سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں نظامِ عبادات کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں نظامِ عبادات کا کردار

    نظامِ عبادات دراصل اسلام کے حقیقی تبدیلیی مزاج کا عملی تربیتی فریم ورک ہے جو فرد کی روحانی و اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ جماعتی نظم، معاشی عدل، اجتماعی

    By Hazrat bilal Published on Dec 07, 2025 Views 358

    سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں نظامِ عبادات کا کردار

    تحریر: حضرت بلال، ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور 

     

    اسلام: ایک مکمل نظام حیات 

    اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو عقائد اور بنیادی اصولوں کے ساتھ انسان کی مادی و روحانی ضرورتوں اور بہیمی و ملکوتی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ قرآن بار بار عملِ صالح کی تاکید کرتا ہے، تاکہ ایمان کے تقاضے عملی زندگی میں ظاہر ہوں۔ اس پس منظر میں نظامِ عبادات ایک جامع تربیتی نظام ہے ۔ 

    عبادت کا مفہوم

    عبادت لفظ ”عبد“ سے نکلا ہے، جس کا معنی ہے ”بندہ“، ”غلام“ قرآن کہتا ہے: (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) (سورۃ الذاریات:56)، یعنی ’’میں نے جن و انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ 

    امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ فرماتے ہیں: "بندے اور خدا کے درمیان نسبتِ عبودیت کو درست رکھنے کا نام عبادت ہے:۔ جب نسبتِ عبودیت درست ہوجاتی ہے تو جماعت کے افراد پارٹی ڈسپلن کو ذاتی مفاد یا شخصی تعلقات پر نہیں، بلکہ اللہ کی اطاعت کا حصہ سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ یوں جماعتی نظم بکھرتا نہیں، بلکہ مضبوط ہوتا ہے اور کارکنوں میں وہ استقامت پیدا ہوتی ہے جو شعوری سماجی تبدیلی کے لیے لازمی ہے۔

    عبادت کا حقیقی مقصد: غیر اللہ سے قطع تعلق اور اخبات الی اللہ 

    کلمۂ شہادت لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه کا پہلا حصہ لَا إِلٰهَ ہر جھوٹے معبود، طاقت اور نظام کے انکار کا اعلان ہے، اور دوسرا حصہ إِلَّا اللّٰه صرف اللہ کی ربوبیت، ملوکیت اور الوہیت کا اقرار ہے۔ قرآن کہتا ہے: (أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (سورۃ النحل:36)، ”اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو“۔اور دوسری جگہ فرمایا: (فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى)(سورۃ البقرہ:256)، جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط کڑا تھام لیا۔

    ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان سے پہلے ہر باطل قوت اور غیراللہ کے نظام کے انکار کی شرط اولین ہے تاکہ فکر و عمل میں یکسوئی پیدا ہوسکے اور اس کا تعلق خالص اللہ کی رضا کے لیے اس کے پسندیدہ دین (دینِ اسلام )کو انسانی معاشرے میں غالب کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔

    جذبہ اخبات اور نظامِ عبادات کا باہمی تعلق 

    عبادت محض ایک اِنفرادی روحانی کیفیت یا رسمی عمل کا نام نہیں، بلکہ وہ روح ہے جو بندے کے دل و دماغ، کردار و عمل اور فرد و جماعت کے تمام تعلقات کو اللہ کی اطاعت کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ اِنفرادی عبادت کا مقصد دل میں اللہ کی حاکمیت کا شعور پیدا کرنا ہے، اور جب یہی شعور ایک باقاعدہ نظامِ عبادات کی شکل اختیار کرتا ہے تو وہ فرد سے نکل کر جماعت اور پھر پورے معاشرے تک پھیل جاتا ہے۔ یوں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے ارکان محض ذاتی تقویٰ کا ذریعہ نہیں رہتے، بلکہ ایک مربوط سماجی تربیتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں جو فرد کی اِصلاح سے لے کر جماعتی نظم اور معاشرتی عدل تک مکمل اور ہمہ گیر تبدیلی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ عبادت کی حقیقی رُوح نظامِ عبادات کو اختیار کیے بغیر قائم نہیں کی جا سکتی، اور بعینہٖ نظامِ عبادات کی پابندی کے پیچھے اگر عبادت کا حقیقی مفہوم اور مقاصد پیش نظر نہ ہوں تو وہ محض ایک رسم یا فرض کی ادائیگی تو ہوگی، عملی زندگی اور جماعتی تربیت کے اہداف و مقاصد کے حصول میں مددگار نہ ہوگی۔ یہی وَجہ ہے کہ عبادت کے مقصد کو سمجھے بغیر نظامِ عبادات کی اصل اورحقیقی روح کو سمجھنا ممکن نہیں۔

