احترام انسانیت پراستوار نظام کےاثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • احترام انسانیت پراستوار نظام کےاثرات

    طاقت اور جبر سے طویل عرصے تک حکمرانی ممکن نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انصاف، مساوات، اور حکمت پر مبنی حکمرانی ہی عوام کی ترجمانی کرتی ہے

    By MUHAMMAD NISAR Published on Jan 01, 2025 Views 223

    احترام انسانیت پراستوار نظام کےاثرات

     

    تحریر: نثارخان۔ بنوں 

     

    صرف لاٹھی سے ملک نہیں چلتے، یہ ایک مشہور کہاوت ہے جو اپنے اندر گہری حکمت سموئے ہوئے ہے۔ یہ کہاوت اس طرزِحکمرانی کی مذمت کرتی ہے جو زبردستی، جبر اور طاقت کے ذریعے عوام کو دَبانے کی کوشش کرتا ہے۔انسانی معاشرہ محبت، عدل و انصاف اور مساوات کی بنیاد پر پنپتا اور ترقی کرتا ہے، نہ کہ جبر اور خوف کے ذریعےسے۔ اس حقیقت کو ہم ایک مثال اور تاریخی حوالے سے سمجھ سکتے ہیں۔

     

    فزکس کا ایک اصول ہے، جس کے مطابق ہر شے کی ایک خاص لچک ہوتی ہے،جسے ہم "الاسٹیسٹی" کہتے ہیں کہ کسی بھی مادے کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور جب اس پر اس حد سے زیادہ دَباؤ ڈالا جائے تو وہ اپنی ساخت کھو کر ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طرح انسانی سماج میں عوام کی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جب یہ حد پار کی جاتی ہے تو دو ممکنہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ 

     

    اگر معاشرے میں کوئی صالح قیادت یا نظریہ عدل پر کوئی منظم تنظیم موجود ہو،تو عوام کی قوت ہمہ گیر تبدیلی کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ علمِ سیاست کے تناظر میں ‘عوام’ سماج کی جیتی جاگتی قوت ہے،لیکن اگر عوام میں شعور کی کمی ہو یا حقیقی قومی قیادت کا فقدان ہو، تو سماج لاقانونیت، جبر اور انتشار کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔بعض افراد تشددپسندی کاشکار بھی ہوسکتے ہیں،اس صورتِ حال کا فائدہ ہمیشہ وطن دشمن بدیسی قوتیں یا ظالم حکمران سمیٹتا ہے۔

     

    تاریخ میں اس اصول کی کئی روشن مثالیں موجود ہیں۔فرعون کی حکمرانی کا واقعہ اس سلسلے میں ایک قابلِ ذکر مثال ہے۔فرعون نے بنو اسرائیل کو ظلم، جبر اور طاقت کے ذریعے غلام بنا رکھا تھا۔اس قدر خوف اور جبر تھا کہ جب فرعون کے درباریوں کو یہ خبر ملی کہ بنو اسرائیل میں ایک ایسا راہ نما پیدا ہونے والا ہے جو انھیں غلامی سے نجات دِلائے گا تو پورے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا گیا،اللہ کی خاص تدبیر سےحضرت موسی علیہ السلام محفوظ رہے جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قوم کے راہ نما کے طور پر سامنے آئے،بنی اسرائیل نے فرعون کے ہر ظلم کے خلاف بغاوت کی اور وہاں سے ہجرت کرکے آزادی حاصل کی۔

     

    اسی طرح کی ایک مثال ہمیں رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی میں نظر آتی ہے۔مکہ کی سوسائٹی میں ابوجہل اور اس کا دارالندوہ ظلم و استبداد کی علامت تھے۔وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کرتے رہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے صبر، حکمت اور جدوجہد کے ذریعے ظلم کا مقابلہ کیا۔آپ ﷺ کی جدوجہد اور تعلیمات نے نہ صرف ظلم کی زنجیریں توڑیں، بلکہ مکہ کے لوگوں کے دلوں میں انصاف اور انسانی برابری کے بیج بو دیے۔

     

