فرقہ واریت اور پاکستان
فرقہ واریت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ یا جماعت اپنے مخصوص عقائد اور نظریات کو دوسرے گروہوں سے برتر سمجھے اور ان کے خلاف عدم ِبرداشت کا رویہ اختیار کرے
فرقہ واریت اور پاکستان
تحریر : حذیفہ بٹ۔ نارووال
فرقہ واریت کی تعریف اور اس
کی نوعیت:
فرقہ واریت کا مطلب یہ ہے کہ
کوئی گروہ یا جماعت اپنے مخصوص عقائد اور نظریات کو دوسرے گروہوں سے برتر سمجھے
اور ان کے خلاف عدم ِبرداشت کا رویہ اختیار کرے،اپنے مسلک کو واحد حق سمجھتے ہوئے
دوسرے مسالک کو غلط یا گمراہ قرار دے۔
اس کے برعکس اختلاف رائے
بذاتِ خود کوئی منفی چیز نہیں ہے، کیوں کہ مختلف عقائد اور نظریات، فکری تنوع کا
حصہ ہوتے ہیں، جو انسانی ترقی اور مکالمے کو آگے بڑھاتا ہے،لیکن جب یہ اختلافات
نفرت، تعصب اور دشمنی میں بدل جائیں تو اختلافِ رائے فرقہ واریت کی شکل اختیار کر
لیتے ہیں۔مثال کے طور پر سوشل اِزم اور کیپٹل اِزم دو مختلف معاشی نظریات ہیں۔ اگر
کوئی شخص سوشل اِزم کا حامی ہو اور کیپٹل اِزم کی ہر اچھی بات کو رَد کر دے یا اس
کے پیروکاروں کو انسانیت کے دائرے سے نکال دے، تو یہ فرقہ واریت کی انتہا ہوگی۔
اسی طرح اگر کیپٹل اِزم کے پیروکار بھی سوشل اِزم کے نظریات کو بالکل رَد کر دیں
اور اس کے حامیوں کو دشمن سمجھیں، تو یہ رویہ بھی فرقہ واریت کی ایک شکل ہے۔
فرقے کیسے بنتے ہیں؟
فرقے ہمیشہ کسی خاص مسئلے کی
بنیاد پر بنتے ہیں، جب کوئی اہم سماجی یا معاشی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو مختلف لوگ
اس کے حل کے لیے مختلف نظریات پیش کرتے ہیں، جیسے معاشی مسائل کے حل کے لیے کوئی
کیپٹل اِزم کا حامی ہوتا ہے تو کوئی سوشل اِزم کا۔ ان اختلافات کے باوجود، اگر
فریقین کا مطمع نظر معاشرے کی بھلائی یا انسانیت کی ترقی ہو، تو یہ اختلافات ایک
دائرے میں رہتے ہوئے معاشرتی فلاح کا باعث بنتے ہیں ۔
مذہبی فرقہ واریت پاکستان کے
تناظر میں:
پاکستان میں مذہبی فرقہ
واریت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو مختلف تاریخی، سماجی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہے۔
مختلف مسالک کے حامی اور مذہبی گروہ اپنے اپنے عقائد کو دوسرے گروہوں سے برتر
سمجھتے ہیں، اور اکثر اوقات ان اختلافات کو کفر اور نفرت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ تب پیدا ہوا جب برطانوی سامراج نے ہندوستان میں "تقسیم کرو اور
حکومت کرو" کی پالیسی کی بنیاد پر سیاسی نظام کی تشکیل کی۔
برطانوی سامراج کا کردار:
برطانوی سامراج نے ہندوستان
میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنائیں۔ 1906ء سے پہلے تک
جب کوئی مسجد تعمیر کی جاتی تھی، تو اس کا مسلک ظاہر کرنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔
تاہم، 1906ء میں برطانوی حکومت نے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت ہر مسجد کی
رجسٹریشن کے وقت اس کا مسلک ظاہر کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ یہ قانون فرقہ واریت کو
ادارہ جاتی بنیاد پر فروغ دینے کے لیے متعارف کیا گیا تھا اور آج تک پاکستان میں
نافذ ہے۔
اسی طرح مذہبی جلوسوں کا بھی
