کرکٹ کے عالمی مقابلے اور نفرت کا کھیل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کرکٹ کے عالمی مقابلے اور نفرت کا کھیل

    کرکٹ کے عالمی مقابلوں کے دوران ہماری قوم کے غیر ذمہ دارانہ اور جذباتیت پر مبنی رویوں کا تجزیہ

    By توصیف افتخار Published on Aug 17, 2019 Views 1713

    کرکٹ کے عالمی مقابلے اور نفرت کا کھیل

    تحریر: توصیف افتخار، لاہور

    اگر کسی قوم کو نظریاتی طور پر مفلوج کر دیا جائے تو اسے غلط و درست، دوست و دشمن کی پہچان بھی نہیں رہتی۔ ایسی حالت میں مفاد پرست عناصر جس طرف چاہیں اسے ہانک دیتے ہیں۔ ایسی قوم اجتماعی گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے اور یقینا اجتماعی گناہ ہی دنیا کی رسوائی و ذلت اور آخرت کے عذاب الیم کا سبب بنتے ہیں۔

    اب اگر ہم اپنی قومی حالت کا تجزیہ کریں تو یہ اندوہناک حقیقت انتہائی کرب کے ساتھ بیان کرنا پڑتی ہے کہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہمارا شمارایسی ہی قوم میں ہوتا ہے جو دنیا میں تمسخروتنفر، ذلت و رسوائی کا نشانہ بن چکی ہو۔ اورصد افسوس یہ کہ ہمیں احساس زیاں بھی نہیں۔ حالیہ کرکٹ کے عالمی مقابلہ میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ اور یہ جگ ہنسائی کسی شکست کی وجہ سے نہیں ہوئی کیونکہ فتح و شکست تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس رویہ کی وجہ سے جو بحیثیت قوم ہم نے اپنایا۔

    کھیل ہمیشہ سے امن کا موثر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں مگر ہماری قوم نے اسے نفرت پھیلانے کا سبب بنا لیا۔  اس عالمی مقابلہ میں ہماری ٹیم تو ہاری ہی ہے مگر ہماری قومی ذہنی بالیدگی کا بھی جنازہ اٹھا ہے۔ سوشل میڈیا پرکچھ سنجیدگی اور کچھ مزاح کے انداز میں پھیلایا جانے والاگند ہماری فکری پراگندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کبھی اپنی ٹیم کو کوسنے دینے میں محلے کی پھاپھے کٹنیوں سے دو ہاتھ آگے نکل جانا تو کبھی دوسری ٹیموں سے امید کے بے جا  بندھن باندھنا۔ پھر بات صرف یہاں نہیں رکتی بلکہ خلاف امید واقعات پر نفرت انگیز ہرزاسرائیاں جو کہ ایک وضع دار وخوددار قوم کے کسی طرح شایان شان نہیں۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ یہ سب طعن و تشنیع اپنے ہمسایوں سے روا رکھی جائے۔ درحقیقت ہمارے تمام طرز عمل کے پیچھے ہماری نظریاتی کج روی اور اس سے پیدا ہونے والی ذہنی پراگندگی کارفرما ہے۔  

    انگریز کی غلامی اور موسمی رہنماوں کی کرم فرمائی سے ہمارے ذہن میں ہمارا اپنا تشخص ہی دھندلا چکا ہے۔ کبھی مذہب کی چادر اوڑھ کر ہم جذباتیت کے سیلاب میں انتہا پسندی کی پستیوں میں بہہ جاتے ہیں اور کبھی لبرل ازم کا لبادہ پہن کر ذہنی انتشار کی آندھیوں میں بے راہ روی کی سنگلاخ چٹانوں سے سر پٹکتے پھرتے ہیں ۔ ایک طرف ہم اپنی نسلوں کو مطالعہ پاکستان کے ذریعے یہ باور کرواتے رہے کہ مذہب قومیت کی بنیاد ہے  مگر بنگلادیش کا الگ قوم کے طور پر وجود میں آنااور پھر افغانستان کا انڈیا سے علاقائی تعلق بانسبت پاکستان کے زیادہ مضبوط ہونا، دو قومی نظریہ کو ہوا میں تحلیل کر دیتا ہے اور یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ صرف ایک مخصوص مقصد کے لئے اسلام کے نام پر گھڑا گیا۔لیکن ہم چہ جائے کہ اس بین حقیقت کو تسلیم کریں دور از کار، لایعنی تاویلات گھڑتے ہیں یہ نہ ہوتا تو یوں ہو جاتا  کی پیچیدگیوں میں غلطاں رہتے ہیں۔ گوکہ اس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہم نے مذہب کے نام پر نفرت کرنا سیکھ لیا۔ مذہب کے نام پر اندھی جذباتیت ہمارا شعار بن گئی۔ پھر اسی تسلسل میں مذہب کا بہیمانہ استعمال نظریہ جہاد کے نام پر کیا گیا۔ اور اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کو سامراجی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہندو ہم سے نفرت کرتا ہے کیوں کہ ہم نے بھی باہم نفرت کی دیوار بلند کی۔ اپنا ہم مذہب افغانستان ہم سے نفرت کرتا ہے کیوں کہ ہم نے سامراجی آلہ کاری کرتے ہوئے اس کی آزادی و حریت کا سودا کیا۔

