مذہب کی سامراجی تشریحات اور الحاد - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مذہب کی سامراجی تشریحات اور الحاد

    مذہب کا مقصد تو انسانی معاشرے کو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب،سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق دِلانا ہے،لیکن۔۔۔۔۔۔

    By محمد علی Published on Dec 03, 2024 Views 205

    مذہب کی سامراجی تشریحات اور الحاد

    تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان 

     

    مذہب کا مقصد تو انسانی معاشرے کو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب،سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق دِلانا ہے،لیکن ہر دور میں مذہب کی غلط تشریحات اور اسے سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے موجود رہے ہیں۔مذہب چوں کہ انسان کا بہت ہی حساس پہلو تھا۔ لہٰذا موجودہ و سابقہ میکاولیوں نے اسے اپنے مفادات و عزائم حاصل کرنے کا ایک ٹول بنا دیا،اور عام آدمی کو یہ باور کروایا کہ ان پر آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کا نتیجہ ہیں، انھیں توبہ و استغفار کرنا چاہیے،ساتھ ہی ان کی زندگی میں ہونے والے استحصال کو قبولیت بخشنے کے لیے یہ میٹھی گولی دی گئی کہ آخرت کی زندگی بہت حسین اور راحتوں بھری ہے،میں بہ طور مسلمان آخرت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ لیکن سورہ بقرہ آیت نمبر 201 میں آنے والی اُس دعا(ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ...)کا کیا مطلب ہے؟؟...……جس میں اللہ سے آخرت سے پہلے دنیا کی بھلائی مانگی گئی؟یہ دنیا کی بھلائی کیا ہے؟دنیا کی بھلائی یہی ہے کہ تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ،نسل مذہب، سیاسی طور پرامن نصیب ہو،معاشی خوش حال ہو، بھوک مسلط نہ ہواور سماجی طور پر وہ کسی ایسی طبقاتیت کا شکار نہ ہوں کہ ان کے اوپر کا سردار، چودھری،وڈیرا،خان،ملک، زردار اس کا استحصال کرے اور اسے اپنے سے کم درجے کا انسان سمجھے۔

     

    اگر عام آدمی کو اس Utopia اور من گھڑت عظمت کی کہانیوں سے نکال دیا جائے،اس کے سامنے ایک حقیقی و سانس لیتی زندگی ہو،تو وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گا،اور یہ مطالبہ ہی اس ظالم نظام کا سب سے بڑا خوف ہے،اسی خوف سے ماضی میں کئی خیالی سیاسی نظریات و تحریکات گھڑی گئیں،ان تحریکات کا مقصد Attention divert کرنا تھا،تاکہ عام آدمی کبھی بھی Delusion سے نہ نکل سکے۔

     

    مذہب کے سامراجی استعمال کو سمجھنے کے لیے تاریخ میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں،صرف وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ مذہب کیسے اس نظام کی آلہ کار اشرافیہ کا ایک پر اَثر ٹول رہاہے،اس ٹول سے کیسے اور کب کب اشرافیہ نے کیا مقاصد حاصل کیے،وہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔

     

    1977ءمیں پی این اے کے نام سے اپوزیشن نے ایک تحریک چلائی جو بنیادی طور پہ الیکشن دھاندلی کے خلاف تھی،لیکن اس میں شامل حضرات نے اس کا رسوخ بڑھانے اور وزن ڈالنے کے لیے اسے تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کا نام دے دیا،اس تحریک کے اکابرین کی عجلت اور ناعاقبت اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نظامِ مصطفیٰ کی اس تحریک میں کئی بائیں بازو کے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں موجود تھیں،جنھیں سرے سے علم ہی نہیں تھا کہ نظامِ مصطفیٰ ہے کیا چیز؟

     

