی بانجھ پن، معاشرتی بے حسی اور علمی زوال کا شاخسانہ ہے۔ جب ایک قوم تعلیم، تربیت، انصاف، اخلاق اور علم کے معتبر ذرائع سے کٹ جائے، تو وہ ایسی ہی آوازوں کے پیچھے چلنے لگتی ہے جو انھیں عارضی طور پر اپنا درد بھلانے کا موقع دیتی ہیں۔ان افراد کا اندازِ گفتگو، تنقیدی اسلوب اور روایتی اقدار سے بغاوت کا رویہ اُس منتشر ذہن کے لیے پُرکشش بن جاتا ہے، جو سالہا سال سے اپنی بے بسی کے بوجھ تلے دَبا ہوا ہے۔ وہ ہر اس آواز کو "حق گوئی" سمجھنے لگتا ہے جو اس کے جذبات کی عکاسی کرے، چاہے وہ آواز دلیل سے خالی ہو، یا اخلاقی بنیادوں پر ناقابلِ قبول ہو۔

    انومی اور سماجی بحران

    مشہور فرانسیسی سوشیالوجسٹ ایمیل دورکائم کے مطابق:

    "Anomie is the breakdown of social norms, leading to moral confusion and deviant behavior."

    یعنی انومی وہ کیفیت ہے، جب سماجی اقداراور اصول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں اور اس کے نتیجے میں اخلاقی ابہاما ت اور (روایت سے)انحرافی رویّے پیدا ہوں۔ ایسے حالات میں ہی وہ آوازیں اُبھرتی ہیں جو بہ ظاہر حق گوئی کا لبادہ اوڑھ کر عام انسانوں کی بے بسی کو جواز اور بقافراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح ارنسٹ بیکر نے اپنی کتاب The Denial of Death میں واضح کیا ہے کہ عام انسان اپنی موت، بے بسی اور بے اَثری کے احساس سے بچنے کے لیے ہیروز تلاش کرتا ہے، جو اس کی جگہ بولیں اور اس کے جذبات کی ترجمانی کریں۔ ایسی فضا میں سطحی یا محدود فہم رکھنے والے افراد بھی ہیرو بن جاتے ہیں، اور عوام انھیں اپنی نفسیاتی تسکین کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔

    اصل مسئلہ: نظام کی کمزوری

    یہ سوال اہم ہے کہ آخر ایسے رجحانات کی حامل شخصیات کیوں مقبول ہوتی ہیں؟ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ان افراد میں علمی رسوخ، دلائل اور ابلاغ کی صلاحیت اپنے ہم عصروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس عمل کی وجوہات مختلف ہیں۔ یہ اس معاشرے کا المیہ ہے، جس میں فکری رہنمائی کے تمام دروازےبند ہو چکے ہیں۔جب تعلیمی ادارے تقلید کے گڑھ بن جائیں، مذہبی مراکز مسلکی تعصب کا شکار ہوں، عدالتیں انصاف مہیا نہ کر سکیں اور ذرائع ابلاغ صرف سطحی موضوعات، جذباتیت اور اشتعال کو بیچنے لگیں، تو پھر قوم انھی آوازوں کو "نجات دہندہ" سمجھنے لگتی ہے، جو ان کے دل کی بھڑاس نکالنے میں مدد کریں، چاہے وہ آواز حقیقت میں ایک فریب ہو۔ان رجحانات کی مقبولیت کوئی انقلابی کارنامہ نہیں، بلکہ ایک زخم خوردہ قوم کے فکری انتشار کا عکس ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قوموں کو سوچنے کا شعور نہ دیا جائے، تو وہ صرف اختلاف برائے اختلاف اور دوسروں کی تضحیک کو ہی "سوچنے" کا نام دے دیتی ہیں۔

    اصل المیہ یہ ہے کہ ایسے افرادماضی اور حال کی شخصیات اور موجودہ نظام کی خرابیوں پر سوالات تو اُٹھاتے ہیں، مگر کسی مثبت اور عملی متبادل کے بغیر محض تنقید اور تخریب پر مبنی بیانیہ پیش کرتے ہیں، اور یہی پہلو اِن کے افکار کو خطرناک بناتا ہے۔ یہ لوگوں کو سوال کرنا تو سکھاتے ہیں، مگر شعور نہیں دیتے۔ تنقید کا ہنر تو سکھاتے ہیں، مگر تعمیر کا سلیقہ نہیں سکھاتے۔

    لہٰذا، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان افراد کی پذیرائی، ان کی ذات کا کمال نہیں، بلکہ یہ ایک گہرے سماجی اور نفسیاتی بحران کا مظہر ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں، مذہبی مراکز، عدالتی نظام اور فکری قیادتوں کو اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ عوام اَب ہر اس شخص کی طرف لپکتے ہیں جو انھیں ان کی مایوسی اور ذہنی تناؤ(فرسٹریشن)نکالنے کا راستہ دکھا ئے ، چاہے وہ راستہ گمراہی اور سماجی انتشار ہی کی طرف کیوں نہ جاتا ہو۔

    نتیجہ: فرد نہیں، نظام کی اصلاح

    ان رجحانات کی موجودگی دراصل ہمارے نظام کے کھوکھلے پن کی علامت ہے۔ ان رجحانات کے حامل افراد اور ان کے پیروکاروں سے اُلجھنے یا انھیں رَد کرنے کے بجائے اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی، مذہبی اور فکری ڈھانچوں کو مضبوط کریں اور پھر اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور عدالتی نظام کو عدل و انصاف اور انسانی شرف کی بنیاد پر قائم کرنے کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ بصورتِ دیگر یہ رجحانات بار بار نئے چہروں اور نئی حربوں کے ساتھ ابھرتے رہیں گے اور معاشرے کو مزید گمراہ کرتے رہیں گے۔اصل علاج افراد پر تنقید نہیں، بلکہ نظام کی اِصلاح ہے۔ ورنہ ہم صرف چہرے بدلتے رہیں گے، جب کہ بیماری جوں کی توں برقرار رہے گی؛لاعلاج اور ہر لمحہ بڑھتی ہوئی۔

    Share via Whatsapp