ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک قیام کارجحان
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز افراد، جیسے چیف جسٹس، اعلیٰ فوجی جنرل، بیوروکریٹس اور دیگر افسران، ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد وطن عزیز کو ۔۔۔۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک قیام کارجحان
تحریر: محمد اصغرخان سورانی۔ بنوں
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز افراد، جیسے چیف جسٹس، اعلیٰ فوجی جنرل، بیوروکریٹس اور دیگر افسران، ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد وطنِ عزیز کو خیرباد کہہ کر یورپ یا دیگر بیرونی ممالک چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہ اقدام معاشرتی، نفسیاتی اور اخلاقی سطح پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دورانِ ملازمت یہ افراد ملک کی فلاح و بہبود میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں، مگر جیسے ہی ان کے عہدے کی مدت پوری ہوتی ہے، ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے ذمہ دار افراد کا بیرونِ ملک منتقل ہونا، ان کی ذمہ داریوں اور عہدے کے مقاصد کے ساتھ ایک تضاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ذاتی مفاد اور ترجیحات کا مسئلہ
عہدے پر رہتے ہوئے یہ تمام لوگ اپنی مراعات میں اضافہ اور اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ملک کے لیے اصلاحات میں ان کی سنجیدگی اکثر مفقود رہتی ہے، جب کہ ریٹائرمنٹ کے نزدیک اور بعد میں انھیں اپنے بچوں کے مستقبل اور تعلیم کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ وہ بیرونِ ملک منتقل ہونے کو ہی واحد حل سمجھتے ہیں۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ دورانِ ملازمت اہم عہدہ داران شاید اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ملکی حالات کتنے دگرگوں ہیں اور شاید یہ کہ ان کے بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔ لہٰذا ذاتی مفادات کو ہی فوقیت دیتے ہوئے اپنا اور اپنی اولاد کا مستقبل باہر شفٹ ہونے میں ہی محفوظ سمجھتے ہیں۔
نظام کے ناکام ہونے کی تصدیق
پاکستان میں رہنے کے باوجود یہ اہم عہدہ داران اپنی مدتِ ملازمت کے دوران ملکی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کرتے۔ یہ افراد دورانِ ملازمت اس نظام کی بقا اور اس کے مؤثر ہونے کا دفاع کرتے ہیں، مگر جیسے ہی ان کا عہدہ ختم ہوتا ہے، وہ اسی نظام سے فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا بیرونِ ملک منتقل ہونا دراصل ان کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ ان کے نزدیک ملکی نظام نہ صرف ناقص، بلکہ غیرمؤثر ہے۔ یہ رویہ عوام میں بداعتمادی پیدا کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ ملکی حالات کی بہتری کی کوشش میں یہ افراد خود بھی سنجیدہ نہیں تھے۔
دوہری اخلاقیات کا مظاہرہ
ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک جانے کا رویہ دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے۔ ملازمت کے دوران یہ افراد اپنے اختیارات اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر ملک کے نظام کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کرتے۔ بعدازاں، بیرون ملک منتقلی کے ذریعے اپنے اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھیں اس ملک پر اعتماد نہیں (جسے وہ اپنے دور میں بہتر بنا سکتے تھے)۔ ان کا یہ طرزِعمل عام شہریوں کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے، جو بیرون ملک جانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور انھیں اسی نظام میں زندگی گزارنا پڑتی ہے۔
قومی ذمہ داریوں سے فرار
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی بھی عہدے دار کے لیے ملک کی فلاح و بہبود میں حصہ لینا ممکن ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے عموماً یہ افراد بیرون ملک جا کر اپنی قومی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنے بچوں کے لیے پاکستان کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ انھوں نے اپنے دورِ ملازمت میں ملکی نظام کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی؟ ان کا یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ملک کے مسائل کو بہتر بنانے میں کبھی واقعی مخلص نہیں تھے یا پھر یہ کہ موجودہ نظام کسی کو بھی اسے تبدیل کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ ایسے افراد کا طرزِعمل دراصل ملک میں حقیقی تبدیلی کی راہ میں اضافی رکاوٹ بنتا ہے، کیوں کہ وہ خود اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہیں اور دوسروں سے ملکی نظام کی بہتری کی توقع عبث رکھتے ہیں۔
