راہ فرار یا جہد مسلسل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • راہ فرار یا جہد مسلسل

    نوجوان کسی بھی قوم کا سب سےبڑا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔نوجوان قوم کے مستقبل کے معمار، قوم کی اُمنگوں کے ترجمان اور قوم کی اُمیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

    By منیب ظفر ستی Published on Oct 22, 2024 Views 422

    راہ فرار یا جہدِ مسلسل!

    تحریر: منیب ظفر ستی۔ کہوٹہ 

     

    نوجوانوں کی اہمیت:

    نوجوان کسی بھی قوم کا سب سےبڑا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔نوجوان قوم کے مستقبل کے معمار، قوم کی اُمنگوں کے ترجمان اور قوم کی اُمیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔یہ نوجوان ہی ہیں جو انسانی سماج کے جمود کو توڑ کر اس کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرتے ہیں۔ چاہے وہ محمد عربیﷺ کی قیادت میں مکہ کے نوجوان ہوں، ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کے نوجوان ہوں یا پھر امام خمینی کی قیادت میں ایران کے نوجوان ہوں ۔اقوام کی ترقی کا راز نوجوانوں میں بہتر سے بہتر سہولیات اور مواقع فراہم کرنے میں پوشیدہ ہے،جن اقوام نے اپنے نوجوانوں کی قدر وقیمت کو سمجھا اور ان پر انویسٹ کیا آج وہ اقوام اس کا پھل سمیٹ رہی ہیں اور اقوامِ عالم میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ 

     

    پاکستان کی آبادی دو تہائی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس نعمت سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے اور اس قوت کو تعمیر ملت کے لیے استعمال کرتے۔ نوجوانوں کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے،ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتے۔زراعت، صنعت اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے بہترین مواقع پیدا کرتے، جس سے سوسائٹی بہ طور مجموعی ترقی کرتی۔اس کے برعکس ہمارے ہاں ایسا تعلیمی نظام قائم کیا گیا جو دورِجدید کے تقاضوں سے عاری ہے ۔ایسا فرسودہ نظامِ تعلیم یہاں مسلط کیا گیا، جس کا مقصد عالمی طاقتوں کے لیے لیبرفورس تیار کرنا تھا۔ آج ہماری یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل گریجوایٹ جب ڈگری کی بنیاد پر کہیں ملازمت کے لیے اپلائی کرتا ہے تو اس کو پتہ چلتا ہے کہ اپنی زندگی کے قیمتی سال اور لاکھوں روپے لگا کر اس نے جو ڈگری حاصل کی ہے، وہ اس کے اندر ملازمت کے لیے درکار مہارت پیدا نہیں کرسکی۔ ہر سال یونیورسٹیز سے لاکھوں نوجوان گریجوایٹ ہوتے ہیں، لیکن یہاں کا نظام ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید اور مایوس ہوکر اپنے وطن کو الوداع کہنے پر مجبور ہے۔ 

     

    ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023ءمیں7 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔ ملک چھوڑنے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن میں 5534انجینئرز،1800 ایسوسی ایٹ انجینئرز ،2500 ڈاکٹرز،1200 الیکٹریکل انجینئرز،6500 اکاؤنٹنٹس، 2600 ایگریکلچر ایکسپرٹس، 1600 نرسز اور 21517 ٹیکنیشنز شامل ہیں۔ گیلپ کی جانب سے شائع کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کی دو تہائی اکثریت ملک چھوڑنے کو تیار ہے، جن میں سے 50 فی صد کبھی بھی واپس اپنے وطن نہیں آنا چاہتے۔پاکستانی نوجوانوں میں اس بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے کا رحجان بہ طور قوم ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

     

    حالات کے جبر کا شعور:

    اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان ملک چھوڑنے کا فیصلہ حالات کے جبر سے تنگ آکر کرتا ہے، لیکن ہمیں اس بات کا تجزیہ بھی عقلی اور شعوری بنیادوں پر کرنا چاہیے کہ کیا مسئلے کا بہتر حل راہِ فرار اختیار کرنے ہی میں پوشیدہ ہے؟ لانگ ٹرم میں کیا یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے ؟ کووڈ 19 کے بعد اقوام عالم کی معیشتیں جس ابتری کا شکار ہیں، کیا ان حالات میں وہ ایک لمبے عرصے تک تارکینِ وطن کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ دنیابھر میں بالعموم اور حالیہ دِنوں میں تارکینِ وطن کے خلاف برطانیہ میں ہونے والے مظاہرے بالخصوص مستقبل کے منظرنامے کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرتے ہیں۔ پردیس شاید سوشل میڈیا کی دنیا میں تو ایک بہت پرکشش زندگی معلوم ہوتی ہو، لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ بیرونِ ملک روانہ ہونے والوں کی اکثریت مختلف شعبوں میں درکار پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے محروم ہوتی ہے۔ لہذا وہ کسی بھی طرح کی ملازمت اختیار کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں، جہاں وہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں ۔تارکینِ وطن کی اکثریت ڈرائیور، ویٹرز،سیکیورٹی گارڈز جیسی نوکریاں کرنے پر مجبور ہے ۔ مزید یہ کہ انسان جس دھرتی میں پیدا ہوتا ہے، اس کی ہر ایک چیز اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے، جس سے وہ کٹ کر کبھی بھی ذہنی اور قلبی تسکین حاصل نہیں کر پاتا ۔ دیارِغیر میں آباد تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ 

     

    اپنی دھرتی سے تعلق اور اس کے تقاضے:

    انسان جس سماج میں پیدا ہوا، اس سماج کو لے کر انسان کے کچھ فرائض ہیں۔اس سماج نے بچپن سے لے کر جوانی تک زندگی کے ہر ایک قدم پر اس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا کبھی ماں باپ کی محبت کی صورت میں کبھی ایک شفیق اور مہربان استاد کی صورت میں تو کبھی ایک مخلص اور وفادار دوست کی صورت میں۔ اس سماج کو جہنم کی آگ میں جلتا چھوڑ کر محض اپنے اِنفرادی فائدے کے لیے راہِ فرار اختیار کرنا کسی صورت بھی انسان کے شایانِ شان نہیں۔ منسڑی آف اورسیز کے جانب سے سینٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 5 سالوں میں بتیس لاکھ چھہتر ہزار آٹھ سو اکسٹھ(3,276,861 )لوگ بیرونِ ملک روانہ ہوگئے جو کل آبادی کا 1.3 فی صد ہے ۔ ہم ایک وقت کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ بیرونِ ملک رہنے والوں کے لیے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں،لیکن کیا ملک کے 98 فی صد لوگوں کو جہنم میں جلتے چھوڑ کر صرف اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینا ایک درست رویہ ہے؟ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دُکھ اور تکالیف کا احساس ہی انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ بے روزگاری کسی شخص کا اِنفرادی مسئلہ نہیں ہے یہ ہم سب کا مشترکہ اجتماعی مسئلہ ہے۔ لہذا اس کا حل بھی اِنفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی سوچ پر مبنی ہونا چاہیے۔ مسلمان تو وہ ہے جو کل انسانیت کا درد محسوس کرتا ہو ۔وہ اپنے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے ۔تمام انبیاعلیہم السلام، حکما اور فقہا کی تعلیمات ہمیں یہی درس دیتی ہیں ۔

     

    آج ضرورت اس اَمر کی ہے کے نوجوان حالات سے گھبرا کر راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر انسانوں کو جلاوطن کرنے والے اس نظام کے خلاف ایک منظم، شعوری اور اجتماعی جدوجہد کریں۔ ملک کے وہ وسائل جن کا مالک اس دھرتی کا ہر ایک نوجوان ہے، انھیں قابض اشرافیہ کے تسلط سے آزاد کروا کر نوجوان خود اس کےمالک بنیں۔ راہِ فرار کے بجائے جہد ِمسلسل کا راستہ اختیارکریں، کیوں کہ زندگی جدوجہد کانام ہے!

    Share via Whatsapp