مسجد کا معاشرتی مقام اور اس کی عظمت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مسجد کا معاشرتی مقام اور اس کی عظمت

    وہ مرکز جو سماج کے جملہ مسائل اور ان کا حل پیش کرے اور افراد کی روحانی تربیت کا اہتمام کرے ایسے مرکز کو دینی زبان میں مسجد کہتے ہیں

    By محمد ندیم شہزاد Published on Oct 16, 2024 Views 302

    مسجد کا معاشرتی مقام اور اس کی عظمت

    تحریر: ڈاکٹر ندیم شہزاد۔ میانوالی 

     

     

    صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مسجد کا کلیدی کردار ہے، وہ مرکز جو سماج کے جملہ مسائل اور ان کا حل پیش کرے اور افراد کی روحانی تربیت کا اہتمام کرے، ایسے مرکز کو دینی زبان میں مسجد کہتے ہیں۔ 

    مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں "اگر جماعت اور مجمع کا فرق دیکھنا ہو تو بازار اور مسجد کو دیکھو، بازار میں بے پناہ لوگ ہوتے ہیں ان کے مقاصد، افکار اور اعمال جدا جدا ہوتے ہیں، جب کہ مسجد میں اجتماعیت نظر آتی ہے۔ مساجد اللہ کا گھر ہوتی ہیں، جہاں کندھے سے کندھا ملا کر محمود و ایاز بھی خداپرستی کا وصف پیدا کرکے انسانی مساوات و دوستی کا بہترین درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 

     

    مساجد اور غلبہ دین کا نظریہ 

    مساجد چوں کہ بہترین سماجی مراکز ہوتی ہیں، اس لیے یہاں سے دین کے غلبے کے نظریہ کا شعور حاصل کرنے والے لوگ ماہرشریعت، طریقت، سیاست اور ماہرین معیشت بنتے ہیں۔ مساجد ہی معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام اور ہمہ وقت اس کی حفاظت و نگرانی کی ذمہ دار بھی ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں مسجد نبوی کا کردار قائدانہ ہے، جہاں بین الاقوامی سطح کی انقلابی جماعت کی تربیت ہوئی، جس نے آگے چل کر عرب و عجم میں دین کے عادلانہ نظام کو غالب کیا، انسانوں کو غلامی سے نکالا اور انسانیت کے فطری ارتقا کو جاری و ساری رکھا۔

     

    پاکستان میں مساجد کی صورتِ حال 

    1947ءمیں جب پاکستان قائم ہوا، مشرقی اور مغربی پاکستان کو ملا کر مساجد کی تعداد 247تھی اور اَب 2024ء میں تعداد جیو ٹیگنگ سے بھی زیادہ ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جیو ٹیگنگ 2016ء کے مطابق صوبہ پنجاب میں موجود مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعداد 48 ہزار 720 تک پہنچ چکی ہے۔ پورے ملک میں تمام مسالک کی مساجد کی تعداد 43ہزار 131، امام بارگاہوں کی تعداد 41ہزار 42، قادیانیوں کی عبادت گاہیں 183، بہائیوں کی 5، بوہرا اور اسماعیلی فرقے کے جماعت خانوں کی تعداد 23، ہندوؤں کے مندر 15، گرجا گھروں کی تعداد 1182 اور گوردواروں کی تعداد 31 ہے۔ پنجاب میں بریلوی مسلک کی مساجد کی تعداد 27 ہزار 131 ہے۔ جن میں اے کیٹیگری کی 327، بی کیٹیگری کی 1213 اور سی کیٹیگری کی تعداد 25 ہزار 591 ہے۔ دیوبندی مسلک کی مساجد کی تعداد 9 ہزار 29 ہے، جن میں اے کیٹیگری کی 315، بی کیٹیگری کی 674 اور سی کیٹیگری کی 8040 مساجد ہیں۔ اہل حدیث مسلک کی مساجد کی تعداد 4ہزار 490 ہے، ان میں اے کیٹیگری کی 68، بی کیٹیگری کی 252 اور سی کیٹیگری کی 252 مساجد ہیں، فقہ جعفریہ مسلک کی مساجد کی تعداد 2155 ہے، جن میں اے کیٹیگری کی 144، بی کیٹیگری کی 175 اور سی کیٹیگری کی 1834 مساجد ہیں۔ 

     

    کیٹیگری اے: بڑی مساجد جن میں گنجائش 500 نمازیوں سے زیادہ

    کیٹیگری بی: درمیانی مساجد گنجائش 100-500

    کیٹیگری سی: چھوٹی مساجد گنجائش 100 سے کم

     

