سرمایہ دارانہ نظام کا جبر اور بکھرتا خاندانی نظام
خاندانی زندگی انسان کی بنیادی ضرورت اور معاشرتی استحکام کی ضامن ہے۔ اس کی بنیاد والدین، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے باہمی تعاون، محبت اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام کا جبر اور بکھرتا خاندانی
نظام
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
خاندانی زندگی انسان کی بنیادی ضرورت اور
معاشرتی استحکام کی ضامن ہے۔ اس کی بنیاد والدین، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے
باہمی تعاون، محبت اور احترام پر قائم ہوتی ہے۔ جب تک یہ روابط مضبوط اور فعال
ہیں، فرد کی زندگی میں اطمینان اور سکون کا عنصر برقرار رہتا ہے۔ تاہم دورِجدید کا
سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے خاندانی نظام کو
کمزور کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں افراد خصوصاً بزرگ والدین تنہائی اور بے بسی کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے معمولی باتیں، جیسے کسی کا دروازے پر دستک دینا یا
بات چیت کرنا، بے پناہ اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔
حفیظ میرا ایک بہترین دوست ہے جو حیات آباد میں
ہر گھر کو روزانہ اخبار پہنچاتا ہے۔ ایک دن وہ مجھ سے کہنے لگا، میں جن گھروں میں
اخبار دیتا ہوں، ان میں ایک چچا کریم بھی ہیں۔ چچا کریم ایک نہایت ضعیف العمر،
شریف النفس بزرگ ہیں ۔ ان کے گھر کے باہر بھی لیٹرز اور اخبار رکھنے کے لیے ایک
بڑا سا لیٹرباکس لگا ہوا ہے۔عموماً میں ہر روز اخبار اس لیٹر باکس میں ڈال کر چلا
جاتا ہوں، لیکن ایک دن جب میں ان کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ لیٹر باکس پہلے ہی
خطوط اور اخبارات سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے مجھے کئی بار ان کے گھر کی گھنٹی بجانی
پڑی۔کچھ دیر بعد چچا کریم آہستہ آہستہ دروازے کی طرف آئے۔ جب انھوں نے دروازہ
کھولا اور مجھے دیکھا، تو ان کے چہرے پر ایک عجیب سی خوشی اور سکون نظر آیا۔ میں
نے حیران ہو کر پوچھا، "چچا! آپ کا لیٹر باکس اتنا بھرا ہوا کیوں ہے؟ کیا آپ
اخبار نہیں اٹھاتے؟" وہ مسکراتے ہوئے بولے، "بیٹا میں نے یہ جان بوجھ کر
کیا ہے۔" میں نے مزید حیرت سے پوچھا، "لیکن چچا! ایسا کیوں؟ " چچا
کریم نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، "میں چاہتا ہوں کہ تم روزانہ مجھے ذاتی
طور پر اخبار پہنچاؤ یا گھنٹی بجا کر دروازے پر دے دیا کرو۔" میں نے کہا،
"چچا میں یہ ضرور کروں گا، لیکن کیا اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوگی اور وقت کا
زیاں نہیں ہوگا؟" انہوں نے افسردہ انداز میں کہا، "ہو سکتا ہے، لیکن میں
تمھیں اس کام کے لیے اضافی 500 روپے ہر ماہ دوں گا، صرف اس لیے کہ تم دروازے پر دستک
دیا کرو۔" یہ سن کر میرے دل میں ایک عجیب سی ہلچل ہوئی۔ میں نے پھر سوال کیا،
"لیکن چچا، آخر ایسا کیوں؟"
چچا کریم نے لرزتی آواز میں جواب دیا،
"حالیہ دنوں میری بیوی کا انتقال ہوا ہے اور میرا بیٹا بیرون ملک رہتا ہے اور
وہاں بچوں کے ساتھ اپنی مصروف زندگی میں مگن ہے۔ میں یہاں اکیلا ہوں اور میں یہ
بھی جانتا ہوں کہ میرا اخری وقت کبھی بھی آسکتا ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ کوئی
روزانہ میرے دروازے پر دستک دے، تاکہ اگر کبھی میں جواب نہ دوں، تو تم پولیس یا
میرے بیٹے کو اطلاع دے سکو۔" یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے،
اور مجھے محسوس ہوا کہ ان کی اس التجا کے پیچھے کتنی بے بسی اور تنہائی چھپی ہوئی
ہے۔انھوں نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ دیا، جس پر ان کے بیٹے کا بیرون ملک فون نمبر
لکھا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگے، "بیٹا، اگر کسی دن میں دروازہ نہ کھولوں، تو براہ
کرم اس نمبر پر کال کر کے میرے بیٹے کو مطلع کر دینا۔" یہ کہتے ہوئے ان کے
ہاتھ لرز رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں تنہائی کی تلخ حقیقت جھلک رہی تھی۔ میں نے
اس کاغذ کو مضبوطی سے تھاما اور وعدہ کیا کہ میں روزانہ دروازے پر دستک دوں گا۔
