عائلی زندگی میں جنسی رویوں کے اختلاف کے مسائل اور ان کا حل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عائلی زندگی میں جنسی رویوں کے اختلاف کے مسائل اور ان کا حل

    عائلی زندگی میں مرد و عورت کے جنسی رویے اور ان سے جڑے اختلافات اکثر ازدواجی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مسائل اس قدر پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ۔۔۔۔۔

    By Asghar Surani Published on Oct 23, 2024 Views 645

    عائلی زندگی میں جنسی رویوں کے اختلاف کے مسائل اور ان کا حل

    تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں 

     

    عائلی زندگی میں مرد و عورت کے جنسی رویے اور ان سے جڑے اختلافات اکثر ازدواجی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مسائل اس قدر پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں گھر کی فضا بگڑ جاتی ہے اور زندگی میں تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔

     

    میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ گھر کی بربادی کی ابتدا عموماً جنسی رویوں سے ہوتی ہے۔ کچھ گھرانوں میں شوہر کو شادی کے فوراً بعد اولاد کی ضرورت نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ایک آباد گھر میں موجود ہوتا ہےاور عموماً مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے اسے یہ احساس نہیں ہوتا۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ جب چاہیں گے تو اولاد کےلیے پلان کرلیں گے۔ دوسری جانب، بیوی کی سب سے بڑی خواہش اولاد ہوتی ہے۔ وہ نئے گھر میں رہنے کے لیے اپنی کمزوری کو طاقت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔اور یہ کمزوری ان کے خیال میں بچوں کی پیدائش سے دور ہوسکتی ہے۔ فطری طور پر بھی عورتوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ گھر بسانے کا ہنر جانتی ہیں۔ اَب اگر شوہر کی خواہش کچھ اَور ہو اور بیوی کی الگ، تو گویا پہلا تصادم یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ یہ بالکل 180 ڈگری کا تصادم ہوتا ہے۔ ایک اولاد کی محبت میں پاگل ہورہی ہوتی ہےاور دوسرا ازدواجی تعلق کے دوران مختلف قسم کے حربے استعمال کرتا ہے، تاکہ اولاد نہ ہو۔ 

     

    ماہرہن نفسیات کے بہ قول یہ عورت کو پاگل کرنے کی پہلی ڈوز ہوتی ہے۔ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے ازدواجی تعلقات رکھنے سے عورت نہ جنسی طور پر مطمئن ہوتی ہے اور نہ ذہنی طور پر، کیوں کہ اس کے ذہن میں صرف اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ جس سے وہ ابھی تک محروم ہے۔ یہاں سے اس کے مزاج میں تغیر پیدا ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ خاندان کے ہر فرد کو کاٹنے پر دوڑتی ہے۔ یہ ڈیپریشن کی پہلی منزل ہوتی ہے۔

    کچھ گھرانوں میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، جہاں عورت ابھی پہلے بچے کی دیکھ بھال سے فارغ نہیں ہوتی کہ دوسرا بچہ آجاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں عورت جسمانی اور ذہنی طور پر وقفہ لینا چاہتی ہے۔ تاکہ اپنی صحت کو بہتر بنا سکے، لیکن دوسری طرف خاوند کو یہ باور کرایا گیا ہوتا ہےکہ زیادہ بچے پیدا کرنا سنت نبوی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے، نہ ان کی صحت اور تعلیم پر، اور بس بچے پیدا کیے جا رہے ہوتے ہیں۔خاوند ازدواجی تعلق قائم کرنے میں دیر کرنے کو گوارا نہیں کرتا ، چاہے عورت کی اپنی خواہش ہو یا نہ ہو۔

     

