انسان اور اس کا مقام
انسان کا وجود اس کائنات میں اﷲ رب العزت کی پہچان کا ذریعہ ہے۔انسان کی تخلیق سے قبل اﷲ ﷻ نے اور بہت سی مخلوقات کو پیدا فرمایا
انسان اور اس کا اصل مقام
تحریر: عمران علی ،دبئی
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
انسان کا وجود اس کائنات میں اﷲ رب العزت کی پہچان کا ذریعہ ہے۔انسان کی تخلیق سے قبل اﷲ ﷻ نے اور بہت سی مخلوقات کو پیدا فرمایا مثلاً جمادات کو تخلیق کیا تو وہ ایک جگہ ساکت پڑے رہتے ہیں۔پھر نباتات کو تخلیق کیا تو وہ ایک خاص سمت میں حرکت کرتے تھے لیکن ان کے پاؤں زمین میں جکڑے ہوئے تھے ۔پھر اس کے بعد حیوانات کو پیدا کیا تو یہ سابقہ دونوں مخلوقات سے بہتر تھی کیوں کہ اس کے پاؤں بھی آزاد تھے چلنے پھرنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی اور اپنی نسل کی بقاء کے لیے خوراک کا بندوسبت بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
اب ان تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کا مقصد اﷲ رب العزت کا اس مادی دنیا میں اپنا تعارف کروانا تھا۔اسی مقصد کے پیش نظر آخرمیں حضرتِ انسان کو پیدا فرمایا اور انسان کو اپنی بہترین مخلوق کے طور پر متعارف کروایا۔یہ تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی ہے جس کو اﷲ ﷻ کے نائب و خلیفہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔انسان میں وہ تمام صفات جو اﷲ ﷻ کے نائب ہونے کے لۓ ضروری تھیں رکھ دی گئی. اس کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کیا۔
اب غور وفکر کی بات یہ ہے کہ انسان کو ہی کیوں اتنا اعلی مقام دیا۔اس کے کیا مقاصد تھے۔ انسان اپنی نوع کے حوالے باقی مخلوقات سے ممتاز ہے۔اس کے اندر کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اسے باقیوں سے منفرد کرتی ہیں۔مثلا مفاد عامہ کا جذبہ، آ گے بڑھنے کا جذبہ،خوب سے خوب تر کی تلاشاور سب سے بڑھ کر مادہ عقل جس کی بنیاد پر یہ تسخیر کائنات کا موجب ٹھہرتا ہے۔اب ان تمام خصوصیات کا مدعا کیا ہے؟
اس سارے عمل سے انسان اﷲ ﷻ کی صفات کا عملی مظہر بن کر ذاتِ باری تعالٰی کے تعارف کا سبب بنے۔اب اس عظیم ذمہ داری سے انسان کیسے عہدہ برآ ہوسکتا ہے،اﷲ ﷻ کے نائب ہونے کے تقاضے کیسے پورے کئے جاسکتے ہیں۔اب قرآن کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دنیا میں اﷲ ﷻ نے اسی مقصد کے لئے انبیاء کو مبعوث کیا۔جب جب انسانیت اپنے مقام سے گر کر حیوانیت کے درجے پر آئی تو اس کو اس کا یہ مقام دوبارہ یاد دلانے کے لئے ایک نبی یا رسول آتا ہے اور وہ ایک شریعت لے کر آ تا ہے۔
اب اگر بغور مطالعہ کیا جاۓ تو تمام مذاہب کی اصل بنیاد اﷲ ﷻ کی پہچان پیدا کرنا ہے۔یعنی توحید وہ نقطہ ہے جو تمام انبیاء کی دعوت میں مشترک رہا ہے اور اس توحید کے نتیجے میں کائنات میں بھی ایک نقطہ مشترک ہے اور وہ یہ کہ تمام انسان اﷲ ﷻ کے پیدا کردہ ہیں اور پوری انسانیت اﷲ ﷻ کا کنبہ ہے۔اب اﷲ ﷻ کو پہچاننے کے لئے اﷲ ﷻ کے اسی ہی کنبے کو ذریعہ بنایا۔اﷲ رب العزت ﷻ کا قرب حاصل کرنے کا واحد راستہ خدمت انسانیت رہا ہے۔آ ج پھرانسانیت اپنے مقام سے گر کر حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے جاچکی ہے۔انسانیت اپنی مادیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کو بھی فنا کر چکی ہے۔معاشرے کے اجتماعی اخلاق برباد ہو چکے ہیں،بد اخلاقی کا بازار گرم ہے اور حضرت انسان جو اﷲ ﷻ کے نائب کا مقام رکھتا ہے،آ ج کل ایسے اعمال پر اتر آیا ہے جو ایک جنگل میں حیوانات ایک دوسرے کے سا تھ کرتے ہیں۔ایسے معاشرے کی اصلاح کا طریقہ کیا رہا ہے؟
