معاشرتی مسائل کے جڑ کی تلاش ڈاکٹر ذاکر نائک کی رائے کا تجزیہ
معاشرتی مسائل کے جڑ کی تلاش ڈاکٹر ذاکر نائک کی رائے کا تجزیہ
معاشرتی
مسائل کے جڑ کی تلاش ڈاکٹر ذاکر نائک کی رائے کا تجزیہ
تحریر:
اصغر خان سورانی ، ممتاز الاسلام قمر
ڈاکٹر
ذاکر نائیک کو عالمی سطح پر اسلام کے حوالے سے ان کی معلومات، دلائل کے ساتھ
سوالات کا جواب دینے کی مہارت اور دینی و علمی موضوعات پر ان کی گفتگو کی وَجہ سے
جانا جاتا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کو آسان اور قابل فہم انداز میں پیش کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں، جس کی وَجہ سے دنیا بھر میں ان کے معتقدین کی ایک بڑی تعداد
موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے مختلف پروگرامز اور سوال و جواب کے سیشنز کو لاکھوں
لوگ دیکھتے ہیں اور ان سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔تاہم یہ بات بھی ایک حقیقت ہے
کہ جو مواد عوام تک پہنچایا جاتا ہے، اس میں کافی حد تک کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔
ویڈیوز کو اس طرح ایڈٹ کیا جاتا ہے کہ صرف مثبت پہلو، مدلل جوابات اور سائل کی
تسلی کو ہی نمایاں کیا جاتا ہے۔جب کہ کوئی بھی غیرضروری، غیرمنطقی یا متنازع بات
حذف کردی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب نہایت
اعتماد کے ساتھ دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کی بحث یا اختلاف کی کوئی گنجائش باقی
نہیں رہی۔
حالیہ
دنوں میں، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران مختلف شہروں میں
منعقدہ سیشنز میں ان کے ساتھ ہونے والے سوال و جواب کے سیشنز بھی خاصی توجہ کا
مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لکی مروت سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ محترمہ پلوشہ نے اپنے
علاقے کی معاشرتی صورتِ حال سے متعلق سوال کیا۔ طالبہ نے اپنے علاقے کی مشکلات اور
سماجی و معاشرتی مسائل کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی، جس پر ڈاکٹر صاحب کا ردِعمل کچھ
غیرمتوقع اور قدرے غصہ آمیز تھا۔ انھوں نے سائلہ کو مطمئن کرنے کے بجائے ادھر ادھر
کی باتوں میں اُلجھا دیا، جس سے نہ صرف طالبہ بلکہ ناظرین میں بھی مایوسی پائی
گئی۔
محترمہ
پلوشہ بہن کا سوال معاشرے کی حقیقت پر مبنی اور نہایت فکر انگیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ
ایک اسلامی ملک میں جہاں عبادات، نماز، اور دیگر دینی فرائض کی ادائیگی پر بھرپور
زور دیا جاتا ہے، وہاں انسانی جان، مال، اور عزت کی حرمت کیوں محفوظ نہیں؟ ایک
ایسا ملک جو کلمہ طیبہ کے نام پر قائم ہوا، اس میں قتل و غارت گری، سود خوری اور
عزتوں کی پامالی جیسے بڑے گناہ عام کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب ماضی کی تاریخ میں
پوشیدہ ہے اور ہمیں اس پر تفصیلی نظر ڈالنی ہوگی۔
تاریخ
کے اوراق پلٹتے ہوئے جب ہم برصغیر کی سیاست پر غور کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برعظیم کو اپنی نوآبادیاتی کالونی میں تبدیل کیا، تو اُس
نے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے کئی قوانین اور
پالیسیاں متعارف کرائیں۔ انگریزوں نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی
پالیسی اپنائی، جس کے تحت مختلف قومیتوں، مذاہب، اور طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف
کھڑا کر دیا گیا، تاکہ عوام میں انتشار اور نفرت کے بیج بوئے جا سکیں۔ اس کے ساتھ
ہی انھوں نے عدالتی اور تعلیمی نظام کو بھی تبدیل کر دیا تاکہ مقامی لوگوں کی سوچ
اور ان کے اخلاقی و معاشرتی معیار کو مغربی رنگ میں ڈھال کر غلامی کی زنجیروں کو
مزید مضبوط کیا جا سکے۔
اس
وقت کے علما اور حریت پسند راہ نماؤں نے انگریزوں کے ان اقدامات کے خلاف علمِ
بغاوت بلند کیا۔ امام شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے فتویٰ دارالحرب جاری کر کے یہ واضح
کر دیا کہ جب ایک قوم کی سیاست، معیشت اور عدالت پر غیرمسلم قابض ہو جائیں، اور ان
کے فیصلے ان کے دین کے بجائے بیرونی طاقتوں کے مفادات کی نمائندگی کریں، تو اُس
وقت عبادات بھی اپنی روح کھو بیٹھتی ہیں۔ ان کے مطابق جب تک اسلامی تعلیمات کے
مطابق عدل و انصاف قائم نہیں ہوتا، اُس وقت تک معاشرے میں دینی روح کو زندہ رکھنا
ممکن نہیں ہوتا۔ انگریزوں نے اس فتویٰ کو کمزور کرنے کے لیے علما کی ایک جماعت کو
شاہ عبد العزیز کے خلاف کھڑا کیا، تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ انگریزوں کی
حکمرانی اسلامی روایات کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ عبادات کرنے کی اجازت بدستور
