چین یاترا
یہ مضمون چین کے اندر ہوئے مشاہدات پہ مشتمل ہے۔
چین یاترا
تحریر: ڈاکڑ ممتاز خان بلوچ۔راولپنڈی/چین
چائنا میں ملازمت کی وَجہ سے میری آمد22 مئی 2024ء کو بیجنگ میں ہوئی۔ یہاں آنے کے بعد کچھ مشاہدات ہوئے ان کو قلم بند کر کے دوستوں تک پنہچانا چاہتا ہوں۔
بیجنگ میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے جو چیز انسان دیکھتا ہے وہ شہری نظم اور انفراسٹرکچر ہے۔ یہاں کے اربن انفراسٹرکچر میں ایک مختلف چیز دیکھی، جس میں کمیونسٹ نظریات کا عکس ہے۔ مثلاً سڑکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک حصہ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لیے، دوسرا حصہ سائیکل ، 25 کلو میٹر سے کم موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کے لیے، جب کہ سڑک کا تیسرا حصہ کاروں اور تیز چلنے والوں کے لیے۔ سڑک کی اس تقسیم سے سیاسی نظریات میں مساوات کا اسلامک نظریہ بھی جھلکتا ہے کہ سماج پہ سب کا حق ہے، اورسماجی مساوات ضروری ہے۔
ریاستی، سماجی ادارے اور ان کا انفراسٹرکچر کھلا اور وسیع ہوتا ہے ، جگہ جگہ سڑکوں پہ پبلک ٹوائلٹ بنے ہیں اور وہاں ایک بندہ تعینات ہوتا ہے جو صفائی کرتا ہے اور وہ ٹوائلٹ عام طور پہ صاف ہی ہوتے ہیں۔ سماجی ریاست کے نقطہ نظر سے فرد سماج میں جانے سے پہلے ہاتھ صاف کرے تو ہاتھ دھونے کا بندوبست کیا جاتا ہے، لیکن اسلام تو فرد کی اپنی صفائی بھی چاہتا ہے۔ یہ کمی ان کے نظریے میں ہے تو ان کے پبلک ٹوائلٹ کے انفراسٹرکچر میں بھی نظر آئی۔ وہاں اپنی گٹ کی صفائی کے لیے لوٹے، شاور یا ٹشو کا انتظام نہیں ہوتا، البتہ ہوٹلوں یا دفاتر میں ٹشو کا انتظام ہوتا ہے۔ جہاں سماج کی صحت کے لیے ہاتھ دھونا ضروری ہے، وہاں فرد کی اپنی جینیٹل (اعضائے مخوصہ) کی صفائی، پانی سے ہی بہتر ہوتی ہے،لیکن ان کا نظا م نظر نہیں آیاہے۔ البتہ انڈین ٹوائلٹ کا کلچر ہر جگہ ضرور ہے۔
گھر چھوٹے (ایک سے دو مرلے)کے ہیں اور فیملی سائز بھی چھوٹا، میاں بیوی عام طور پہ دونوں جاب کرتے ہیں۔ فیملی کی میڈیکل انشورنس نہیں ہے، جب کہ دونوں افراد کو ان کی کمپنیاں انشورنس دیتی ہیں اور بچے کی انشورنس خود فیملی کو خریدنی پڑتی ہے۔ کچھ سال پہلے تک صرف ایک بچے کی اجازت تھی، جب کہ اَب ایک سے زیادہ بچے پیدا کر سکتے ہیں، لیکن ان کی ابتدائی تعلیم والدین کو خود ہی برداشت کرنا ہوتی ہے، البتہ پرائمری سے کالج کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے اور وہ سرکاری سکول اچھی تعلیم و تربیت کرتے ہیں اور ان کا معیار بہتر ہے۔ وہ صرف کتابی تعلیم نہیں دیتے، بلکہ بچوں کےانڈسڑی اور سماج کے مختلف جگہوں کے دورے ہوتے ہیں، جس سے ان کی تربیت مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً بیجنگ کے جس ضلع میں میری رہائش ہے، وہاں ایک بڑی لائبریری ہے، جس میں مَیں اکثر جاتا ہوں، تو وہاں روزانہ کسی سکول کا دورہ ہوتا ہے اور وہ بچوں کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم ہر سکول میں ممکن نہیں، جس ضلع کا آپ کا ڈومیسائل ہو، وہیں بچے پڑھ سکتے ہیں اور اس پہ سختی ہے۔
تونگزو بیجنگ لائبریری ایک وسیع لائبریری ہے، جس میں چائنیز، ریشین، مغربی (فرانسیس، برطانوی، اور امریکی) کتابیں جدید علوم پہ وافر مقدار میں میسر ہیں۔ لائبریری کے اندر کوئی پابندی نہیں، لائبریری کا ایک حصہ 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ ہر عمر کے لوگ لائبریری میں آتے ہیں اور ہر وقت بے تحاشا بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی سماجی اور علمی زندگی جڑی ہوئی ہے۔ لائبریری کے ساتھ ایک میوزیم بھی ہے، جس میں چائنیز تاریخی اشیا ملتی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے ، یہ اپنی تاریخ کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔
