اداروں کا باہمی تضاد اور عوامی مسائل
اداروں کا باہمی تضاد اور عوامی مسائل
اداروں کا باہمی تضاد اور عوامی مسائل
تحریر:محمد صداقت طلحہ۔ وہاڑی
پاکستان میں ان دِنوں بیرونِ ملک سفر کرنے والے شہریوں کو ایئرپورٹس پر بار بار آف لوڈ کیے جانے کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ روزانہ درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، جن میں مکمل سفری دستاویزات رکھنے کے باوجود مسافروں کو جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔ اخبارات اور نیوزچینلز میں ایسے بے شمار قصے سامنے آرہے ہیں کہ ایئرپورٹ کے کاؤنٹر سے واپس بھیجے گئے شہری اپنی عمر بھر کی جمع پونجی، وقت اور عزت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک سنگین سوال کھڑا کررہی ہے کہ آخر ایسے اقدامات کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق آف لوڈنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات چند بنیادی وجوہات رکھتے ہیں، جن میں جعلی ایجنٹس کی سرگرمیاں، انسانی اسمگلنگ کا خدشہ، سفری دستاویزات کی مکمل جانچ کا فقدان اور اداروں کے درمیان رابطے کی کمزوری شامل ہے،لیکن مسئلہ صرف خطرات کا نہیں، بلکہ اس بات کا بھی ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے خود باہمی ہم آہنگی کے فقدان کا شکار ہیں۔ جب ریاستی مشینری کے مختلف حصے ایک دوسرے سے منقطع طریقے سے کام کریں تو نظام شہری کو تحفظ نہیں، بلکہ پریشانی دیتا ہے۔
پاکستان میں امیگریشن اور بیرونِ ملک سفر کی نگرانی تین بڑے سرکاری ادارے کرتے ہیں۔
پہلا ادارہ "امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ" ہے جو پاسپورٹ اور ایمیگریشن کی بنیادی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔
دوسرا "ایف آئی اے" ہے، جو بیرونِ ملک جانے والے افراد کی جانچ پڑتال، مشکوک سفر، انسانی اسمگلنگ اور سائبر کرائمز جیسے معاملات میں سرگرم ہے۔
تیسرا ادارہ "اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن/پروٹیکٹر آف امیگرنٹس" ہے، جو بیرونِ ملک روزگار حاصل کرنے والے پاکستانیوں کی رجسٹریشن، معاہدوں کی جانچ اور قانونی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
ان اداروں کے اپنے اپنے دائرہ کار ہیں، مگر یہ مسئلہ تب شدت اختیار کرتا ہے، جب ایک ادارہ دوسرے کی کارروائی سے لاعلم ہو۔ پروٹیکٹر کا فرض ہے کہ بیرونِ ملک روزگار پکڑنے والے کو قانونی کاغذات کے ساتھ محفوظ بنائے، مگر ایئرپورٹ پر ایف آئی اے کے اہلکار بسااوقات انھی کلیئر شدہ افراد کو شک کی بنیاد پر روک لیتے ہیں۔ اسی طرح امیگریشن کا عملہ بسااوقات دستاویزات کی ایسی باریکیاں سامنے لاتا ہے، جن کا پروٹیکٹر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نتیجتاً، تین اداروں کی تین الگ پالیسیز ایک عام شہری پر تین گنا بوجھ بن جاتی ہیں۔
