ایک بہو کی ڈائیری سے : مشکلات سے سیکھنے کی کہانی
زندگی کی راہوں میں مشکلات اور چیلنجز ہمیشہ ہمارے منتظر ہوتے ہیں، اور ان کا سامنا کرتے ہوئے ہم نہ صرف اپنے آپ کو جانچتے ہیں بلکہ اپنے اندر چھپے ......
ایک
بہو کی ڈائیری سے : مشکلات سے سیکھنے کی کہانی
تحریر:
محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
زندگی
کی راہوں میں مشکلات اور چیلنجز ہمیشہ ہمارے منتظر ہوتے ہیں اور ان کا سامنا کرتے
ہوئے ہم ناصرف اپنے آپ کو جانچتے ہیں، بلکہ اپنے اندر چھپے ہوئے اثاثے بھی دریافت
کرتے ہیں۔ میرے ذاتی تجربات نے مجھے سکھایا کہ سسرال کی مشکلات اور چیلنجز کے
باوجود ہم اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور خود کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ یہ تب
ممکن ہوتا ہے جب ہم مقابلے، مکالمے، حسد اور بے وَجہ نفرت کی عینک اُتار دیں۔ میری
ایک سہیلی اکثر کہتی ہے کہ ہمیں صرف ڈانٹ اور طعنے ہی ملتے ہیں۔ وہ بعض اوقات یہ
جملے دہراتی ہے کہ ہمیں تو صرف یہ سننے کو ملے ہیں:
• " سالن صحیح نہیں بنا، روٹی تو
تم نے کبھی صحیح پکائی نہیں۔"
• " صفائی ٹھیک سے نہیں ہوئی، یہ
برتن کیسے دھوئے تم نے؟"
• "تمھاری پسند تو بالکل اچھی
نہیں، کتنے تیز رنگ پسند کرتی ہو۔"
• "تمھارے میکے والوں نے تمھیں
لاڈ پیار دے کر تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔"
• "کرتی ہی کیا ہو، سارا دن تو
سوتی رہتی ہو، کام تو ہم نے کیا ہے اپنے زمانے میں۔"
• "نہ شکل ہے نہ پیسہ، تمھیں
غرور کس بات کا ہے۔"
• "بڑوں کو جواب دیتی ہو۔"
• "بھئی! تم میاں کے کپڑے دھوؤ،
استری کرو، کھانا پکاؤ، کیا میاں کے پیچھے پڑی رہتی ہو کہ کہاں جا رہے ہو، کہاں سے
آ رہے ہو۔"
• "تمھیں ماسی رکھنی ہے تو میکے
سے پیسے لے آؤ۔"
میں
اپنی سہیلی سے کہتی ہوں کہ یہ تصویر جو تم بنارہی ہو، یہ بالکل ادھوری رہے گی۔ جب
تک اس میں ایک اَور زاویہ شامل نہ کیا جائے۔ اور وہ زاویہ یہ ہے کہ ہم ان باتوں
اور تنقید سے کیا سیکھ سکتے ہیں، پھر دیکھو کہ کس طرح ہم گھر کو آباد رکھ سکتی ہیں
اور حاسدین کی شر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
میرے
لیے سسرال کی زندگی ایک سنہری موقع تھی، جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ سسرال میں بہت
ساری توقعات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان تجربات نے مجھے زندگی کی اصل
حقیقتوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ ساس کی تنقیدوں کے باوجود، میں نے سیکھا کہ
ہر وقت کی تنقید انسان کو کیسے کھوکھلا کر دیتی ہے اور میں نے اسے اپنی بہتری کے
لیے کیسے استعمال کیا۔ اور ہاں! ہمیں کیوں نہ مستقبل کے لیے ایسی مائیں اور نندیں
تیار کریں جو دوسروں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔ یہ سبق کہاں سے ملے گا؟ کیا یہ
سکول، کالج، یا معاشرتی ماحول میں نہیں آتا؟ کیا ان رویوں میں فرق سسٹم کے اَثرات
سے نہیں آیا ہے؟
میں
کہتی ہوں کہ یہ سیکھنا کہ دوسروں کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی خوداعتمادی قائم
رکھنا اور اپنی شخصیت کو بہتر بنانا کتنا ضروری ہے، یہ میرے لیے ایک بڑی کامیابی