     نماز: کردار سازی اور تربیت کا بنیادی ستون

    نماز قربِ الٰہی کا سب سے اہم ذریعہ اور نظامِ عبادت کا ستون ہے۔ یہ فرد اور معاشرہ دونوں کو اعلیٰ ترین صفات سے مزین کرتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو اور پاکیزگی شرط ہے جو صرف جسم اور کپڑوں کی صفائی نہیں بلکہ عقل، قلب اور نفس کی پاکیزگی بھی ہے اور اسی طہارت کو معاشرتی سطح پر لانا ضروری ہے، تاکہ معاملات، اخلاق اور نظریات بھی پاک رہیں۔ قرآن فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (سورۃ العنكبوت:45) ”بے شک نماز فحشاء اور منکرات سے روکتی ہے۔ 

    مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں کہ ”فرمانبرداری کا پکا وعدہ اور جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے کا عزم ہی انسان کو جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے ۔ 
    نماز جماعتی سطح پر سماجی مساوات بھی سکھاتی ہے کہ امام کے پیچھے امیر و غریب، گورا و کالا سب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔
    یہ سبق صرف مسجد تک محدود نہیں، بلکہ پورے معاشرے میں امتیازات کے خاتمے کی دعوت ہے۔ نماز وقت کی پابندی اور قیادت کی اطاعت سکھاتی ہے کہ سب ایک ہی وقت پر امام کے پیچھے رکوع و سجود کریں۔ رکوع ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور اجتماعی نظم کے سامنے جھکنے کی علامت ہے، جب کہ سجدہ اپنی اَنا کو مٹا کر دینِ حق کے غلبے کے لیے جان، مال بلکہ سب کچھ قربان کرنے کا عزم ہے۔ مزید یہ کہ جماعت کے ساتھ نماز کو اِنفرادی نماز پر ستائیس درجے فضیلت دی گئی ہے (بخاری و مسلم)، جس سے اجتماعی شعور اور اتحاد و یگانگت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یوں نماز ایک ایسی جامع تربیت ہے جو پاکیزگی، ڈسپلن، مساوات، استقامت اور اجتماعی شعور کو پروان چڑھاتی ہے، اور یہی اوصاف ایک اعلیٰ جماعت کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

     روزہ: ضبطِ نفس اور تقویٰ کےحصول کاذریعہ

    روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیں، بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے ضبطِ نفس کی عملی تربیت ہے۔ قرآن میں روزے کے مقصد کو تقویٰ اور کردار سازی سے جوڑا گیا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ کما کتب علی الذین من قبلکم لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)(سورۃ البقرۃ:183)۔ ”اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسا کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلے لوگوں پر تاکہ تم عدل قائم کرنے والے بن جاؤ“۔ روزہ مومن کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو۔ قرآن میں ہے:(وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى) (سورۃالنازعات:40–41) "اور اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو یقیناً جنت ہی اس کا اس ٹھکانہ ہے " یعنی اصل کامیابی خواہشات کو اللہ کے خوف سے روکنے میں ہے۔ روزہ دل اور نیت کو گناہوں اور بری خواہشات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ (قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا)(الشمس:9) ”یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کو کو پاک کیا“ میں بیان ہوا، اور یہی تزکیۂ نفس مومن میں امانت داری اور قربانی پیدا کرتا ہے۔ روزے میں بھوکا پیاسا رہنا انسان کے دل میں محتاجوں اور کمزوروں کے احساس کو جگاتا ہے۔ یہی جذبہ انسان کے دل میں ہمدردی، ایثار اور خدمتِ خلق کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ روزے کا نظم بھی ایک اہم سبق ہے۔

    روزہ مباح خواہشات کو اللہ کی رضا کی خاطر ترک کرنا وقت کی پابندی اور ضبطِ نفس سکھاتا ہے ۔مساوات کے پہلو سے روزہ امیر و غریب سب کو ایک سطح پر لے آتا ہے، کیونکہ ہر فرد ایک ہی بھوک پیاس کا تجربہ کرتا ہے۔اس سے مومن کے دل میں مساوات اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو عدل کے قیام کی بنیاد بنتا ہے۔ قرآن حکیم کی نظر میں”تقوی“ عدل کے سب سے زیادہ قریب ہے:

     (اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى) (المائدۃ:8)۔

    ”عدل کرو یہ عدل کے سب سے زیادہ قریب ہے“۔ 

    یوں روزہ ضبطِ نفس، تقویٰ، مساوات اور عدل کی ایسی ہمہ گیر تربیت ہے جو ایک اعلیٰ جماعت کے کارکن کو ہر سطح پر تیار کرتی ہے۔

