اصلی جمہوریت اور ہمارے مسائل
نظام جمہوریت دور جدید کا کامیاب طرز حکومت ہو سکتا ہے اگر اس کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جاۓ۔
اصلی جمہوریت اور ہمارے مساٸل
تحریر: طاہر شوکت، لاہور
جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے۔ سیاسی جمہوریت سے مراد ایسی حکومت کا قیام ہے جو باہمی مشاورت سے وسیع تر قومی و انسانی مفاد کے نظریے سے اپنے تمام امور سر انجام دے۔ اس طرز حکومت میں براہ راست عوام سے ہی نماٸندگان منتخب کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی مقصد مشاورت کے زریعے سے نظام حکومت کو بنانا اور چلانا ہے۔ اگر انبیا کرام کی مجموعی تعلیمات اور خصوصا قرآن پاک کے احکامات پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کرام کو بھی اجتماعی کاموں میں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی الله ﷻنے فرمایا "
وشاورھم فی الامر
یعنی اہم معاملات میں صحابہ رض سے مشورہ لیا کرو۔
اس لیے جب بھی ہم تاریخ کا مطالعہ اپنے سماجی و سیاسی مسائل کے حل کرنے کے نقطہ نظر سے کرتے ہیں تو انبیاکرام کی زندگیاں اور ان کے سیاسی اقدامات ہماری راہنمائی کرتے ہوے نظر آتے ہیں۔تاریخی حوالے سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ انبیا کرام کا عادلانہ طرز سیاست و حکومت ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانی سوسائٹی کے تمام مساٸل کو کلی طور پر حل کرنے کی صلاحيت رکھتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی کریمﷺ سماجی و معاشرتی اور سیاسی وحکومتی امور کو مشاورت کی بنیاد پر سر انجام دیا کرتے تھے۔ سیرت نبوی ﷺ میں باہمی مشاورت کا یہ اصول آٸندہ نسلوں کےلیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت بھی اسی اصول پر فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلے گا وہ کامیاب ہو گا
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ مشاورت کا یہ عمل ہی سیاست کا سنہری اصول ہے۔ جدید دور میں جو طرز حکومت سب سےمقبول اورراٸج ہے وہ جمہوریت ہے۔ مروجہ جمہوریت میں کئی نقائص کے باوجود اقوام مشرق و مغرب کی کئی کامیابیوں کاایک سبب جمہوری طرزحکومت و سیاست ہے۔
حقیقی جمہوریت تو مغرب میں آج تک رائج نہ ھوسکی لیکن مغربی یورپ میں اس لنگڑی لولی جمہوریت کی مقبوليت کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام کا یہ تاثر قائم ہےکہ وہ اپنے نمایندوں کے زریعے سے اور بسا اوقات براہ راست حکومت پر اثر انراز ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کی بنیاد پر نظام حکومت کی اولین شرط سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایات کی پابندی ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے بجائے کسی فرد ، خاندان اور گروہ کی آمریت ہو تو پھر اس کے برےاثرات معاشرے پر بھی پڑتے ہیں ۔ دوسری اہم چیز جو حقیقی جمہوریت کے لیے جزو لا ینفک ہے وہ آزادانہ رائے کی تشکیل کا عمل ہے۔ جب کسی معاشرے میں سماجی ، معاشی دباؤ موجود ہو تو رائے سازی کا یہ عمل انتہائی متاثر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں میڈیا کا بے دریغ استعمال رائے کے عمل کو متاثر کرنے کے ساتھ من پسند انتخابی نتائج میں کلیدی کردار ادا کر تا ہے۔
ہمارے ملک کے مساٸل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہاں حقیقی جمہوریت جو انبیا کا طرز حکومت تھا وہ کبھی بھی قائم نہیں کیا گیا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقیقی جمہوریت کا شعور عام کرنے کے ساتھ مروجہ جمہوریت کا درست تجزیہ بھی کریں اور وقت کا تقاضا ہے کہ تمام جہموریت پسند افراد معاشرے میں حقیقی جمہوریت جو کہ دھونس، دھاندلی، برادری، فرقہ ، سرمایہ سب کے مضر اثرات سے آزاد ہوتی ہے اس کے قیام کے لیے کوشش کریں۔