عام لوگ اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے افراد جلدبازی یا ہلڑبازی میں نہیں ہوتے ، بلکہ سکون اور ٹھہراؤ سے کام کرتے ہیں۔بات سکون سے سنتے ہیں ۔ وہ ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کمپنی یا ادارے کے قوانین کو بالکل نظرانداز نہیں کرتے ہیں۔ نیت ذاتی تعلقات یا اغراض کی نہیں ہوتی۔ اجنبی اور غیرملکی لوگوں کی مدد کرنا وہ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ بار بار مدد لینا چاہتے ہیں تو وہ مدد نہیں کرتے، جب تک محکمہ کی طرف سے ان کی ڈیوٹی نہ لگی ہو۔
سیکیورٹی کا نظام ہر جگہ ہے، گارڈ ہر ادارے میں موجود ہے جو غیرمتعلقہ فرد کو اندر جانے نہیں دیتا۔ البتہ اگر آپ کو کسی ادارے میں کام ہے تو ایک سرکاری طریقے کے مطابق اجازت لی جا سکتی ہے اور وہ آسانی سے مل جاتی ہے۔
بینکنگ سسٹم کافی حد تک کنڑول ہے اور سرمایہ کی منتقلی ایک مشکل کام ہے، بیرونی کرنسی کی تبدیلی کے لیے بینک اچھے خاصے قانونی تقاضے پورے کرتا ہے، جس کے بعد کرنسی کا تبادلہ ممکن ہوتا ہے۔ وی چیٹ اور علی پے دو ایپ ہیں، جس کے ذریعے چین کے اندر کوئی بھی چیز خریدی جاسکتی ہے ، لیکن اگر بینک جاکر کوئی رقم بھیجنا ہو تو اچھی خاصی فیس ادا کرنا پڑ جاتی ہے۔
دفاتر میں کام کرنے کا ماحول پر سکون ہے اور عام طور پہ دوپہر کو دو گھنٹے کی بریک ہوتی ہے، جس میں کھانا اور نیند بھی لے سکتے ہیں اور دوبارہ کام پہ آ جائیں۔ دفاتر میں ماہانہ تنخواہ کے علاوہ قومی تہواروں پہ سرکاری تحائف اور ملازمین کو بونس بھی دیے جاتے ہیں۔ اپنے آفیسر سے لوگ نہیں ڈرتے، بلکہ اس کے حکم کو ہر حالت میں بجا لایا جاتا ہے۔ باس کی موجودگی میں دبنے، ڈرنے یا اپنی رائے کو دَبانے کا کلچر نہیں، بلکہ باس کو باس کے بجائے لیڈر کہا جاتا ہے اور اس سے تعلقات میں غیرضروری فارمیلٹی (رسمیت) نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی باس کا زور آپ کو دَبانے پہ ہوتا ہے۔
غیرملکیوں کی تنخواہ چینی باشندوں سے زیادہ ہوتی ہے، البتہ غیرملکیوں پہ پریشر کم ہوتا ہے اور سیکیورٹی کا خیال رکھ کر ہی ان کو کاموں میں شامل کیا جاتا ہے۔ پہلے تو چائنا کی اپنی کمپنیوں میں غیرملکی افراد بہت کم تھے، لیکن اَب اس کی پالیسی بدل چکی ہے، بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت وہ کافی غیرملکیوں کو اپنے اداروں میں نوکری دے رہے ہیں۔ البتہ وہ اس معاملے میں کافی سنجیدہ ہیں کہ ایسے افراد نہ آ جائیں جو ان کے لیے خطرہ ہوں۔ اس لیے وہ اس معاملے کی چھان پھٹک خوب کرتے ہیں، تب ہی جاب پہ بلاتے ہیں۔
سیکیورٹی کا مطلب روزانہ بنیادوں پہ تنگ کرنا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی روزانہ بنیادوں پہ شک اور جاسوسی کر کے ملازمین کو ہراساں کرنا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی اور ہراساں کرنے میں کافی فرق ہے اور پاکستان کے مخصوص اداروں میں سیکیورٹی اور ہراساں کرنے میں فرق روا ر نہیں رکھا جاتا ہے ، جس کی وَجہ سے ملازمین کی ذہنی حالت ایک سوالیہ نشا ن ہے!
بجلی، پانی، گیس، ہیٹنگ کی بلنگ بہت زیادہ نہیں اور عام تنخواہ دار طبقہ بھی آسانی سے برداشت کرلیتا ہے۔ کھانے پینے کی تمام اشیا میں قیمتوں کا ایک توازن ہے، گوشت کے علاوہ تمام اشیا بہت سستی ہیں اور کئی اشیا تو پاکستان سے بھی زیادہ سستی ہیں باوجود اس کے چائنا میں فی کس آمدنی پاکستان سے کافی زیادہ ہے اور مطلق غربت بھی بہت کم ہے۔
چینی اپنی زبان کو براہِ راست کمپیوٹر میں ٹائپ نہیں کرسکتے ہیں۔ کمپیوٹر میں ٹائپ کرنے کے لیے وہ رومن میں لکھتے ہیں اور کپیوٹر اس کو چینی زبان میں لکھتا ہے۔ اگرچہ چین میں بھی بیرونی افراد نے حکومتیں بنائی ہیں، لیکن چینی ان کو ابھی قومی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں، جیسے چنگیز خان کے بیٹے قبلائی خان کی ریاست (یوآن سلطنت) جب کہ یہ اصول برصغیر کے ہندوشدت پسند سمجھ لیں تو ہندو مسلم نظریاتی مسئلہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔ اس اصول کی بنا پہ محمودغزنوی، دہلی سلطنت اور مغل ہندوستانی دور کی سلطنتیں ہیں اور اسی اصول اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پہ ہم دیوناگری اور عربی سکرپٹ کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں اور اردو و ہندی کو ملا کر ایک ہندوستانی زبان بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