دین حق کی جامعیت اور سماج پر اثرات
اصل میں دین شریعت، طریقت اور سیاست کی جامعیت کا نام ہے۔ اگر ہم کسی ایک کو تو اختیار کر رہے ہیں اور دوسرے شعبہ جات سے لاتعلق ہے تو پھر نتائج پیدا ۔۔۔۔۔
دینِ حق کی جامعیت اور سماج پر اثرات
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
کچھ دن پہلے ہم دوستوں نے سوات کے پہاڑی علاقوں کی سیر کا پروگرام بنایا۔ ہمارے تفریحی ساتھیوں میں میرے معزز دوست ظہیر اور بصیر بھی شامل تھے۔ ظہیر اکثر بصیر سے سوالات کرتا رہتا تھا اور بصیر، اپنی ذہانت اور خلوص کی وَجہ سے ہمیشہ نہایت بصیرت اور دلجمعی سے اس کے سوالات کے جوابات دیتا تھا، جس سے ہماری محفل علم اور دلچسپی سے بھرپور رہتی تھی۔
اِس تفریحی دورے کے دوران جب ہم رات کا کھانا تیار کر رہے تھے تو ظہیر نے بصیر سے سوال کیا: "میں نمازیں پڑھتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور کسی برے عمل سے بھی دور رہتا ہوں، پھر بھی زندگی میں مشکلات کیوں آتی ہیں؟ دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ اور عبادات کا وہ لطف محسوس نہیں کرتا جو کبھی بچپن میں ایک چھوٹی نیکی کا عمل کرتے ہوئے دل کو سکون ملتا تھا۔ یہ کیا وَجہ ہے؟ " بصیر، جو ہمیشہ گہرائی میں جا کر بات سمجھاتا ہے، مسکرا کر بولا: "آؤ، پہلے کھانا تیار کر لیتے ہیں، پھر اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے۔"
ہم سب نے مل کر پیاز، ٹماٹر، گوشت وغیرہ کاٹ کر کے بصیرکے حوالے کر دیا، کیوں کہ بصیر کے ہاتھ میں جو ذائقہ ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ بصیر نے ہانڈی چولہے پر رکھی اور اس میں پیاز، لہسن، گھی اور تمام ضروری اجزا ڈال دیے اور ہم باتوں میں مصروف ہوگئے۔ اچانک ظہیر کی نظر چولہے پر پڑی تو اسے احساس ہوا کہ بصیر چولہا جلانا بھول گیا ہے۔ تو ظہیر نے بصیر کو بتایا کہ آپ چولہا جلانا بھول گئے ہیں، اگر چولہا نہ جلے تو ہانڈی کیسے پکے گی؟ چولہے کے نیچے آگ تو لگادو۔ بصیر نےمسکرا کر جواب دیا یہ آپ کوسمجھانےکے لیے کیا تھا۔
پھر بصیر نے وضاحت کی: "جس طرح ہانڈی کے تمام اجزا ہونے کے باوجود آگ کے بغیر کچھ نہیں پکتا، بالکل اسی طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور خیرات بھی جب تک 'تقویٰ' کی آگ میں نہ ڈھلے، بے معنی رہتے ہیں۔" اور ہاں یہ اِنفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔
ظہیر نے دوبارہ سوال کیا: "تقویٰ کے بارے میں مزید وضاحت کیجیے؟" بصیر نے جواب دیا: "بھائی! تقویٰ عبادات کی روح ہے۔ عبادات کا اصل مقصد انسان کو روحانی بلندی پر پہنچانا اور اس کے کردار کو سنوارنا ہوتا ہے اور یہ مقصد تب تک پورا نہیں ہوتا، جب تک دل میں تقویٰ نہ ہو۔ تقویٰ ہی وہ عنصر ہے جو انسان کی عبادات کو باطنی طاقت عطا کرتا ہے اور اسے اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ بصیر نے مزید وضاحت کی کہ عبادات کا مقصد دل کی پاکیزگی اور روح کی صفائی ہے۔ اگر دل میں غصہ، حسد، لالچ، منافقت اور نفرت جیسے منفی جذبات ہوں، تو عبادات بے روح ہوجاتی ہیں۔ اپنے دل کو ان منفی جذبات سے پاک کرو، خلوص اور مخلوق کی خدمت کے جذبات پیدا کرو، تب تمھاری عبادات کا حقیقی فائدہ ہوگا اور دعائیں بھی اللہ کے حضور قبول ہوں گی۔ یہ کام اگر اِنفرادی طور پر کریں گے تو اِنفرادی طورپر فائدہ ملے گا، لیکن اگر کوئی جماعت سوسائٹی میں اس کے اَثرات پیدا کرنا چاہے تو یہ کام ایک صالح جماعت کے بغیر ممکن نہیں۔ کیوں کہ سوسائٹی میں جب تک عدل قائم نہ ہو تو تقویٰ کو پیداکرنا بہت مشکل ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے "اعدلوا هو أقرب للتقویٰ"(سورۃ المائدہ، 5:8) ترجمہ:"عدل اختیار کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے"۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم زندگی کے تمام امور میں عدل کو اپنائیں تو ہم تقویٰ والے بن سکتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شامل ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت اور اکرام کے مستحق ہوں گے۔
بصیر نے سیرت سے بھی مثال دی کہ نبی کریم ﷺ نے تقویٰ کے بارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سمجھاتے ہوئے فرمایا:"التَّقْوَى ھاھنا" اور آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد تقویٰ کا مرکز دل ہے۔
اللہ تعالیٰ انسان کے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے، نہ کہ صرف ظاہری صورت کو۔ تقویٰ کا مطلب دل کی پاکیزگی، اخلاص، اور نیک نیتی ہے اور اسی سے انسان کی عبادات کو روحانی تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح آپﷺ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے" جو کہ پوشیدہ ہے۔ صحابہ کرام ؓ کی زندگی تقوی سے عبارت تھی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا:"تقویٰ دل کا وہ لباس ہے جو انسان کو برائیوں سے بچاتا ہے اور اس کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے"۔ یعنی تقویٰ انسان کے دل میں خدا خوفی اور پاکیزگی پیدا کرتا ہے، جس سے اس کا کردار نکھر جاتا ہے اور وہ برائیوں سے بچ جاتا ہے۔
بزرگانِ دین نے بھی تقویٰ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ ؒتقویٰ کی تعریف میں فرماتے ہیں:"تقویٰ وہ ملکہ (صلاحیت) ہے، جس کے پیدا ہونے سے انسان عدل و انصاف کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔" یہ قول اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ تقویٰ صرف ظاہری عبادات کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کے اندر وہ روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا کرتا ہے جو اسے عدل، انصاف اور درست کردار کی طرف مائل کرتی ہے۔
شفیق بھائی نے سوال کیا کہ سوسائٹی کو عدل پر کیسے لائیں گے؟ جس پر بصیر بھائی نے جواب دیا جو کہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ بصیر بھائی نے کہا کہ دیکھو جس کو ہم دین کہتے ہیں وہ دین کا ایک شعبہ ہوتا ہے۔ اصل میں دین شریعت، طریقت اور سیاست کی جامعیت کا نام ہے۔ اگر ہم کسی ایک کو تو اختیار کر رہے ہیں اور دوسرے شعبہ جات سے لاتعلق ہیں تو پھر نتائج پیدا کرنا مشکل ہے۔ اگر آپ شریعت، طریقت اور سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو یوں سمجھ لو کہ شریعت، راستہ ہے، طریقت، اس راستہ پر چلنے کی قوت کا حصول ہے اور سیاست اس راستے کی رکاوٹ دور کرنے میں معاون ہے یا یوں سمجھ لو کہ شریعت تعلیم و احکام کا نام ہے، طریقت تہذیب و اخلاق، جب کہ سیاست نظم الاعمال کا نام ہے۔ ایک بزرگ لکھتے کہ شریعت میں اصلاح العباد کی جاتی ہے اور طریقت میں اصلاح نفس، جب کہ سیاست میں اصلاح البلاد کی جاتی ہے۔
حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیبؒ اپنے ایک خطاب میں ان تینوں کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین اسلام کی جامعیت شریعت، طریقت اور سیاست کے باہمی اتحاد پر مبنی ہے۔ اگر ان تین عناصر کو الگ کر دیا جائے تو ہر ایک اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے اور منفی نتائج پیدا کرتا ہے۔ طریقت، جب شریعت و سیاست کے بغیر ہو، تو وہ وحشت و شرمندگی بن جاتی ہے۔ شریعت، طریقت کے بغیر جمود و شدت پیدا کرتی ہے اور سیاست، جب شریعت و طریقت سے الگ ہو، تو نخوت و جبر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ تینوں عناصر ایک دوسرے کے مصلح اور سہارا ہیں۔ اور ان کے امتزاج سے دین کا اصل کمال اور نظام خلافت الٰہی کا ظہور ہوتا ہے اور یہی قران کریم کی نظرمیں تقویٰ کا اجتماعی حصول ہے۔
کامران بھائی نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ ان تینوں شعبوں یعنی شریعت، طریقت اور سیاست کے ساتھ اپنے آپ کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ اس پر بصیر نے وضاحت کی کہ حق جماعت میں یہ تینوں شعبے ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ان کے کارکنان دینی علوم میں ماہر ہوتے ہیں اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کی تربیت میں شرعی علوم کی گہرائی اور سمجھ بوجھ شامل ہوتی ہے، تزکیہ نفس پر مسلسل کام ہوتا ہے، اور ان کے علمائے ربانیین سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ان تینوں شعبہ جات کے ساتھ منسلک ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ حق جماعت کے ساتھ وابستہ رہے اور صحبت صالح اختیار کرے اور علماء سوء (یعنی غلط کردار کے علما) سے خود کو محفوظ رکھے۔ بصیر نے مزید وضاحت کی کہ علمائے ربانیین کے نزدیک صحبت صالح ضروری ہے، اور اعلیٰ اخلاق یعنی تقویٰ کا حصول بھی اسی صحبت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ ؒنے فرمایا: "إنما الأخلاق بالأحوال لا بالعلوم" یعنی اخلاق کا تعلق ماحول (صحبت) سے ہے، علم سے نہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے بھی صحبت صالح کی اہمیت پر زور دیا۔ آپؒ فرماتے ہیں: "لولا السنتان لهلك النعمان" یعنی "اگر وہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان (امام ابو حنیفہ ) ہلاک ہو جاتا۔" ان دو سالوں سے مراد امام جعفر صادقؒ کی صحبت میں گزارے ہوئے دو سال ہیں، جنھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی روحانی اور علمی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
آخر میں بصیر بھائی نے شفیق بھائی کے پہلے سوال کی طرف یاددہانی کرتے ہوئے اس گفتگو کا خلاصہ بیان کیا کہ تقویٰ کے حصول اور دین کے تمام شعبہ جات کو سمجھنے کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے۔ ایسی صحبت میں انسان دین کے مختلف پہلوؤں کو گہرائی سے سمجھتا ہے، اپنی ذات کی اصلاح کرتا ہے، معاشرتی و سیاسی بصیرت حاصل کرتا ہے، جس سے متوازن اور کامیاب شخصیت کی تشکیل پاکر دین اسلام کے نظام عدل کو قائم و غالب کرنے اور تقویٰ کے منفی شیطانی نظام اور اس کے نتائج یعنی معاشرتی بھوک و افلاس، ذلت و پستی اور ذہنی و سماجی غلامی کے خاتمے کے لیے ان تھک محنت کرتا ہے۔ کیوں کہ قرآن پاک اور بزرگان دین کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق کے بغیر عبادات بے اثر رہتی ہیں اور اعلیٰ اخلاق کا جب نظام قائم ہوگا تب انسان اپنے دل کو منفی جذبات سے پاک کرتا ہے اور اخلاص و محبت کے ساتھ عبادات کرتا ہے، تو وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