اس واقعے نے مجھے گہرائی سے سوچنے پر مجبور کر
دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام ہمارے بہترین خاندانی اور معاشرتی نظام کو کس طرح
کھوکھلا کر رہا ہے ۔ اور اس نظام نے خاندانی روابط کو کس قدر کمزور کر دیا ہے۔ چچا
کریم جیسے بے شمار بزرگ والدین اپنی زندگی کے آخری ایام میں تنہائی اور بے بسی کی
کیفیت میں مبتلا ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور مادی ترقی کی دوڑ نے ہمیں اپنے
پیاروں اور خاندانی ذمہ داریوں سے دور کر دیا ہے۔ اولاد بہتر زندگی اور روزگار کی
تلاش میں بیرونِ ملک چلے جاتےہیں، اور والدین تنہائی کے بوجھ تلے دب کر اپنی زندگی
گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ چچا کریم کی یہ کہانی دراصل ہمارے پورے معاشرتی نظام
کی عکاسی کرتی ہے، جو والدین کے حقوق اور ان کی دیکھ بھال سے بے پرواہ ہوتا جا رہا
ہے۔
اسلامی تعلیمات میں والدین کے حقوق کو بہت
زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور
ان کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بھی والدین کی خدمت کو بہترین عمل قرار
دیا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو مادہ پرستی میں الجھا کر والدین کی
اہمیت سے غافل کر دیا ہے۔ والدین کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا
اور انھیں یہ احساس دلانا کہ وہ غیراہم نہیں، بلکہ ہمارے لیے قیمتی ہیں، یہ سب ایک
مثالی خاندانی نظام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں۔ یہ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اولاد
کے ہوتے ہوئے ہمارے والدین اولڈ ایج ہاؤس میں رہائش اختیار کرلیں یا اپنے ہی
گھرمیں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔گزشتہ دنوں یہ خبراخبارات میں
شائع ہوئی کہ جاپان میں 37000 تنہائی کا شکار بوڑھے گھروں میں اکیلے موت کے مونہہ
میں چلے گئے۔
اس مسئلے کا معاشرتی حل اسی وقت ممکن ہے، جب ہم
اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں اور والدین کے حقوق اور ان کی خدمت کو اپنی اولین
ترجیح بنائیں۔ خاندانی استحکام اور والدین کی عزت و احترام کو فروغ دینے کے لیے
ضروری ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی والدین کے حقوق اور ان کی خدمت کی اہمیت سے
آگاہ کیا جائے۔اور خود اپنے عمل سے ان کے لیے رول ماڈل بنے۔ ہمیں اپنے والدین اور
بزرگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے، ان کی باتیں سننی
چاہییں، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے
ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم افراد کو بھی اپنے والدین سے باقاعدگی سے رابطہ رکھنا
چاہیے، ان کی صحت اور حالات کا خیال رکھنا چاہیے، اور جب بھی موقع ملے، ان کے ساتھ
وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
معاشرتی رویوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اسلامی
تعلیمات پر مبنی عادلانہ نظام کو سماج میں رائج کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، تاکہ
والدین کے حقوق، خاندانی استحکام اور معاشرتی انصاف کو دھرتی پر رائج کیا جا سکے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سسٹم کے ذریعے سے ایسےقوانین نافذ کرنے ہوں گے،جس میں
والدین اور بزرگ افراد کی عزت و احترام کو یقینی بنایا جائے اور انھیں معاشرتی
زندگی کا ایک اہم اور متحرک حصہ سمجھا جائے۔ اس طرح نہ صرف والدین کے حقوق کی
حفاظت یقینی بن جائے گی، بلکہ معاشرتی انصاف اور باہمی محبت و اخوت کو فروغ دینے
کا بھی باعث بنے گا۔یہ اقدامات والدین کی تنہائی اور بے بسی کو بھی کم کریں گے۔
خاندانی زندگی کے استحکام اور والدین کی خدمت سے نہ صرف دنیا میں سکون اور اطمینان
ملے گا، بلکہ آخرت میں بھی اس کا بہت بڑا اجر مل جائے گا ۔
چچا کریم جیسے بزرگ والدین کو تنہائی سے نجات دِلانا ہمارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے، جسے پورا کر کے ہم ایک بہتر اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں تعاون کر سکتے ہیں۔