    اسی طرح جب 1979ء سرد جنگ کے دوران امریکہ کو روس کا راستہ روکنے کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے سعودی عرب کی مدد سے مجاہدین کی فیکٹریاں لگائیں،ہم نے سوشلزم و کیپٹلزم کی اس جنگ کو مذہب کا چولا پہنا کر،جہاد کا نام دے کر Glorify کیا،ان فیکٹریوں سے تیار ہونے والی پراڈکٹ آج تک خطے کا امن تباہ کر رہی ہے،اور اس جنگ کا ایندھن بنا عام آدمی!ساتھ ہی مالِ غنیمت کے طور پہ ملی کلاشنکوف اور چرس۔

    اگر کوئی اس بات پہ چیں بہ جبیں ہو تو وہ 22 مارچ 2018 میں Washington post کو دیا محمد بن سلمان کا انٹرویو پڑھ لے،چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔

     

    آپ نے جذباتی و Pan Islamism کے داعیوں سے کئی بار یہ جملے سنے ہوں گے کہ"ہم کشمیر کو فتح کریں گے،ہم دہلی کے لال قلعہ پر اسلام کا پرچم لہرائیں گے،ہم اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔"اور آگے بیٹھے نوجوانوں نے کبھی یہ تک نہیں پوچھا کہ نبوی سیاست میں قومی دائرے کی جد و جہد پہلے ہے یا بین الاقوامی دائرے کی؟

     

    دراصل Pan-Islamism کا یہ افیون صرف اس لیے دیا جاتا ہے کہ قومی سوچ پیدا نہ ہو،قوم اپنی حالت سدھارنے کے بجائے بین الاقوامی جذباتی مسئلوں میں الجھی رہے۔اور قومی وسائل پہ سامراج ہاتھ صاف کرتا رہے-

    مذہب کو بطور سیاسی ٹول استعمال کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے،یہ ایسی ترکیب ہے جو بے شعور و جذباتی عوام پہ سال کے بارہ مہینے کارگر ہے،پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک فتویٰ دیا کہ VPN حرام ہے،جس کی ذرائع ابلاغ میں خوب تشہیر ہوئی کیونکہ موجودہ طور پہ اشرافیہ کی منشا یہی ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کم سے کم ہو،اس فتویٰ پہ مجھے اتنا سا اعتراض ہے کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کے مفتیانِ کرام ایک فتویٰ اس بارے بھی عنایت کریں گے کہ"اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنا حرام ہے یا حلال؟"یہ فتوی اس وقت اور مضحکہ خیز ہوگیاجب اسے ایک عجیب تعبیرکی آڑ لےکر واپس لےلیاگیا-

     

    اسی طرح ایک کلپ میں ایک شیخ الاسلام صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری حضرت عمر فاروق رض کے نقشِ قدم پہ گامزن ہیں،کیونکہ حضرت عمر فاروق رض غرباء کی پرسش کے لیے راتوں کو چکر لگاتے تھے اور کامران خان ٹیسوری بھی ویسے ہی کر رہے ہیں۔

     

    یہ مذہب کی تعلیمات نہیں،مذہب نے کبھی ظالم کو گلوریفائی نہیں کیا،یہ مفاداتی تشریح ہے،اسی رویے کی وجہ سے آج نوجوان اذہان پراگندہ و خلفشاری کا شکار ہیں۔

    آج آپ کے اردگرد پھیلتے الحاد کی وجہ مذہب کی سامراجی و مفاداتی تشریحات ہیں،جنھوں نے نوجوان کو مذہب بیزار کر دیا ہے۔آج کا نوجوان جب اس طرح کی تشریحات کو دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ مذہب تو کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کو ترقی پذیر رکھنا چاہتی ہے،اس کے پاس انسانی سوسائٹی کے مسائل کا کوئی حل ہی نہیں۔لہذا ہمارے مذہبی طبقے کو اس ظالم نظام کا آلہ کار بننے سے انکار کرنا ہو گا،اور مذہب کی وہ تشریح پیش کرنی ہو گی جو واقعتاً مذہب کا مقصود ہے،یعنی سیاسی،سماجی اور معاشی عدل۔

     

    Share via Whatsapp