نظریہ ضرورت اور جدید نوآبادتی حکمت عملی
پاکستانی سیاسی ادارے آج بھی نوآبادیاتی ذہنیت کے تحت چل رہے ہیں، جہاں اشرافیہ "نظریۂ ضرورت" کے ذریعے اقتدار برقرار رکھتی ہے۔

نظریہ ضرورت اور جدید نوآبادتی حکمت عملی
تحریر: ڈاکٹر ممتازخان بلوچ، جرمنی
پاکستان میں مقتدرہ کی حکمرانی کی ذہنیت درحقیقت نوآبادیاتی دور سے جڑی ہوئی ہے، جہاں قانون کو طاقت کے ذریعے نافذ کیا جاتا تھا۔محکمہ پولیس، زمین و محصول کے محکمے،بیوروکریسی اور فوج جیسے ادارے مقامی لوگوں کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے منظم کیے گئے۔مقامی زرعی اجناس اور معدنی وسائل کو بیرونی منڈیوں میں منتقل کیا گیا،جس کی وَجہ سے مقامی آبادی کو ان وسائل سے فائدہ نہیں پہنچا۔ان اداروں کی اس انداز میں تنظیم پہلے بنگال میں ہوئی اور پھر پورے برصغیر میں اسے پھیلادیا گیا۔اگرچہ حملہ آور بہ ظاہر واپس چلے گئے، لیکن وہ یہاں ایک مخصوص سیاسی ذہنیت چھوڑ گئے، جس نے مقامی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کیا۔یہی اشرافیہ آج بھی سیاسی اداروں میں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔اس طرح، پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام نوآبادیاتی حکمرانی کا چوتھا مرحلہ ہے۔
نوآبادیاتی حکمرانی کے چار مراحل درج ذیل ہیں۔
• پہلا مرحلہ 1857 کی جنگِ آزادی پر ختم ہوا۔
• دوسرا مرحلہ ریشمی رومال تحریک کے بعد ختم ہوا۔
• تیسرا مرحلہ 1947 میں برطانوی راج کے اختتام پر مکمل ہوا۔
• چوتھا مرحلہ آج بھی پاکستان میں جاری ہے،جہاں اشرافیہ بغیر کسی سماجی اصول کے ریاست چلا رہی ہے، جسے "نظریۂ ضرورت" کا نام دیا گیا ہے۔
"نظریۂ ضرورت" ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہر غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی سرگرمی کو جواز فراہم کرتی ہے۔یہ صرف مارشل لا نافذ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا، بلکہ مالیاتی این آر او اور وہ تمام قوانین جن کا مقصد دولت مند طبقے کو مزید فائدہ پہنچانا ہے،وہ اسی نظریے کے تحت بنائے جاتے ہیں۔موجودہ ریاستی نظام عوام کو سہولت پہنچانے کے بجائے عام آدمی کو اَذیت دیتا ہے۔جب کسی عام شہری کا کسی سرکاری محکمے جیسے محصول، پولیس، عدالت یا ہسپتال سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کے لیے بے شمار پیچیدگیاں پیدا کی جاتی ہیں۔مثلاً والدین کی جائیداد کی منتقلی کے لیے کئی مراحل درکار ہوتے ہیں:
• ہسپتال سے موت کا سرٹیفکیٹ
• یونین کونسل سے موت کی تصدیق
• کمپیوٹرائزڈ منتقلی فارم
• پٹواری، نمبر دار، قانون گو اور تحصیل دار سے تصدیق
دوبارہ تحصیل دفتر میں تصدیق یہ عمل اگرچہ ایک ہفتے میں مکمل ہوسکتا ہے،لیکن حقیقت میں اس میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، کیوں کہ دفتری نظام کا مقصد عوام کو سہولت دینا نہیں ہے۔جب کہ انتظامیہ بھی کرپشن زدہ ہے۔
ہمارے موجودہ مسائل کی جڑیں گزشتہ تین سو سالہ دور غلامی میں پیوستہ ہیں، جب دنیا زرعی و دست کاری کے دور سے نکل کر بڑی مشینی صنعت کی طرف گامزن ہوئی۔یورپی اقوام نے اس دوران طاقت اور دولت کے لیے جنگیں لڑیں،جب کہ مشرقی اقوام نے آزادی اور وقار کے لیے جدوجہد کی۔
مغلیہ سلطنت اور چنگ خاندان 17ویں اور 18ویں صدی میں دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں۔دونوں کی معیشت زرعی اور دست کاری پر مبنی تھی اور اس وقت ان کا عالمی جی ڈی پی میں حصہ بالترتیب 25 فی صد اور 30 فی صد تھا۔دونوں سلطنتوں کو بیرونی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔مغلیہ سلطنت کو فرانس اور برطانیہ نے کمزور کیا،جب کہ چنگ سلطنت پر فرانس، برطانیہ، جاپان، روس اور جرمنی نے حملے کیے۔دونوں سلطنتوں میں عیسائیت کو سامراجی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، تاکہ علاقائی اتحاد کو توڑا جا سکے۔مغلیہ سلطنت کو مرہٹہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ چنگ سلطنت کو کئی بغاوتوں نے کمزور کیا۔دونوں سلطنتوں میں مقامی افواج نے بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی۔مغلیہ سلطنت میں ریشمی رومال تحریک، جب کہ چنگ سلطنت میں باکسر بغاوت اس کا ثبوت ہیں۔
کسی قوم کو آزاد اور خودمختار بنانے کے لیے مستقل کوشش درکار ہوتی ہے۔آزادی کے لیے عزم سب سے پہلا قدم ہوتا ہے،جس کے بعد دشمن قوموں کی جانب سے آزمائش آتی ہے۔جو قومیں ان آزمائشوں پر قابو پا لیتی ہیں، وہ بالآخر ایک ایسی طاقت بن جاتی ہیں، جس کی دنیا عزت کرتی ہے۔اس سفر میں سیاسی و سفارتی حکمتِ عملی اور جدید ٹیکنالوجی کی ترقی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان کی موجودہ اشرافیہ،چاہے وہ سیاسی پارٹیاں ہوں،ریاستی ادارے ہوں یا مغرب سے متاثرہ سول سوسائٹی کے راہ نما، سب کی سوچ یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ مغرب کے تابع رہنا ہے، کیوں کہ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔یہی نظریہ 1900ء کی دہائی میں چین نے بھی اپنایا تھا، جب وہ مغربی ٹیکنالوجی کو درآمد کر کے ترقی کرنا چاہتے تھے۔تاہم بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ یہ حکمتِ عملی ناکام ہو رہی ہے،لہٰذا انھوں نے خودانحصاری کا راستہ اپنایا۔کمیونسٹ پارٹی نے ایک مضبوط سیاسی عزم اور ادارہ جاتی مدد کے ذریعے چین کو ایک صنعتی اور خودمختار طاقت میں تبدیل کیا۔پاکستان کو بھی اسی خودانحصاری کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ہمیں اپنی ٹیکنالوجی خود تیار کرنی ہوگی،اپنے سیاسی اور اقتصادی ادارے مضبوط کرنے ہوں گے اور بیرونی طاقتوں کی محتاجی سے باہر نکلنا ہوگا۔یہی راستہ ہماری خودمختاری اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے۔