انسانی معاشرے میں باپ کی عظمت اور اہمیت
والد، باپ، ابو،بابا کے لئے کوئی جمع کا صیغہ تلاش کرتا رہا لیکن نہ ملنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتا ہے کہ خاندان میں والد ہی وہ بے شمار خصوصیات.....
انسانی معاشرے میں باپ کی عظمت اور اہمیت
مشترکہ کاوش: خالد ایمان بنوں و شکیل انجم ایڈووکیٹ
والد، باپ، ابو،بابا کے لیے کوئی جمع کا صیغہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ ملنے کی وَجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ خاندان میں والد ہی وہ شخصیت ہے جوبے شمار خصوصیات کے مجموعے کا واحد ہے جو اپنے بچوں اور باقی خاندان کو کامیابی سے آگے بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ والد ہی کا سلسلہ خاندان اور نسلوں کی پہچان بنتا ہے، کیوں کہ اس دنیا میں والدگرامی ہی بہت سی صفات کا مجموعہ بن کر سامنے آتا ہے اور اپنے اہل و عیال اور خاندان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سعی کرتاہے۔وہ خاندان کے ایک ایسے سربراہ کے طور پر سامنے آتا ہے کہ کسی بھی تکلیف، مشکل اور پریشانی میں وہ ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔
جیسے ماں گھر کی اندرونی ذمہ داریوں کی ذمہ دار مانی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح والد گھر کے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔
والد اپنے اہل و عیال کے لیے ایک خاموش نگران کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ وہ ہر بات،ہر کام اور ہر معاملے کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اوروں کو سمجھاتا ہے اور مسئلے کا حقیقی ادراک بھی کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا حل بھی تلاش کرتا ہے۔
جن گھروں میں والد، بابا، ابو کا سایہ برقرار رہتا ہے، وہاں باپ کو خداوند کریم کی طرف سے ایک نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ والد گرامی کے تجربات گو کہ جوانی میں بچوں کو نظر نہیں آتے اور بچے باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے ہیں۔
مثلاً باپ کو ہمارے مسائل تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں۔ یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا، یا والد کو ان کے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح کبھی کبھی ہم اپنے والد گرامی کے بارے غلط تجزیہ کر کے اس سے نفرت بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یا ایسے منفی خیالات ذھن میں رکھے ہوتے ہیں کہ اتنی محنت اگر ہمارے باپ نے کی ہوتی، بچت کی ہوتی،تو آج ہمارے لیے کچھ بنایا ہوتا۔تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالی شان زندگی کے ساتھ بڑے گھر اور گاڑی میں گھوم رہے ہوتے۔
اس کے علاوہ اپنے باپ کی بہت ساری باتیں اور سوالات کہ:
بیٹا کہاں ہو؟
کب آؤ گے؟
زیادہ دیر نہ کرنا، جیسی باتیں انتہائی فضول اور فالتو لگتی ہیں۔
مزید یہ کہ بیٹا سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے۔
بیٹے سوچتے ہیں کہ اولڈ فیشن کی وَجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ ہی نہیں،جب کہ ایسی باتیں کرنے سے والد کے نزدیک حقیقت پر مبنی مدعا سامنے ہوتا ہے۔جب کہ بچے تو ٹرینڈ کو اپنی نظروں میں جمائے بیٹھے کسی بھی بات کا غلط اندازہ لگا لیتے ہیں۔
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی اس نفسانفسی کے دور میں اکثر بچے اپنے باپ کی محبت، غیرت اور وقار کو گھر ،گاڑی ،پلاٹ ، بینک بیلنس اور کاروبار کی موجودگی کے معیار پر پرکھتے ہیں کہ اگر یہ چیزیں ان کے والد نے انھیں فراہم کی ہیں۔ تو سو بسم اللہ ورنہ اس کے علاوہ اس کو ایک ناکام والد کے طور پردیکھتے ہیں۔
جو توانائی والد اپنے بچوں کے پالنے، ان کی حفاظت اور ان کی پرورش میں خرچ کرتا ہے، اتنا ہی بچے بھی اگر بروقت اخلاق سیکھنے اور سمجھنے میں لگ جاتے تو یہ خواہشات پر مبنی وقتی ضرویات بھی پوری ہو جاتیں ۔تاہم اکثر بچے اپنی کامیابی اپنے کھاتے میں جب کہ اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کرخود سُرخرو ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی وسائل ہوتے تو اچھے اسکولوں میں پڑھتے، اس کے بعد بڑے بڑے کاروبار کرتے۔ یہ ساری اُمیدیں اپنے والد سے لگانا وہ اپنے لیے ضروری قرار دیتے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کے لیے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے، لیکن کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔اس کی وَجہ ہمارے سامنے وقتی ضرورت اور ہمارے ذہنوں پر دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوجانا ہی ہے۔
اور یقیناً مختصروقت میں اور جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم ضرور کچھ کھو رہے ہوتے ہیں،جس کا ایک سبب کائنات کے تکوینی امور کی ترتیب کو نہ سمجھنا یا اپنے مقررہ وقت سے زیادہ تیز چلنے کی خواہش ہو سکتا ہے اوربسااوقات زندگی کی رفتارکو اپنی مقررہ حد سے تیز تر کرنا نقصان کا باعث بھی بن جاتا ہے، جس کا احساس ہمیں بہت دیر بعد جاکر ہوتا ہے۔