    یہ دو مختلف انتہائیں ہیں، اَب ان کے درمیان عدل کیا ہے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے کیوں کہ ازدواجی زندگی میں توازن اور انصاف کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ اس میں عدل کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کی خواہشات، ضروریات اور فطری میلانات کا احترام کیا جائے۔ نہ کہ صرف ایک فریق کی خواہشات کو ترجیح دی جائے، بلکہ دونوں کے درمیان افہام و تفہیم اور باہمی تعاون کے ساتھ درمیانی راستہ نکالا جائے۔

     

    اس مضمون میں ہم ان اختلافات کاجائزہ انسانی نفسیات، قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں لیں گے، تاکہ ان مسائل کی گہرائی کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ اور ان کا مناسب اور عملی حل تلاش کیا جا سکے۔

     

    نفسیات کے اصولوں کے مطابق مرد اور عورت کی فطرت اور ان کی جذباتی ضروریات میں فرق پایا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر کارل روجرز کے مطابق مردوں کی جذباتی دنیا اکثر جسمانی ضروریات پر مرکوز ہوتی ہے، جب کہ عورتیں زیادہ جذباتی اور تعلقات کی خواہاں ہوتی ہیں۔ مرد ابتدائی طور پر اپنی آزادی اور ذاتی ترجیحات کو اہمیت دیتے ہیں، جب کہ عورتیں ازدواجی تعلقات میں جذباتی قربت اور اولاد کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ ڈاکٹر ابراہم ماسلو کے مطابق "ضروریات کی درجہ بندی" کے نظریے میں بھی اولاد کی خواہش کو ایک اہم ضرورت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔جو انسان کی شخصیت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب عورت کو اولاد سے محروم رکھا جاتا ہے، تو وہ فطری طور پر جذباتی تناؤ کا شکار ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں منفی تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور یہ ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔

     

    اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کا مقصد نہ صرف جنسی ضروریات کی تکمیل ہے، بلکہ یہ معاشرتی اور جذباتی سکون حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کو "سکون" کا ذریعہ قرار دیا ہے:

    "اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی ہے" (سورہ الروم: 21)

     

    یہ آیت ازدواجی تعلقات میں محبت اور رحمت کو بنیادی عناصر کے طور پر پیش کرتی ہے، جو ازدواجی زندگی کے استحکام اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان اولاد کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ تو ان بنیادی عناصر میں کمی آ سکتی ہے۔جو ان کے رشتے کو کمزور بنا سکتی ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی نکاح اور اولاد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اس کے ساتھ بہتر سلوک پر زور دیا گیا ہے۔ 

    نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"خیَرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ" ترجمہ: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہو۔"

    اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بہترین انسان کی پہچان اس کے اپنے گھر والوں کے ساتھ سلوک سے منسلک کی ہے۔ شوہر اور بیوی کو اس معاملے میں ایک دوسرے کی فطری خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ جنسی رویوں میں جو سلوک ہے وہ انسان کو معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔

     

    تاریخ اسلام میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ زندگی میں جنسی تعلقات اور اولاد کے حوالے سے باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم کس قدر ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اور ان سے بھلائی کے ساتھ زندگی بسر کرو" (سورہ النساء: 19)

    یہ آیت اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق اور فطری ضروریات کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر شوہر کو ابھی اولاد نہیں چاہیے، تو اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بیوی کی بھی خواہشات ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح بیوی کو بھی شوہر کی ضروریات اور ترجیحات کو سمجھنا چاہیے اور اس پر دَباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔

     

    انسانی نفسیات، قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ سے ہمیں  یہ رہنمائی ملتی ہےکہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے جذبات اور خواہشات کا احترام کرنا چاہیے، اور ہر مسئلے کو باہمی تعاون اور تحمل سے حل کرنا چاہیے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کے لیے محبت اور رحمت کا جذبہ برقرار رکھیں، تو زندگی کے تمام مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں اور ایک خوش حال اور مستحکم عائلی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔خاندان کی اکائی اگر صحیح ہے تو یہ ایک بہتر سماج کی بنیاد بنتی ہے-

     

    Share via Whatsapp