بچوں کی تربیت میں خاندانی نظام کا کردار و اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بچوں کی تربیت میں خاندانی نظام کا کردار و اہمیت

    بچوں کی تربیت میں خاندانی نظام کا کردار و اہمیت

    By Qamar ud din khan Published on Oct 16, 2024 Views 779

    بچوں کی تربیت میں خاندانی نظام کا کردار و اہمیت

    تحریر: انجینئر قمر الدین خان(راولپنڈی) 


     ماں کی گود وہ پہلی درس گاہ ہے، جہاں سے بچہ جو سیکھتا ہے وہی اَوصاف آگے عملی زندگی میں اُس کی شخصیت پر آشکارا ہوتے ہیں۔ اس لیے حکما فرماتے ہیں کہ بچے کو سات سال کی عمر تک روایتی تعلیم سے پہلے گھر کے اندر تعلیم و تربیت کا ماحول فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسلام کے دورِعُروج میں خاندان میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام موجود تھا،جہاں گھر کے بزرگ اور والدین بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ ماحول فراہم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ابتدائی تعلیم بھی گھر پر ہی دی جاتی تھی۔ 

    بچوں کو دینِ اسلام کی حقانیت، انبیاعلیہم السلام و صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدوجہد و قربانیاں،بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور دیگر تاریخی قصے کہانیاں سنائی اور پڑھائی جاتی تھیں،جس سے بچے کا دینِ اسلام سے حقیقی تعلق اور اپنے بزرگوں کی تاریخ سے لگاؤ پر اس کے اندر انسان دوستی، جرات، بہادری اور قائدانہ کردار جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی تھیں اور یہی بچہ بڑا ہوکر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لیڈرز گزرے ہیں، جنھوں نے انسانیت کی بہتری کے لیے انقلابی کردار ادا کیا، ان سب کی تربیت میں خاندانی نظام کا اہم کردار رہا ہے۔

    یورپ میں مشینی انقلاب کے بعد کارخانوں میں کام کرنے کے لیے سستی لیبر کی ضرورت پڑی تو عورت کو برابری کے حقوق اور انسانی آزادی کے نام پر گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر مرد کے ساتھ مزدور کی قطار میں لاکھڑا کیا۔ اگلے دور میں عورت کو معاشی آزادی کی آڑ میں اس سے مردوں کی طرح مختلف اداروں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یوں خاندانی نظام کی پہلی اکائی( گھر) کا نظام جو میاں بیوی پر مشتمل ہوتا ہے وہ بھی ٹوٹ گیا اور ماں باپ کے ہاتھوں بچوں کی پرورش اور گھریلو تربیت کے نظام پر گہرے اَثرات مرتب ہونا شروع ہوئے ۔

    آج دورِجدید میں چھوٹے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے ڈے کیئر اور پری سکولز جیسے ادارے قائم کیے گئے ہیں، جہاں بھاری فیسوں کے عوض بچوں کی جسمانی ضروریات کا تو شاید کسی درجے میں خیال رکھا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت سازی کے حوالے سے تربیت کا کوئی معقول انتظام موجود نہیں ہوتا۔ وہ بچہ جس کی عمر ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ رہ کر لاڈ پیار اُٹھانے اور کھیلنے کودنے کی تھی، وہ ڈے کیئر کے ملازمین کے ہاتھوں ایک مصنوعی ماحول میں پرورش پارہا ہوتا ہے۔ یوں بچہ ماں باپ کے پیار کی کمی کی وَجہ سے احساسِ محرومی، ڈر،  خوف اور چڑچڑا پن جیسی منفی صفات اپنے اندر سَمو لیتا ہے۔ 

    اگلے مرحلے میں سکول کے تعلیمی نظام میں بھی تربیت کا فقدان نظر آتاہے۔ وہاں اس کے دماغ میں علم اُنڈیلنے اور رَٹا لگانے پر ساری توانائیاں خرچ کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بچے سے بات چیت بھی مادری زبان کی بجائے غیرملکی زبان (انگریزی) میں کی جاتی ہے جو اس کے احساس و جذبات اور ننھے دماغ پر کافی گراں گزرتی ہے۔ اس لیے اس ماحول کا تربیت یافتہ بچہ بڑا ہوکر اعلیٰ انسانی اوصاف کا مالک ہونے کے بجائے بزدلی، تنہاپسندی اور اِنفرادیت جیسے منفی رویوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے جو یقینا ًسامراجی نظام کے لیے تو ایک اچھا کَل پُرزہ ثابت ہوتا ہے، لیکن سوسائٹی کے مسائل کو سمجھنے اور اس کے حل کے حوالے سے عملی کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔

    آج وطنِ عزیز پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غیرضروری اخراجات نے عوام کو معاشی مسائل میں جکڑ لیا ہے، جس کی وَجہ سے مرد اورعورت دونوں روزگار کے لیے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے آج یہاں بھی خاندانی نظام کی بنیادی اکائی( گھر) جو میاں بیوی کی اجتماعیت پر مشتمل ہوتا ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ماں باپ دونوں کی ملازمت کی وَجہ سے بچوں کی پرورش کے لیے مجبوراً ڈے کیئر کا انتخاب کرنا پڑ تا ہے۔ آج ہماری نسل کی پرورش و تربیت سرمایہ دارانہ نظام کے قائم کردہ ڈے کیئر جیسے اداروں کے رحم و کرم پر ہے ،جہاں سے تربیت یافتہ نسل قومی سوچ اور قائدانہ کردار سے عاری ہوتی ہے، بلکہ اس کا کردار استحصالی نظام کو مزید تقویت دینے میں قابل تشویش ہوتاہے۔

    بہ حیثیت مسلمان ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ اولاد کی تربیت میں خاندانی نظام کی کیا اہمیت ہے؟ اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کیوں ہماری سوسائٹی بچوں کو ڈے کیئر میں محرومی اور بزرگوں کو اولڈ ہومز میں تنہائی کے ماحول میں بھیجنے پر مجبور ہورہی ہے؟ کیا یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ یا پھر ہم جانے اَن جانے میں یورپ کی طرزِمعاشرت پر اپنے بَچے کُچے خاندانی نظام کو مکمل ختم کر کے مادرپدر آزاد نسل تیار کرنے کے درپے ہیں؟ جو آگے چل کر سامراجی نظام کی مشینری کے لیے اچھے کَل پُرزے ثابت ہوکر نظام ظلم کو مزید مظبوط کرے اور جس کی سوچ سوسائٹی کی تعمیر و ترقی کے برعکس اِنفرادیت پر مبنی ہو۔ یہاں تک کہ اُس کو اپنے خاندانی رشتوں کی پہچان اور اہمیت بھی جاتی رہے۔

    یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب ہمیں ڈھونڈ کر اُن کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ وگرنہ وہ دن دور نہیں، جب یہ نظامِ ظُلم ہمارے خاندانی نظام کو دِیمک کی طرح چاٹ کھائے گا، جس کی عملی شکل ہمیں آج یورپ اور امریکا کی ترقی یافتہ سوسائٹی میں بڑی واضح نظر آتی ہے۔ جہاں والدین نے بچوں کی تربیت کو سامراجی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ نتیجتاً اس نظام میں پرورش پانے والے بچے ہُوش سنبھالتے ہی ماں باپ کے ساتھ رہنے اور ان کی خدمت کرنےکو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور اِنفرادیت کی سوچ کے ساتھ اپنی ذاتی کامیابی ہی اِن کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ یوں وہ خاندان اور سوسائٹی کے لیے ایک مفید انسان بننے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وَجہ وہاں کے خاندانی نظام کی تباہی ہے جو بچوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار پر تربیت کا ضامن تھا۔ 

    خاندانی نظام کے تربیتی کردار میں فُقدان کی وَجہ سے اِنفرادیت اور خودغرضی کی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔        دینِ اسلام اجتماعیت پسند ہے۔میاں بیوی کے اجتماع سے لے کر پوری انسانیت کی اجتماعی تعمیر و ترقی کی بات کرتا ہے اور خاندان کے اجتماعی ماحول میں بچوں کی تربیت کا اعلیٰ نظام وضع کرتا ہے-

    آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم اِس استحصالی نظام کے اُن ہتھکنڈوں کو سمجھیں جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑیں کاٹ کر اِنفرادیت کی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بچوں کی تربیت میں خاندانی نظام کے کردار و اہمیت کو سمجھنے اور خاندانی نظام کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے شعور اور عملی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

    Share via Whatsapp