یہ بات تو طے ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت کا سلسلہ تو رسول ﷺ پر آکر ختم ہو گیا لیکن آ پ ﷺ کی ذات آ ج بھی مشعل راہ ہےاور قرآن دستور کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔جس سے عرب معاشرے میں رسول ﷲ ﷺ نے درست راستہ اختیار کر کے عربوں کو بت پرستی اور معاشرتی بداخلاقی سے نکال کر اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ اس کی مثال دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
اب ایک بار پھر مخلوقِ خدا کو مشکلات کا سامنا ہے۔انسانیت اپنا مقصد تخلیق بھول چکی ہے اور انسانیت کی اس بربادی کا سب سے بڑا سبب سرمایہ داری نظام ہے جو اﷲ ﷻ اور مخلوقِ خدا کے تعلق سے لے کر انسانوں کے آ پس میں قائم ہونے والے تعلقات کی بربادی کا باعث ہے۔آج پورا معاشرہ سرمایہ پرستی کے مرض میں مبتلا ہے۔انسانیت کو بھی سرمایہ کے بل بوتے پر پرکھا جاتا ہے۔اﷲ ﷻ کا نائب کسی اور کی غلامی اختیار کر چکا ہے۔جب معاشرہ ایسی صورت حال اختیار کر لیتا ہے تو اﷲ ﷻ کی مرضی کیا ہوتی ہے۔سورت القصص کی آیۃ نمبر ٥ میں اﷲ ﷻ خود اس کی وضاحت فرما تے ہیں۔
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱسْتُضْعِفُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ ٱلْوَٰرِثِينَ
ترجمہ:ہم نے چاہا کے ہم احسان کریں ان لوگوں پر جو کمزور بنا دیئے گئے ہیں۔اور ان کو اس دنیا کا امام اور وارث بنا دیں۔
اللہ کی چاہت یہ ہےمیرا نائب کسی دوسرے کا غلام نہ ہو،اب یہ غلامی اجتماعی ہے پورے کا پورا معاشرہ ذہنی غلامی کا شکار ہے اس غلامی کے نتیجے میں اس کے مادی زندگی کے ساتھ اخلاقی زندگی بھی بڑی بڑھ متاثر ہوئی ہے۔ایسے معاشرے میں اب اپنے اس حقیقی مقصد تخلیق کو حاصل کرنے کے لیے انبیاء کے دیئے ہوئے اس مشن کو اختیار کرنا ہوگا۔چونکہ یہ زوال اجتماعی ہے تو انفرادی اصلاح کا نظریہ کارگر نہیں ہو سکتا۔یہاں صرف فرد کی نہیں پورے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے اور نظام سے مراد وہ ضابطے ہیں جن پر ایک معاشرہ قائم ہوتا ہے اور آ گے بڑھتا ہے۔
اب چونکہ موجودہ ضابطے معاشرے میں بد امنی بداخلاقی اور بے شعوری پیدا کر رہے ہیں۔لہٰذا ایسے میں انبیاء کی سنت یہ رہی ہے کہ وقت کے ظالمانہ سسٹم کو تبدیل کر کے انسانیت کو اس کا اصل مقام دلایا جاۓ۔تو اس کام کے لئے سب سے پہلے ایک مربوط اور توانا فکر کی ضرورت ہے جو انسانیت کے دونوں پہلوؤں (مادی اور روحانی) کو پوری کرتی ہو۔پھر اس فکر سے منسلک ہونے والے افراد کی تربیت کا مناسب بندوبست کیا جائے گا اور پھر وہ تربیتی یافتہ جماعت اپنی حکمت عملی سے اس ظالمانہ سسٹم کو بدل کر نئی بنیادوں پر نظام کی تشکیل کرے گی۔