     مدینہ والوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی اور آپﷺ نے اس سرزمین پر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی۔یہ ریاست انصاف،مساوات، اور بھائی چارے کی علامت بن گئی۔جنگ بدر میں اس نظریے کی پہلی بڑی کامیابی دیکھنے کو ملی، جہاں مسلمانوں کی تعداد محض 313 تھی، جب کہ کفارِ مکہ کی فوج ہزار سے زیادہ تھی،لیکن وہ فوج جو صرف خوف کے سہارے کھڑی تھی، مسلمانوں کے اتحاد اور جذبے کے سامنے شرمناک شکست سے دوچار ہوئی اور ان کے نصف سے زیادہ سپاہی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔فتح مکہ کا واقعہ ایک اور عظیم مثال ہے، جہاں بغیر کسی جنگ اور تشدد کے مسلمانوں نے مکہ کو فتح کیا۔یہ فتح نہ صرف ان کی حکمت عملی، نظم و ضبط کی اعلیٰ تربیت اور اخلاقی برتری کا مظہر تھی، بلکہ اس نے ثابت کیا کہ طاقت اور جبر کے بجائے محبت، عدل اور اصولوں کے ذریعے ایک مضبوط معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں نے اس دنیا میں ہزار سال تک عدل و مساوات کے ساتھ تمام اقوام کو سماجی ترقی کا راستہ مہیا کیا۔

     

    تاریخ میں اس کی ایک اور مثال برعظیم ہندوستان سے ملتی ہے۔انگریزوں نے یہاں ظلم و جبر کی انتہا کردی۔کروڑوں لوگوں کو بھوک، قحط اور گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا، لاکھوں بے گناہوں کو جیلوں میں ڈال کر ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے، لیکن انگریز اپنے ظلم کے باوجود یہاں زیادہ عرصہ حکومت نہ کرسکے اور بالآخر انھیں یہ خطہ چھوڑ کر جانا پڑا۔اس کے برعکس مغل سلطنت کی تاریخ کو دیکھیں تو ان کی حکومت انصاف، مساوات، رواداری اور بھائی چارے پر مبنی تھی، جس کی وَجہ سے انھوں نے برصغیر پر صدیوں تک حکومت کی۔ مغل حکمران عوام کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ یہی وَجہ ہے کہ ان کی سلطنت ایک مضبوط اور دیرپا بنیاد پر قائم رہی۔ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلم اور جبر کی بنیاد پر عوام پر زیادہ دیر تک حکمرانی نہیں کی جاسکتی۔

     

    آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 75 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے،لیکن بدقسمتی سے یہاں کے عوام اَب بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔اس ملک کے حکمران، مذہبی درباری علما،سول اور ملٹری بیوروکریسی، عالمی سامراجی قوتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام اور ملک کی دولت کو بےدریغ لوٹ رہی ہیں۔عوام پر ناقابل برداشت ٹیکسز، بدامنی،مہنگائی اور جابرانہ قوانین کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جو ان کی زندگی کو مزید مشکلات کا شکار بنا رہا ہے۔یہاں نافذ قوانین کی حالت اس مکڑی کے جالے جیسی ہے، جو صرف کمزور عوام کو جکڑنے کے لیے بنایا گیا ہے، جب کہ طاقت ور افراد ان قوانین کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے باآسانی بچ نکلتے ہیں۔ یہ قوانین، جو کبھی انگریز نے اپنے سامراجی مفادات کے لیے بنائے تھے، اَب طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان ٹیکسز کے ذریعے عوام کی زندگی نہ صرف اذیت ناک بن چکی ہے، بلکہ ان کی محنت کی کمائی کو بھی ہڑپ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف، یہی حکمران اور اشرافیہ قومی دولت کو بیرونِ ملک منتقل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس استحصالی نظام کو مزید مضبوط کر کے اپنی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

     

    یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عوام میں شعور پیدا کرکے، حکمت اور شعوری بنیادوں پر سماجی تبدیلی کی جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ عوام کے اندر موجود غصے اور بے چینی کو صرف وقتی جذبات، احتجاج یا وقتی اقدامات تک محدود رکھنے کے بجائےصحیح سمت دے کر ایک اجتماعی متحد قوت میں تبدیل کرکے ایک مضبوط اور پائیدار سماجی تبدیلی کی بنیاد بنایا جائے۔ یہ تبدیلی محض جذباتی ردِعمل کے بجائے سوچ سمجھ کر اور منظم حکمتِ عملی کے تحت عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

    ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ ٹرسٹ لاہور اس سلسلے میں قوم کے نوجوانوں کی ذہنی اور عملی تربیت میں مصروف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ادارے سے اپنا تعلق جوڑیں اور اپنی ہمتیں اور قوتیں اس کےطے کردہ اصولوں اور حکمت عملی کے مطابق اس میں صرف کریں۔

     

    Share via Whatsapp