    زکوٰۃ: معاشی عدل اور سماجی مساوات کا نظام

    زکوٰۃ مال کی طہارت اور دل کی سخاوت دونوں کا نام ہے۔ زکوٰۃ فرد کے مال اور نفس کو پاک کرتی ہے اور اجتماعی معیشت کو منظم کرتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: 
    «إِنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ» (بخاری)۔ ”بے شک اللہ نے مؤمنوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو مؤمنوں میں سے مال داروں سے وصول کی جائے گی اور مؤمنوں میں سے محتاجوں پر خرچ کی جائے گی“۔ زکوٰۃ محض مال کا ظاہری انفاق نہیں، بلکہ دل کی محبتِ مال کو اللہ کے لیے قربان کرنے کی تربیت ہے۔ یہ مومنکو سکھاتی ہے کہ حقیقی تبدیلی کے لیے عزیز ترین چیز بھی قربان کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ سرمایہ پرستی کی جڑ کاٹتی ہے، تاکہ دولت صرف مال داروں کے درمیان نہ گردش کرے۔ (سورۃ الحشر:7)۔ یہ نظامِ معاشرت میں حقیقی مساوات قائم کرتا ہے: اس کے نتیجے میں غربت و افلاس کے خاتمہ میں مدد ملتی ہے ۔ یوں زکوٰۃ معاشی عدل، مساوات، ایثار، تعاون اور غربت کے خاتمے کی وہ جامع تربیت فراہم کرتی ہے جو مالی و سماجی ڈھانچے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔

     حج: وَحدتِ اُمت اور عالمی اجتماعیت کی تربیت کا نظام

    حج کوئی رسم یا اِنفرادی عبادت نہیں، بلکہ اسلام کے سیاسی، معاشی اور سماجی پیغام کا عملی مظاہرہ ہے۔ قرآن کہتا ہے:وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞(سورۃ آل عمران: 97) 

    ”اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پروا نہیں رکھتا جہان کے لوگوں کی“۔

    حج ایک عالمی اجتماع ہے جس میں نسل، رنگ اور زبان کی تمام دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ حج یہ سبق دیتا ہے کہ اصل فضیلت تقویٰ میں ہے۔ لاکھوں مسلمان ایک ہی لباس اور ایک ہی نعرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، یوں”سب انسان کنگھی کے دندانے کی طرح برابر ہیں“۔ (حدیث: ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء)کامظاہرہ ہوتا ہے۔ یہی مساوات اعلیٰ جماعت کے لیے رہنمائی ہے کہ جماعت میں برتری کا معیار نسب یا دولت نہیں، بلکہ قربانی اور اخلاص ہو۔ مزید یہ کہ قرآن نے واضح طور پر فرمایا:(فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ)(سورۃ البقرۃ:197)، یعنی “حج کے دوران نہ شہوانی بات ہو، نہ فسق و فجور اور نہ ہی جھگڑا۔” یہ آیت حج کے اخلاقی اور تربیتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے کہ حج کا اصل مقصد دلوں کو پاک کرنا، باہمی احترام کو مضبوط کرنا اور اجتماعیت کو خیر و تقویٰ پر قائم کرنا ہے۔ یوںحج وحدتِ اُمت، مساوات، اجتماعیت اور کردار سازی کا ایک جامع عملی نظام ہے۔

    خلاصہ کلام

    نظامِ عبادات دراصل اسلام کے حقیقی تبدیلئ مزاج کا عملی تربیتی فریم ورک ہے جو فرد کی روحانی و اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ جماعتی نظم، معاشی عدل، اجتماعی یکجہتی اور بین الاقوامی وحدت کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔ جب نماز استقامت اور نظم و ضبط عطا کرے، روزہ ضبطِ نفس اور تقویٰ پیدا کرے، زکوٰۃ معاشی مساوات اور ایثار کو فروغ دے اور حج وحدتِ امت اور دین کے غلبے کا شعور زندہ کرے تو ایک ایسی جماعت وجود میں آتی ہے جو انسانی زندگی کی ہر سطح پر اللہ کی حاکمیت کے قیام اور ظلم کے نظام کے خاتمے کے لیے تیار ہو۔ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے باعث عبادات کو فرض قرار دیا گیا ۔یہی وہ حقیقی روح ہے جو ایک دینی جماعت کو فکری، اخلاقی اور عملی میدان میں ایک ناقابلِ تسخیر قوت بنا دیتی ہے۔

    Share via Whatsapp