    یہ ہمارے علماء اور رہنماوں کا وہ کردار ہے جس نے آج کی نسل کو لبرل بنا دیا۔ وہ نام کی تو مسلم ہے مگر اسلام سے اتنا ہی دور جتنا بین سے بھینس۔ اسے بچپن سے نصاب ایسا پڑھایا جاتا ہے کہ وہ بے شعور و جزباتی لبرل بن جاتا ہے۔ اور اس بے شعوری کا نتیجہ کہ آج بھی سامراجی جماعتیں آسانی سے اس نسل کو آلہ کار بنا سکتی ہیں۔  اس آلہ کاری کا مظاہرہ کرکٹ کے عالمی کھیل کے موقع پر سوشل میڈیا پر ہوا۔ عالمی سامراج نے دو ہمسائیوں کو لڑانے کے لیے ایک چال چلی خاص طور پر جب دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جاری تھی۔ سوشل میڈیا پر اپنے ہم مذہب قوم کے خلاف وہ اخلاق سوز مواد شئیر کیا گیا کہ کسی طور ایک باعزت قوم کے لیے جائز نہ تھا۔ دو قومی نظریہ کی ہی لاج رکھ لیتے جو ساری زندگی پڑھتے آئے ۔ مگر نہیں ، وہ تو صرف اپنے دوسرے ہمسائے ہندو سے نفرت کرنے کے لیے ہے ۔ اپنی ہم مذہب قوم سے محبت کا معاملہ تو اس میں شامل نہیں۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ دو قومی نظریہ بھی جذباتیت کے ساتھ ہماری رگ و پے میں دوڑایا گیا ہے۔ اس کا شعوری تجزیہ آج تک نہیں کیا اور اسے عین اسلام سمجھتے ہیں جس کا دور دور تک اسلام سے قوی واسطہ نہیں۔

    ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ایک طرف تقسیم ہند کے وقت جس ملک نے ہمارے شانہ بشانہ جدوجہد کی، لیکن جب اس نے اپنی سیاسی غلطی کو سمجھا اور مذہب کا نام پر قومیت کے نظریہ ترک کرتے ہوئے جغرافیائی بنیادوں پر اپنا تشخص قائم کیا، ہم نے اس قوم کو غدار کہا اور آج بھی کھیل کے میدان میں ایک مخصوص ذہن کی طرف سے اسی نعرہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دوسری طرف مغربی پاکستان میں مفاد پرست ٹولے کا قبضہ رہا جس نے اسی تنگ نظری پر مبنی سیاسی مذہبی نظریہ کا سمع خراش راگ آلاپتے ہوئے افغانستان کوتباہی کے جہنم میں جھونک دیا۔ ہم نے افغانیوں کی نسلوں کو برباد کر دیا اور وہ اپنے وطن کو ترک کرکے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے لیکن ان کی نسلیں اپنی بربادی کا ذمہ دار پاکستان کو ہی گردانتی ہیں۔ اب انگلستان میں ہونے والے پاک افعان میچ کے دوران سٹیڈیم کے اندر اور باہر تماشائیوں کے باہمی تنازعات کے جو بھی محرکات رہے ہوں لیکن ہم نے افغانیوں کو برا بھلا کہتے ہوئے غدار قرار دیا۔تیسری طرف ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات رسمی ہیں اور اکثر بین الاقوامی سامراجی دباؤ کے تحت سرد مہری کا شکار رہتے ہیں۔ اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ ھمارے تمام ہمسائے یا تو غلط ہیں یا پھر ہم کچھ غلط راہ پر گامزن ہیں۔

    پاکستان کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کے لیے آج پاکستان کے سامراجی دشمن کو کسی بیرونی قوت کی ضرورت نہیں۔ قومی شعور سے ایسا ناواقف بنا دیا کہ ہم خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے لیے کافی ہیں۔ یہاں کا فرسودہ ،انفرادیت، فرقہ واریت، نسلی اور علاقائی تعصبات پر مبنی نظام ہی وہ کلہاڑی ہے جو بے شعور عوام مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی نظریاتی درستگی چاہتے ہیں اور دنیا میں ایک متوازن قوم کے طور پر اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو اس فرنگی نظام کہن، موسمی رہنماوں اور مفاد پرست علماء سے برات کا اعلان کرنا ہو گا نہ صرف اعلان بلکہ تاریخ کے دھندلکے میں جھانکنا ہو گا اور سچے نظریے اور علماء حق کو پہچاننا ہو گا۔

    Share via Whatsapp