تقوی کی مقصدیت اور اس کا مؤثر ذریعہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تقوی کی مقصدیت اور اس کا مؤثر ذریعہ

    خاص عبادت تمام مذاہب میں مشترک ہے اسلئے سماج میں نتیجہ بھی مشترک نکلنا چاہئیے. یعنی عدل کا قیام نتیجتاً بھوک و افلاس کا خاتمہ.

    By محمد حارث خان یوسفزئی Published on Oct 08, 2019 Views 2026

    تقوی کی مقصدیت اور اس کا مؤثر ذریعہ

    تحریر : محمد حارث خان یوسف زئی, راولپنڈی

     قرآن مجید نے بہت سے نیک اعمال کا ایک مشترک نتیجہ یہ بتایا ہے کہ "تاکہ تم متقی ہو جاؤ" اور متقی بننے کے لیے تقوی کی صفت اساسی اور ضروری ہے اور تقوی کے معنی قرآن پاک نے "اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ"  کہہ کر سمجھا دیے، یعنی "عدل(انصاف) کرو یہ تقوی کے سب سے قریب ہے"، عدل کرنا ایسا خلق ہے جو تمام انسانی معاشروں میں مطلوب ہے۔ کوئی ذی شعور اس کا انکار نہیں کر سکتا، لیکن ہمارا معاشرہ اس بنیادی فطری عمل سے کوسوں دور ہے اور جس معاشرے میں عدل نہ ہو وہ معاشرہ ظلم کا شکار ہو جاتا ہے اور وہاں ظلم کا پہلا اقدام، بھوک کی شکل میں ناچتا نظر آتا ہے. غور طلب بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک لگنے کا احساس مشترک ہے، کوئی بھی انسان کسی بھی خطے، کسی بھی رنگ نسل مذہب کا ہو  بھوک کے احساس سے عاری نہیں،اسی لیے کھانا پینا انسانی زندگی  کا لازمی حصہ ہے.

    اسی انفرادی احساس کو اجتماعی احساس میں ڈھالنے کے لیے روزے کی عبادت مقرر کی گئی ہے تاکہ بھوک سے بلکتی انسانیت کا احساس اجاگر ہو اور معاشرے سے بھوک کا مکمل خاتمہ کرنے کی طرف روزہ دارمتوجہ ہو.

     یہ اجتماعی عبادت جو منشا الہی سے تمام انسانیت پر فرض رہی ہے، یہ ہر الہامی شریعت یا دیگر مذاہب میں مختلف رہا ہے. لیکن روزہ بہرحال دنیا میں موجود تمام مذاہب کے ہاں کسی نا کسی صورت میں موجود رہا ہے اور آج بھی رکھا جاتا ہے. قرآن مجید بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" ترجمہ "ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮭﮯ  تاکہ تم متقی بن جاؤ“، یعنی یہ صرف شریعت محمدیہ کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ تمام امتوں میں رہا ہے. دنیا میں سب سے زیادہ پیروکار عیسائیت کے ہیں اور ان کے ہاں ایسٹر پر چالیس روزے رکھے جاتے ہیں، یہودیت کو دیکھیں تو ان کے ہاں یوم کبور، اپنی شادی کے دن اور موسم خزاں کی آمد پر روزے رکھے جاتے ہیں، ہندومت میں چاند کے پورے ہونے پر، منگل کے دن اور بہت سے تہواروں پر روزہ رکھا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ روزہ، بدھ مت ہوں یا بہائی، سکھ ہوں یا جینی،  مشرقی اور مغربی، سب  میں ایک آفاقی مذہبی معمول رہا ہے۔ پارسی مذہب کے حوالہ سے کہاجاتا ھے کہ وہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں باقاعدہ روزہ نہیں ہے، لیکن بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ھو گا کہ وہ بھی سال میں ایک مہینہ کسی بھی قسم کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں، غالبایہ بھی روزے کی ایک شکل  ہے۔ ہر مذہب میں اس عمل کو کرنے کی وجوہات کبھی روحانی طہارت تو کبھی توبہ، کبھی سوگ تو کبھی قربانی، گناہوں کا کفارہ اور علم اور طاقت میں اضافہ کرنا شامل رہا ہے.

     دین اسلام میں یہ عبادت جامع اور مکمل حالت میں پائی جاتی ہے. یہ حکم مسلمان جماعت سےتقاضاکرتا ہےکہ قیام عدل کے نتیجے میں معاشرے سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بھوک جیسی بھیانک آفت کا خاتمہ کریں، تاکہ انسانیت کے لیے آپس میں باہمی تعاون اور تعلق مع اللہ کی راہ ہموار کی جا سکے.

     اللہ پاک ہم سب کو روزے سمیت تمام عبادات کا حقیقی شعور عطا فرمائے اور عبادات کے مطلوبہ نتائج سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے.  آمین .

    Share via Whatsapp