اس غیرمربوط نظام کا سب سے بھاری بوجھ غریب اور محنت کش مسافر پر پڑتا ہے۔ وہ شخص جس نے بیرونِ ملک جانے کے لیے اپنی زمین بیچی، قرض لیا، سونے کے زیورات گروی رکھے، یا خاندان کی آخری امید خرچ کردی، ایک ہی لمحے میں ”آف لوڈ“ ہونے پر سب کچھ کھو دیتا ہے۔ ٹکٹ ضائع، ویزا ضائع، بروقت نہ پہنچنے پر کمپنی کا کنٹریکٹ منسوخ اور بعض اوقات قرض خواہ دروازے پر۔ ایک آف لوڈ کچھ لوگوں کے لیے صرف ایک رکاوٹ نہیں، بلکہ پوری زندگی کی محنت کے ڈوب جانے کے مترادف ہوتا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ تینوں ادارے باہمی کوآرڈی نیشن کے بغیر کام کرتے ہیں۔ ان کے ڈیٹا بیس الگ، رپورٹنگ طریقے الگ، فیصلہ سازی کے معیار مختلف اور پروسیجرز آپس میں عدمِ مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک ادارہ پچھلے ادارے کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے بجائے ازسرِنو پڑتال شروع کرتا ہے۔ اس عدمِ اعتماد کا نتیجہ پوری ریاستی مشینری کی سست رفتار، غیریقینی اور غیرضروری سختی کی صورت میں نکلتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے یہ مسائل بہت پہلے حل کر لیے ہیں۔ بنگلادیش، بھارت، نیپال، سری لنکا، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا وغیرہ، سب میں بیرونِ ملک سفر، ایمیگریشن، پاسپورٹ اور لیبر اوورسیز کے امور ایک ”سنگل ونڈو اتھارٹی“ کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔ شہری ایک ہی دفتر سے ایک ہی مرتبہ کلیئرنس لیتا ہے اور پھر کسی دوسرے ادارے کے سامنے دوبارہ وضاحت نہیں کرنی پڑتی۔ ان ممالک کی حکومتوں نے سمجھ لیا کہ بکھری ہوئی ذمہ داریاں ہمیشہ عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں، جب کہ مربوط نظام نہ صرف شفافیت بڑھاتا ہے، بلکہ بھاری کرپشن اور بدنظمی کو بھی ختم کرتا ہے۔ آج دنیا کے پچاس سے زائد ممالک مکمل طور پر ”ون ونڈو سسٹم“ پر منتقل ہوچکے ہیں۔ اس لسٹ میں ترکی، ملائیشیا، سنگاپور، متحدہ عرب امارات، قطر، بھارت، بنگلادیش، ازبکستان، آذربائیجان، تھائی لینڈ اور کئی یورپی ممالک شامل ہیں، جہاں مسافر کی معلومات، تصدیق اور کلیئرنس ایک ہی پلیٹ فارم سے ہوتی ہے اور انھی معلومات تک تمام اداروں کی رسائی ہوتی ہے۔
پاکستان کے لیے بھی اَب یہی واحد حل ہے۔ تین اداروں کے الگ الگ ڈھانچوں کو ایک متحد، جدید اور خودکار ”نیشنل ٹریول اینڈ امیگریشن اتھارٹی“ کے تحت لایا جائے۔ ہر مسافر کا ڈیٹا ایک ہی ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے تیار ہو، پروٹیکٹر، ایف آئی اے اور امیگریشن سب اسی سسٹم سے معلومات حاصل کریں اور کسی مسافر کو جائز بنیاد کے بغیر ”آف لوڈ“ نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جعلی ایجنٹس کے خلاف سخت کارروائی، اہلکاروں کی ٹریننگ اور خودکار اسکیننگ نظام ضروری ہے، تاکہ انسانی مداخلت کم ہو اور بدعنوانی کی گنجائش ختم ہو۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہمارے ملک کا نوجوان اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے؟ اسے اپنے وطن کی میں روزگار کے وہ مواقع میسر کیوں نہیں، جن کی تلاش میں وہ مسافر بن کر اپنے پیاروں سے دور ہورہا ہے۔
یہ سب اس فرسودہ نظام کی کارستانی ہے۔ وہ جب فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے تو سفر کے نام پر ذِلت، بے بسی اور نقصان کا سامنا کرتا ہے۔ اَب پاکستان کو بھی اپنے نظام کو عوام دوست، جدید اور باہمی ہم آہنگی پر مبنی بنانے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وہ مواقع یہیں میسر ہوں۔ اسی طرح اس فرسودہ نظام کے بجائے باہمی مربوط اور منظم ادارہ جاتی تشکیل عمل میں لائی جائے، جس سے عوام کے مسائل حل ہوں۔