موجود ہے،مگر امام شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے فرمایا کہ "جب تک تعلیم، عدالت
اور معیشت پر اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوگا، اُس وقت تک ظاہری عبادات بھی بے جان
رہیں گی، کیوں کہ ان میں روحِ دین کی کمی ہوگی۔"
سطح بیں علما اور سکالرز کی حالت بیان کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ نے کہا:
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
آج،
محترمہ پلوشہ کے سوال نے اسی تاریخی تناظر کو دہرا دیا ہے۔ ہم بہ ظاہر ایک اسلامی
ریاست ہیں، لیکن ہمارے قوانین، معیشت اور عدالتی نظام مغربی طرزِ فکر کے غلام ہیں۔
ہماری معیشت کا دار و مدار سودی نظام پر ہے، ہماری عدالتیں استعماری قوانین کے تحت
فیصلے کرتی ہیں اور ہماری سیاست چند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کے
گردگھومتی ہے۔ ان حالات میں معاشرتی بگاڑ، اخلاقی گراوٹ اور ظلم و ستم کا پایا
جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
ڈاکٹر
ذاکر نائیک اور ان جیسے دیگر سکالرز کو دیکھیں تو وہ معاشرتی حقائق اور تاریخی پس
منظر کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف عقیدے کے سطحی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی
گفتگو کا محور عبادات اور فقہی مسائل ہوتے ہیں، جب کہ معاشرت اور سیاسی نظام جو کہ
ایک اسلامی ریاست کی روح ہوتے ہیں، ان کے بیانیے سے خارج ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے
محترمہ پلوشہ کے سوال کے اصل مفہوم کو سمجھنے کے بجائے اسے عقائد اور ایمان کی
مضبوطی کے حوالے سے موڑنے کی کوشش کی، تاکہ سامعین کی توجہ ان مسائل سے ہٹائی جا
سکے، جن کا تعلق نظامِ ریاست، نظامِ تعلیم اور معاشی نظام سے ہے۔
درحقیقت
انگریز سامراج نے جو ذہنی غلامی قائم کی تھی، اُس کی جڑیں آج بھی ہمارے معاشرے میں
پیوست ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر مذہبی سکالرز، جو بہ ظاہر دین کے
نمائندے ہیں، اُس سوچ کے حامل نہیں بن پاتے جو کہ اسلامی ریاست کی حقیقی روح کو
سمجھنے اور اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ سکالرز عوام کو نماز، روزہ اور دیگر
اِنفرادی عبادات پر زور دینے کی ترغیب تو دیتے ہیں، لیکن وہ کبھی اس بات پر روشنی
نہیں ڈالتے کہ سودی نظام سے چلنے والی معیشت، غیراسلامی عدالتی نظام اور مغربی
تعلیم کی بنیاد پر کھڑا تعلیمی ڈھانچہ کیسے اسلامی معاشرت کی حقیقی روح کو مجروح
کر رہا ہے۔
ایسے
علما اور سکالرز درحقیقت سامراج کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد عوام کو
دینِ اسلام کے جامع اور مکمل نظام سے دور رکھنا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ہمارے معاشرے
میں ایک ظاہری مذہبی عملیت تو موجود ہے، لیکن وہ روحانی، معاشرتی اور سیاسی طور پر
بے جان ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس کی نشان دہی محترمہ پلوشہ نے اپنے سوال میں کی، اور اس سوال
کا صحیح جواب ہم تبھی تلاش کر سکتے ہیں، جب ہم دینِ اسلام کے سیاسی، عدالتی اور
معاشی نظام کو اپنائیں۔
قرآن
کریم اور احادیث میں بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ظاہری عبادات کو اگر دل کی
پاکیزگی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا تو وہ محض دکھاوا بن کے رہ
جاتی ہیں، اور ایسے افراد تباہی کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون میں
فرمایا ہے: "پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غافل
ہیں، جو دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں بھی دینے سے منع
کرتے ہیں۔"
ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دین خیرخواہی کا نام ہے"۔ صحابہ نے عرض کیا: "کس کے لیے؟" فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عوام کے لیے"۔ (صحیح مسلم)
اس
حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ کہ دین محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں، بلکہ پورے
معاشرے کی فلاح و بہبود، انصاف اور خیرخواہی کا نام ہے
اس
ضمن میں ہمیں ماضی کے عظیم راہ نماؤں، جیسے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، امام شاہ
عبد العزیزؒ، اور سید احمد شہیدؒ کی جدوجہد سے راہ نمائی لینی ہوگی، جنھوں نے نہ
صرف اسلام کی تعلیمات کو عام کیا، بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی اِصلاح کی
بات بھی کی۔ جب تک ہم ان راہ نماؤں کی روش پر عمل نہیں کرتے، اُس وقت تک نہ تو
معاشرتی سوالات کے درست جوابات مل سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اِس کھلے تضاد
سے نکل سکتا ہے۔