اگر حقیقت بین شعوری آنکھوں سے دیکھا جائے تو اکثر والدین ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں بڑےاحسن طریقے سے ادا کرتے ہیں۔وقت گز جاتا ہے اچھا بھی ، برا بھی اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکنے میں ماضی کی کہانیوں کو اپنے اردگرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔
ان تمام حالات میں اگر والد گرامی تنظیمی صلاحیتوں سے مالامال ہے اور موجودہ نظام اور اس کے اَثراتِ بد اور تقاضوں کو بھی سمجھتا ہے، تب وہ اپنی زندگی کو ایک خاص ترتیب سے گزار سکتا ہے۔ اور اسی کے ساتھ اپنے بچوں کی بہترین شعوری پرورش کرکے انھیں اپنے بچپن میں ہی ذمہ داریوں کا احساس کروا سکتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو وہ اپنے ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے بھی تیار کرسکتا ہے جو کامیاب لوگوں کی واضح نشانی ہے ۔
لہذا ہمارے معاشرے میں سمجھ دار والدین کو موجودہ نظام کے برے اُثرات کو سمجھ کر ان سے اپنے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے اس سسٹم کو اور اس کے بنائے ہوئے ماحول کو بدلنے کی تیاری کرنی چاہیے ۔ اس طرح اپنے بچوں سمیت دیگر سمجھ دار بچوں اور ان کے والدین کو موجودہ نظام کے غلط اَثرات سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ نظام کی خرابی کا مقابلہ ہو اور صالح نظام کے قیام کے لیے اجتماعی طور پر کوششیں تیز کی جا سکیں۔
اپنےباپ کی کبھی بلا وَجہ خاموشی ،کبھی پرانے دوستوں میں بے وَجہ قہقہے، اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے پرانے کو فخر سے پہننا ، کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونا، کبھی بغیر وَجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا، نظریں جھکائے انتہائی محویت سے عبادت کرنا، سب کچھ سمجھ تو آنا شروع ہوجاتا ہے، مگر بڑی دیر بعد ، جب ہم خود والد بن کے اپنے بچوں کے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں۔جب قہر کی گرمی میں اے سی کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے وہ یہ کہ کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی ہوگی؟
پھر زندگی کے امتحانوں میں سے جوان اولاد کے مستقبل ، شادیوں کی فکر ، ہزار تانے بانے جوڑتا باپ ، تھک ہار کر عبادات میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔تب یاد آتا ہے ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف ، ایک ایک آیت پر ، رُک رک کر ، بچوں کی سلامتی ، خوشی ، بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگااور ہر نماز کے بعد اُٹھے کپکپاتے ہاتھ،اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہوں گے، کہ ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو نمناک آنکھوں سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوگا۔
اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے ، اتنی دیر سے کہ ہم اسے چھونے ، محسوس کرنے ، اد کی ہر تلخی ، فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ ایک عجیب احساس ہے جو ایک وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے۔
لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولاد ہیں۔
ہمیں امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکے خاندان کو بہ طور سماج کے پہلے خلیے سے تشبیہ دینے والی بات کو گہرائی سے سمجھنا چاہیے کہ جسم انسانی مختلف خلیوں سے بنا ہوتا ہے اور انسانی بدن کی اکائی ایک خلیہ ہوتا ہے۔اسی طرح ہمارے پورے معاشرے یا ملک کو اگر ایک جسم تصور کیا جائے تو ایک خاندان اس میں ایک خلیے کی مانند ہوتا ہے۔ اَب اگر ایک جسم میں تمام خلیے ترقی کر رہے ہوں اسے صحت مند خوراک مل رہی ہو، بیماری سے محفوظ ہے تو وہ جسم دنیاوی ترقی اور روحانی ترقی کرے گا۔ اسی طرح خاندانی نظام اور اس کا سربراہ درست سمت میں ترقی کر رہا ہو، تو صالح نظام کی موجودگی کاتصور ہوگا۔ اور اگر خاندانی نظام الجھنوں پریشانیوں اور اختلافات کا شکار ہو تب وہ ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوگا۔ لہذا معاشرے کی کل ترقی کے لیے ایک خاندانی نظام کو صحیح خطوط پر استوار رکھنا بنیادی بلکہ بے حد ضروری ہے، جس کا سربراہ ایک والد ہوتا ہے اب والد کا صالح جماعت سے منسلک ہونا اور صالح نظام کے لیے ان کی جدوجہد کرنا فرض کا درجہ رکھتا ہے۔
امعاشرے کی اس ساری صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اور اپنے بچوں کو موجودہ فرسودہ نظام کی خرابیوں سے بروقت آگاہ رکھیں ۔ تاکہ بچے والد کی ان کے لیے کی گئی انتھک محنت اور کوششوں کا صحیح ادراک کرتے ہوئے والد کی عظمت و شان کو پہچان سکیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کر سکیں۔ورنہ موجودہ استعماری قوتوں کے آلہ کار فرسودہ نظام کے مندرجہ بالا مذکورہ برے اُثرات میں والدین اور بچے ہمیشہ شش و پنج کی کیفیت سے دو چار رہیں گے۔