آغاز کیا گیا، جن کا مقصد فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینا تھا۔ شیعہ اور سنی
جلوسوں کو جان بوجھ کر ایسے راستوں سے گزارا جاتا، جہاں مخالف فرقے کی آبادی زیادہ
ہو تاکہ جھگڑوں کے مواقع پیدا ہوں۔ برطانوی حکومت نے ان تنازعات کو بڑھانے کے لیے
مالی فوائد بھی فراہم کیے اور فرقہ وارانہ جھگڑے شروع کروا دیے۔
فرقہ واریت کا حل، قرآن کی
روشنی میں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
میں فرقہ واریت اور تقسیم کے خلاف واضح ہدایات دی ہیں۔ ایک آیت میں اللہ فرماتا ہے:
"آؤ
اس بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے"۔ (آل عمران: 64)
یہ آیت ہمیں اس بات کی تلقین
کرتی ہے کہ ہم اپنے مشترکہ مسائل پر غور کریں اور ان کا حل تلاش کریں۔ آج پاکستانی
معاشرہ غربت، بے روزگاری اور دیگر مسائل کا شکار ہے، جو ہر گھر کا مسئلہ بن چکے
ہیں۔ یہ اجتماعی مسائل ہیں اور موجودہ فرقہ وارانہ نظام ان مسائل کو مزید بڑھا رہا
ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے ،جب ہم اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر
مشترکہ مسائل پر توجہ دیں۔
ایک اور آیت میں اللہ فرماتا
ہے:
"اللہ
کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت بٹو"۔ (آل عمران: 103)
یہ آیت فرقہ واریت اور تقسیم
کے خلاف ایک مضبوط دلیل ہے۔ ہمیں اللہ کی رسی کو تھام کر اتحاد و اتفاق پیدا کرنا
ہوگا۔ فرقہ واریت اور تقسیم کی یہ شکلیں نہ صرف ہمارے معاشرتی نظام کو بگاڑ رہی
ہیں، بلکہ یہ اللہ کے احکامات کے بھی خلاف ہیں۔
انگریزی سامراجی نظام کی
باقیات اور مسائل:
آج بھی ہم انگریز کے بنائے
ہوئے نظامِ تقسیم اور حکمرانی کو اپنائے ہوئے ہیں، جو ہمیں ایک قوم کے بجائے مختلف
گروہوں میں بانٹ رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھی اس نظام کو جاری رکھنا ایک بڑی غلطی
تھی، اور اَب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس نظام کو رَد کریں اور ایک متحدہ قوم بن کر
ابھریں۔
حل اور راستے:
فرقہ واریت کے مسئلے کا حل
اسلامی تعلیمات اور قرآن مجید کی روشنی میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا
کہ اختلاف رائے بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اس اختلاف کو نفرت، دشمنی اور
تعصب میں بدلنے سے بچنا ضروری ہے۔ ہمیں باہمی احترام، مکالمے اور برداشت کی روشنی
میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
حاصل کلام:
پاکستان میں فرقہ واریت ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کی جڑیں تاریخی، سماجی اور سیاسی عوامل میں پیوست ہیں۔ برطانوی سامراج نے فرقہ واریت کو فروغ دیا اور ہم آج بھی اس کے اَثرات سے نبردآزما ہیں۔ تاہم، اگر ہم قرآن کی تعلیمات اور اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ایسے عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کو قائم کریں جس میں ہر انسان کو اس کے حقوق منصفانہ بنیادوں پرملیں اور ہر فرد کی مثبت رائے کا احترام کیا جائے اور سوسائٹی میں اتحاد اور اتفاق پیدا کریں، تو ہم فرقہ واریت کے اس مسئلے سے نکل سکتے ہیں اور ایک بہتر، مستحکم اور پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