ترقی کا راز
انسان کی اصل ترقی تو اس کی غلامی سے آزادی ہے۔ اس کی سیاست، اس کی معیشت اور معاشرت آزاد ہو۔
ترقی کا راز
تحریر: علی حسن آزاد۔ جیکب آباد
ترقی فطرتِ انسانی کا خاصا ہے۔ ابتدائی زمانے میں جو سفر حضرتِ انسان کا پتھر کے دور سے شروع ہوا، وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آج کرہ ارض پر بسنے والے آٹھ ارب بنی نوعِ انسان کی حیثیت ڈیجیٹل ایج میں داخل ہونے کی وَجہ سے بین الاقوامی بن چکی ہے۔ آج کوئی انسان فردِ واحد نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کی اکائی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی انسانی ترقی کی تشنگی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ دنیا حیرت کدہ ہے کہ آج کا سائنس دان اسپیس میں راکٹس تو بھیج سکتا ہے، مگر زمین پر بسنے والے انسانوں کے بگڑے ہوئے زوال پذیر سماج کی رُت تبدیل نہیں کرسکتا۔ یورپ کی یہ کیسی سائنسی ترقی ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی بہتات سے محض سرمایہ و دولت کی اجارہ داری تو قائم کرنا جانتی ہے، مگر اربوں انسانوں خصوصاً افریقا و ایشیا میں بسنے والوں کی بھوک کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ مغرب کی یہ کیسی سیاست اور جمہوریت ہے جو چند سرمایہ داروں کے لیے تو مثلِ جنّت ہے، مگر باقی تمام انسانوں کے لیے غلامی، خوف، ظلم اور معاشی بدحالی کا جہنم ہے۔ کیا اسے انسانی ترقی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان کو سائنسی ترقی کا سنہرا خواب دکھانے سے ارتقائی دنیا میں بسایا جاسکتا ہے؟
انسان کی اصل ترقی تو غلامی سے آزادی ہےتاکہ اس کی سیاست، معیشت اور معاشرت آزاد ہو۔
برعظیم پاک و ہند کے ہمارے عظیم راہ نماؤں حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، امام شاہ عبد العزیزدہلویؒ، سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ و دیگر نے ملک و قوم کی آزادی کے لیے جو بیش بہا قربانیاں دیں، وہ تابناک تاریخ کا حصہ ہیں۔
ایک آزاد قوم و ملک کی ترقی کے لیے امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی ؒنے نوجوانوں پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے فرمایا کہ "ہمارا نوجوان سماجی تبدیلی کے نقطہ نظر سے اپنی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے اور تشکیلِ نو و سماجی تبدیلی کا مطلب بڑے واضح انداز میں بیان کیا کہ ہم جس صنعتی، سائنسی و ٹیکنالوجی (ڈیجیٹل ایج) کے دور میں داخل ہو چکے ہیں، اس حالت میں ہمیں یورپ سے جدید دور کی ٹیکنالوجی، سائنس اور جدید علوم سیکھنے ہیں اور اس کی اساس پر اپنا عملی نظام بنانا ہے، لیکن اس کے پیچھے جو فکر ہو، وہ اس دھرتی کا عظیم فکر ہو جو کہ رواداری، وحدتِ انسانیت اور دینِ اسلام کا جامع فکر ہے، جس نے دنیا بھر کی قوموں کو بارہ سو سال تک آزادی و حریت کا نظام دیا تھا۔ گویا کہ اسلام کے انسان دوست فکر اور اپنی دینی اور مذہبی روایات کو سامنے رکھ کر ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہے اور قومی آزادی حاصل کرنی ہے۔"
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی تاریخ سے خود کو ری-لنک کریں، سرمایہ داروں کی مرعوبیت اور اِنفرادیت کی اس ریس سے نکلیں، جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو سیکھیں، اپنی صلاحیتوں کا بڑھائیں، قومی وقار و تشخص کے نظریے کو اپنائیں، اپنے خطے کے عظیم ترین حریت پسند راہ نماؤں کی تحریکات کا مطالعہ کریں، ان کی سماجی جدوجہدکی زندگیوں کا ادراک پیدا کریں، عالمِ انسانیت کو کشتِ غم سے نکال کر ہوائے شاد بخشیں، تاکہ دھرتی پر بسنے والے تمام انسان آزادی، امن، عدل اور معاشی خوش حالی کی نعمتوں سے مستفید ہوں۔
اِک ایسی دنیا بسانے کی آرزو ہے مجھے
جہاں ہم سب کا مسلک فقط محبت ہو