عدم استحکام کے ایجنڈے پر کاربند ہمارے نظام کا اصل چہرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عدم استحکام کے ایجنڈے پر کاربند ہمارے نظام کا اصل چہرہ

    وطن عزیز میں اشرافیہ قومی سوچ سے عاری خود کو پاکستان کا ہمدرد ہی تصور نہیں کرتی،ملکی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہوئے وسائل کو بے رحمی سے لوٹتی رہتی ہے ۔۔۔۔

    By خالد محمد ایمان Published on Dec 28, 2024 Views 192

    عدم استحکام کے ایجنڈے پر کاربند ہمارے نظام کا اصل چہرہ

    تحریر :خالد محمد ایمان (بنوں)

     

    ہمارا وطنِ عزیز تمام تر انسان دوست موسموں و قدرتی وسائل اور یہاں کے باشندے تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں،  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر گہرا کہا جارہا ہے کہ ہمارے باشندوں کا بنیادی طور پر ملک کے ساتھ وفاداری یا دِلی لگاؤ کا جذبہ ہی مفقود ہے، کیوں کہ کوئی پاکستانی شہری خود کو دل کی گہرائیوں سے پاکستان کا ہمدرد ہی تصور نہیں کرتا، جیسے ہم سب یہاں عارضی مسافر ہوں اور موقع ملتے ہی یہاں سےاڑنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔اس لیے حقیقی طور پر جس کا جتنا بس چلا اتنا ہی ملکی نعمتوں کی ناقدری و ناشکری کرتے ہوئے ان کے وسائل کوایسے لوٹا کہ کوئی ترس تک نہ کھایا اور نہ ہی آنے والے نسلوں کی خیرخواہی کا سوچا۔

     

    اس کی وَجہ یہ ہے کہ آج تک اس سسٹم پر قابض طبقے کی قومی سوچ یا نظریہ ہی نہیں ہے۔ اس کی وفاداری طاقت کے ساتھ ہے، اقدار و روایات نظریہ و فکر تاریخ و جغرافیہ سے اس کا واسطہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے نہ تو معاشرے کے لیے اچھے اخلاق کا حامل بنا،بلکہ اس کے علی الرغم ملکی وسائل کے بندر بانٹ میں شریک بنا ہے۔ اور نہ ہی کسی مقتدرہ حلقوں نے ملکی وسائل کو محفوظ و درست طریقے سے استعمال کے لیے کوئی پائیدار طریقہ کار وضع کیا، نہ ہی آئین و قانون کو یقینی طور پر انسان دوست بنانے کے لیے جدوجہد کی جو حکومت بھی بنی، خودغرضی پر مبنی اور وقتی طاقت و قوت کا شوشہ چھوڑا۔ 

    تاریخی حوالے سے ہر معاشرہ ایک فلسفہ و نظریہ زندگی، معاشی اور سیاسی نظام کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا رہتا ہے۔

    اسی طرح ملکی نظام کا بہ غور جائزہ لیتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ برطانوی حکومت کے مقاصد "لڑاؤ اور حکومت کرو" کے پس منظر میں پروان چڑھےہیں، یعنی ہمارے ملک کا نظریہ دشمنی یا نفرت پر مبنی ہے اور اس نفرت کی جڑیں رفتہ رفتہ ہمارے آپس کے قومی رشتوں کو کمزور کرنے لگے ہیں۔ 

    ضرورت ہے کہ ہم قومی سوچ کو پروان چڑھائیں۔ تعلیمی نظام کے ذریعے جو سوچ ہم اپنی نسلوں تک منتقل کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ ہی قوم کے اندر حب الوطنی پیدا کرتی ہے اور نہ اس میں محنت جدوجہد قومی سوچ وترقی کے لیے کوئی واضح پروگرام موجود ہے، جس کے ثمرات ہماری نوجوان نسل کی غیر سنجیدگی، غیر ترقی یافتہ اور غیر تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے روپ میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

     