کیا بیرونِ ملک مقیم عہدے دار پنشن کے حق دار ہیں؟
سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ وہ افراد، جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں، کیا وہ واقعی پنشن کے حق دار ہیں؟ اصولی طور پر، پنشن ایک ایسی سہولت ہے جو ملازمت کے دوران ملک و قوم کی خدمت کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے،لیکن جب کوئی شخص ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک منتقل ہوتا ہے تو پنشن کے حق پر سوال ضرور اُٹھتے ہیں۔ اگر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ دیتا ہے تو یہ بات جائز معلوم ہوتی ہے کہ پنشن کے حق پر نظرثانی کی جائے۔
بہت سے ممالک میں ریاستی مراعات کے لیے ملک میں رہائش یا ایک مخصوص مدت گزارنے کی شرط رکھی جاتی ہے ، تاکہ ملکی فوائد صرف انھی افراد تک محدود رہیں جو اپنے ملک کے ساتھ مستقل وابستہ ہیں۔ پاکستان میں بھی ان اصولوں پر غور کیا جانا چاہیے، تاکہ قومی وسائل کو صرف انھی افراد تک محدود کیا جا سکے جو ملکی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی کے بقیہ حصے میں بھی ملک کے ساتھ جڑے رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔پنشن قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے، جوکہ محدود وسائل کا حصہ ہے۔ اگر کوئی فرد ملک میں رہائش اختیار نہیں کرتا اور ملکی معیشت میں براہِ راست شراکت نہیں کرتا، تو اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ آیا وہ پنشن کے حق میں شامل رہنا چاہیے یا نہیں۔ یہ فیصلہ ملکی معیشت اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا چاہیے، تاکہ قومی وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔
تدفین کے لیے واپسی:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعلیٰ عہدہ داران، جو ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ یا دیگر مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرتے ہیں، وفات کے بعد ان کی میت کو پاکستان واپس بھیجا جاتا ہے۔یہ اس بات کامظہر ہے کہ یہ افراد اپنی زندگی میں وطنِ عزیز کی تعمیر و ترقی میں مکمل طور پر اپنا کردار ادا نہیں کرتے اور نہ ہی ملک کی فلاح و بہبود کو اولیت دیتے ہیں۔ وہ پاکستان میں صرف اپنی تدفین کے لیے واپس آتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لیے یہ ملک محض ایک مٹی کی حد تک اہمیت رکھتا ہے۔ ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جن ترقی یافتہ ملکوں میں یہ جا کر آباد ہوتے ہیں، ان ملکوں میں تدفین کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ان کی اولاد یہ خرچ کرنے کے بجائے میت پاکستان بھجوانے میں بچت دیکھتی ہے۔
اس رویے سے یہ سوال اُبھرتا ہے کہ جب یہ افراد اپنی زندگی کا بیش تر حصہ بیرون ملک گزارنا چاہتے ہیں تو انھوں نے ملک کی خدمت اور اس کے نظام کی بہتری کے لیے اپنی مدتِ ملازمت میں کیا کردار ادا کیا؟ ان کی واپسی، صرف قبر کی حد تک محدود رہ کر، ملک کی فلاح و بہبود اور ان کے عہدوں کے تقاضوں کے ساتھ ایک کھلا تضاد ہے۔ یہ عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کو صرف آخری آرام گاہ کی حیثیت دینے کا رویہ نہ صرف اِنفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی قوم کے لیے مایوس کن ہے۔
پاکستان کے اہم عہدوں پر فائز افسران کا ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک منتقل ہونا قومی سطح پر ایک بڑے تضاد کو جنم دیتا ہے۔ ایسے افراد جو دورانِ ملازمت ملک کی خدمت میں ناکام رہے، بعد ازاں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک اعلیٰ عہدوں پر ایسے لوگ نہیں پہنچتے، جنھیں قومی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے موجودہ اعلیٰ عہدے داران اپنے ملک کے ساتھ اس لیے بھی مخلص نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ انھیں تعلیم و تربیت ہی ایسی دی گئی ہوتی ہےکہ وہ اپنے شہریوں کو غلام اور اُجڈ شمار کرتے ہیں اور خود کو آقا اور ان کی گردنوں کا مالک گردانتے ہیں۔ان سے بہتری کی اُمید لگانا، دن میں تارے گننے کے مترادف ہے ۔ایسے حالات میں خود نوجوانوں کو اُٹھنا ہوگااور حقیقی جماعتی جدوجہد کو اختیار کرنا ہوگا۔ہر دور میں جماعت حقہ ضرور موجود رہتی ہے جو تاریخی تسلسل کی مالک ہوتی ہیں ۔اگرچہ ظاہری طور پر کمزور اور تعداد میں کم نظر آتی ہے، لیکن ان کے پاس اپنے دور کے مسائل کا عقلی طور پر حل موجود رہتا ہے، جس کی وَجہ سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