تھی۔ ساس کی مشکلات نے مجھے یہ سکھایا کہ صبر اور تحمل کے ساتھ ہر صورت حال کا
سامنا کیسے کیا جائے اور اپنے دل کی صفائی کو کیسے برقرار رکھا جائے۔
سسرال
میں آکر میں نے یہ بھی سیکھا کہ ہر انسان کی اپنی خصوصیات اور صلاحیتیں ہیں جو اسے
ممتاز بناتی ہیں۔ دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا اور ان کی کمیوں پر توجہ دینا ایک
غیرضروری عمل ہے۔ اس کے بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کی خوبیوں کو سراہیں اور ان
کی مدد کریں۔ یہی ہماری حقیقی کامیابی ہے۔
زندگی
کے اس سفر میں، میں نے یہ بھی جانا کہ دل دُکھانا سب سے بڑا گناہ ہے، کیوں کہ دلوں
میں ہمارا رَب بستا ہے۔ مشکلات اور تنقیدوں کے باوجود ہم نے یہ سمجھا کہ اپنے دل
کو صاف رکھنا اور دوسروں کی مدد کرنا ہماری اصل کامیابی ہے۔ میں نےارادہ کیا ہے کہ
میں جب ساس بنوں گی تو میں کسی بہو کا دل نہیں دکھاؤں گی۔
سسرال
کی مشکلات نے مجھے یہ سکھایا کہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھنا اور دوسروں کی مدد
کرنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ سفر ایک مثبت تبدیلی کا باعث بنا اور مجھے ایک
مضبوط اور پر امید انسان بنایا۔ زندگی کے اسباق نے مجھے یہ سمجھایا کہ ہر چیلنج
میں سیکھنے کا موقع ہوتا ہے اور ہمیں ان مواقع کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا
چاہیے۔
ابو
امی کا گھر میرے لیے ایک کمفرٹ زون تھا۔ اس زون میں رہ کر میں نے کچھ خاص نہیں
سیکھا، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی ہمیشہ کمفرٹ زون سے نکل کر ہی ملتی ہے۔
خاوند کا گھر بہ ظاہر ایک جنت نظر آتا تھا، مگر حقیقت میں یہ ایک چیلنجنگ زون تھا۔
یہاں میں نے ہر کام سیکھا، مثلاً گھر چلانا، محدود وسائل میں اپنے چولھے کو برقرار
رکھنا اور دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرنا۔ اگر ریاست اور نظام عائلی زندگی کے
بارے میں تھوڑی سی توجہ دیں اور نئی نسل کو تعلیم دیں کہ عائلی زندگی معاشرتی اور
سماجی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے، تو مستقبل میں بہوؤں کو وہ مشکلات پیش
نہیں آئیں گی جو ہمیں پیش آئیں۔ میرا خیال ہے کہ بے مقصد زندگی اور کھالے پی لے
موج اُڑالے کے نعرے نے غور کرنے کی ہماری صلاحیت کچل کر رکھ دی ہے ۔اوپرسے بڑھتی
ہوئی مہنگائی نے انسانی مزاجوں پر بہت منفی اثر ڈالا ہے ۔
ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا بھول گیا ہے کہ دو وقت کی عزت کی روٹی میسر ہے ۔ جب تک ہم شکر اور شکریہ ادا کرنا نہ سیکھیں گے ۔زندگی بے ڈھب اور بے کیف رہے گی ۔ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہوگی کہ ان کی زندگی بامقصد ہو اور وہ مسائل پر جلتے کڑھتے رہنے کے بجائے گھریلو مسائل کےساتھ جینے کا سلیقہ پیدا کریں اور اجتماعی مسائل کا سبب بھی دریافت کریں، تاکہ جس وَجہ سے یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ سبب ختم ہوسکیں ۔ کسی بھی معاشرے کی اصل قوت خواتین کی گود میں پل کر جوان ہوتی ہے ،ہمیں اس سچائی کو منوانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ورنہ اپنی زندگی اپنی سوچ کے ہاتھوں یونہی جہنم بناتے رہیں گے۔