    معاشرے کا دوسرا بنیادی ستون ہمارا معاشی نظام جو لوٹ کھسوٹ اور سودی نظام پر مبنی ہے، جس کے بھیانک اثرات ہمارے معاشرے میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ سرمایہ پرستانہ معاشی نظام کے اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم ہر سال اپنے ملک کے بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ صرف سود کی اور قرض اُتارنے کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ اَب تو حکومتی عہدے داروں نے برملا طور پر کہا ہے کہ ہم صرف پچھلے آئی ایم ایف کے قرضوں کے سود اور قرض اتارنے کے لیے مزید قرضے لے رہے ہیں جو اَب کوئی دینے کے لیے تیار نہیں اور ریجنل طاقتوں کے درمیان رسوائی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا بینکنگ سسٹم عوام کی لوٹ کھسوٹ کے فارمولے کے تحت ایک خطرناک اندازے تک منافع کما رہاہے۔ عوام کو مختلف حیلے بہانوں سے لوٹا جاتا ہے۔ 

    اس لیے انفرادیت سے لے کر اجتماعیت تک سب سرمایہ پرستی کے ظالمانہ معاشی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہی برطانوی عہد کا عطا کردہ عالمی نظام ہے۔اس نظام کا نمائندہ ایڈم سمتھ خود معاشی اصولوں میں لکھتا ہے کہ اپنے ایک روپے کے فائدے کے لیے دوسرے کے دس روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔اب ان کے اَثرات کا ہم اپنے معاشرے میں آئے روز میڈیا کی خبروں میں سنتے دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ باپ نے بیٹے، بیٹے نے باپ کو،بھائی نے بھائی کو، ماں نے بچوں کو، والد نے بیوی بچوں کو معاشی وسائل نہ ہونے کی وَجہ سے مار ڈالا۔ 

     

    اسی طرح معاشرے کا تیسرے ستون ہمارے سیاسی نظام کا بہ غور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کی مقتدرہ کی سرپرستی میں سیاسی قوتیں غیرملکی مفاد کا ایجنڈا لے کر نمودار ہوتی ہیں اور ملکی و قومی مفادات کے بجائے بیرونی آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کردار ادا کرتے ہیں۔ بہ قول ملکی سیاست دانوں کے کہ سیاست میں کوئی حرفِ آخر نہیں ہوتا، کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ سیاست کا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہوا کرتا، جس نے جتنا ذاتی و گروہی مفادات کو ملکی مفاد پر ترجیح دی اتنا ہی وہ قابل سیاست دان ہے۔ ہمارا یہ سیاسی نظام جس کے مطابق ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریت پر مبنی ملکی سیاسی نظام کے نتائج جھوٹ،فریب اور دھوکہ دہی کی شکل میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ملک خدادا کا اکثریتی طبقہ سیاست کا مطلب جھوٹ،فریب، حقوق سلب کرنا اور دھوکہ دہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ملک کی انتظامی، عدالتی اور مقننہ کی بدترین عملی مثالیں روز بروز بڑھتی رہتی ہیں اور مجموعی طور پر ملک کے حالات زوال و پستی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ اسی طرح مروجہ پاکستانی میڈیا کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے آج میڈیا کا کردار زردصحافت پر مبنی سنسنی پھیلانے سمیت بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے نان ایشوز پر روزانہ عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔جب کہ نان ایشوز تو روزانہ بدلتے رہتے ہیں۔ تاکہ کسی کو اصل مسائل کا ادراک نہ ہو اور یہ لوٹ کھسوٹ کا فرینڈلی سلسلہ جاری و ساری رہے۔ چوں کہ ہمارا پاکستانی میڈیا یورپی میڈیا کارپوریشنز کے ذیلی اداروں کے ساتھ منسلک ہے لہذا ہمارا ملکی میڈیا یورپی مفاد کے ایجنڈا کو پورا کرنے کے لیے دن رات تابعداری کے ساتھ میسر رہتا ہے۔

    مختصراً یہاں ترقی یافتہ و منافع بخش ادارے کی تنزلی و نقصان اسی فرسودہ سسٹم کی وَجہ سے ہے،جس میں مایوس اور گمراہ کن پروپیگنڈا کابڑا بنیادی کردار ہے ۔

     

    وطنِ عزیز پاکستان کا کوئی سرکاری محکمہ ہو یا سرکاری ائیرلائن، یہاں جو آیا اس نے نہ صرف لُوٹا، بلکہ یہ یقینی بنایا کہ محنت کااستحصال جاری رہے۔چاہےوہ پاکستان کی زبردست انٹرنیشنل ائیرلائن ہو، جس نے امارات، قطر اور جانے کون کون سے ممالک کی ائیرلائنز کو پرواز سکھائی، وہ ائیرلائن کہ جس کے ساتھ جملہ.Great People To Fly With بھی سستا جملہ لگتا تھا...آج وہ ادارہ قرضوں، نقصان اور خراب جہازوں کے نام سے مشہور ہے، وَجہ یہ ہےکہ

    کل جہازوں کی تعداد 29

    کل ملازمین 14 ہزار 500

    ہر ایک جہاز کو 500 ملازم ملے ہوئےہیں

    سالانہ صرف تنخواہ 24 ارب 80 کروڑروپے

    اب یہ دیکھو اور پڑھو...

    امارات ائیر لائن کے کل جہاز 255

    ملازمین کی تعداد 59 ہزار 519

     ہر جہاز کو 233 ملازمین ملے۔ 

    اَب اندازہ لگاؤ کہ دنیا کی ٹاپ ائیرلائن کے ملازمین کتنے اور ہماری ائیرلائن کے ملازمین کتنے ہیں۔ 

    پھر مستزاد یہ کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے پائلٹوں کے لائیسنس جعلی نکلے، جس کی وجہ سےپوری دنیا میں بدنامی ہوئی ۔

     

    ہم نے اپنے ہی چمن کو اجاڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے، اجاڑو... اجاڑتے جاؤ۔

    غرض یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا ہر منافع بخش اور وسائل سے بھرپور ادارے کو کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور اقرباپروری کا شکار بنا کر کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جاتا ہے۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو انھیں سیاست دانوں کی ملی بھگت سے ان کے قریبی رشتے داروں یا پارٹی ورکرز و امیدواروں میں تقسیم کی گئی ہے۔اور یہ نہ رکنے والا ایک سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔اس کی ایک اور مثال آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی شکل میں سامنے آیا ہے کہ ہر ایک پارٹی و مقتدرہ طاقتوں کے کارندوں نے ملکی وسائل لوٹنے میں جو اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ مہنگے داموں معاہدوں کے علاوہ وہ بجلی مہیا کریں یا نہ کریں انھیں یہ قرضوں پر پلنے والا ملکی نظام اسے اربوں روپوں کی ادائیگیاں ضرور کرے گی۔ نیپرا کیس کی پیشی میں یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہےکہ 2.1 کھرب روپے موجودہ سال آئی پی پیز کو ادائیگی ہو چکی ہے۔ تاہم آئندہ سال یہ 33 فی صد کے اضافے کے ساتھ 2.8 کھرب روپے ادائیگی کرنی ہوگی،جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق فیڈرل منسٹر برائے توانائی گوہر اعجاز کے مطابق چار آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کئے 150 ارب روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ اَب ایسے معاہدوں کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔جب کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ ملکی خزانے کو بے دردی سے مل بانٹ کر کھانے میں مشغول ہیں۔ اسی طرح دیگر بلا محنت و مشقت منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ نیلام کرنے کی پوری کوششیں تا حال جاری ہیں۔ 

     ایسے میں ملکی نوجوان کو قومی مسائل کے حل پر ضرور متوجہ ہوناچاہیے۔ بہ صورتِ دیگر یہ سسٹم خون کے آخری قطرے کے نچوڑ پر ادھار کھائے بیٹھا ہے ۔

     

    Share via Whatsapp