    اسلام آباد پولیس کی مرتب کردہ ایک فہرست کے مطابق صرف دارالحکومت میں 562 مدارس ہیں۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ تجزیہ کار شفقت منیراحمد کے مطابق دارالحکومت کے مدارس میں زیادہ تر طلبا کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے دور دراز اور غربت زدہ علاقوں سے ہے اور ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے انتہائی غریب اور بہت ہی کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین  کے مطابق کچھ علما مقبوضہ زمینوں پر مساجد کی تعمیر کو جائز قرار دینے کے لیے قانون اور اسلامی تعلیمات کی 'غلط تشریح‘ بھی پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں مدرسے دنیا میں عسکریت پسندی برآمد کرنے کے نام سے جانے پہچانے جانے لگے ہیں،مگر داخلی سطح پر انھیں ایک سماجی ویلفیئر نظام کا حصہ تصور کیا جاتا رہا ہے، کیوں کہ وہ ہزاروں غریب بچوں کو مفت تعلیم اور کھانا فراہم کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ چپے چپے پر مسجد قائم ہے اور بیش تر مساجد چندوں پر یا مقامی حضرات کے تعاون سے چلتی ہیں، کم تنخواہ پر بھی ان مساجد کا نظام قائم ہے، لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہر مسجد کا امام اپنا نظریہ اور فکر رکھتا ہے یا فرقہ واریت کا ایک گڑھ ہے، اس کے علاوہ کوئی چندہ زیادہ دے دے تو امام اس کے زیر اثر آجاتا ہے، اتنی مساجد میں درس و وعظ، علم و دانش کی کتب ہونے کے باوجود نظم و ضبط کی کمی ہے۔ آذان و روزہ کے اوقات میں اختلاف ہے، طریقہ نماز میں اختلاف کی وَجہ سے کوئی امام دوسرے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، گویا ایک کا خدا اور ہے اور دوسرے کا خدا اور..

     

    قرآن مجید میں پانچ مساجد کا ذکر ہے

    1۔ مسجد الحرام (جس کی بنیاد خالص توحید اور شرک سے پاکی پر رکھی گئی)

    2۔ مسجد اقصیٰ (مسجد حرام کے چالیس سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کی تعمیر کو مکمل کیا، معراج میں حضور کو سیر کرائی گئی اور ہجرت کے بعد شروع زمانہ میں مدینہ منورہ  میں اس کو قبلہ بنایا گیا)

    3۔ مسجد قبا (جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی)

    4۔ مسجد نبوی (سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔)

    5۔ مسجد ضرار (جس کی بنیاد کفر پر رکھی گئی تھی اور مقصد مسلمانوں میں تفرقہ بازی و تفریق کو فروغ دے کر ان کو نقصان پہنچانا تھا۔)

    غلبہ دین کے دور میں انسانیت کی راہ نمائی اور اخلاق کی تربیت مسجدوں میں ہوتی تھی، مگر آج کے زوال پذیر دور میں مساجد میں وہ نظریہ نہیں، قومی و ملی پالیسیوں پر نظر نہیں، دشمن کے ناپاک عزائم کی خبر نہیں، اجتماعیت کا شعور نہیں، پروپیگنڈا کی شکار ہیں، مادیت پرستی کے دَباؤ میں اُلجھ کر حکمت عملی اور انسانی ہمدردی کی سوچ سے عاجز و قاصر ہیں، بلکہ ان باتوں کو دنیاوی باتیں کہہ کر صرف عبادات تک خود کو محدود کرلیا ہے۔

    مولانا شاہ الیاس دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ہماری مساجد مسجد نبویﷺ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کا کردار بھی مسجد نبوی کے کردار جیسا ہونا چاہیے۔ مسجد کیا ہے؟ یہ اعلیٰ اخلاق کے غالب کرنے کا مرکز ہے، بے حیائی اور برے اخلاق کے مٹانے کا مرکز ہے اور سچائی، عدل و انصاف کا معاشرہ پیدا کرنے کا مرکز ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم پر بازار کی محبت غالب آجائے گی تو مسجد مغلوب ہوجائے گی۔ آج مسجدیں تو عالی شان تعمیر ہیں، مگر ان سے اعلیٰ کردار کے لوگ پیدا نہیں ہورہے، آج کے امام بہترین واعظ تو ہیں، مگر بہترین انتظامی افسر نہیں، دینی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

     

    عصر حاضر میں مساجد کا مطلوبہ کردار

          اس کائناتی نظام میں موجود کہکشائیں، چاند سورج اور ستارے بغیر کسی بگاڑ کے کام کرتے ہیں، نہ چاند کو مجال کہ سورج کو آپکڑے اور نہ سورج اپنے مدار کو چھوڑ کر کسی دوسرے ستارے کے مدار میں چلا جائے، اسی طرح مساجد کا کردار ہم کنٹرول پینل کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

     

    ایک کنٹرول پینل کئی طریقوں سے سسٹم مینجمنٹ کو بہتر بناتا ہے:

    1۔ سنٹرلائزڈ انٹرفیس: کنٹرول اور نگرانی کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا، مساجد اگر ایک نظریے پر ہوں اور ایک صحیح ادارے کے کنٹرول میں کام کریں تو اس سے بڑی قوت پیدا ہوتی ہے، مسجد ایک چھوٹے سے چھوٹے علاقے کے لوگوں کی شناخت اور مسائل سے باخبر ہوتی ہے۔

    2۔ ہموار عمل: معمول کے کاموں اور کام کی روانی کو خودکار کرنے میں اور اخلاقیات کو بہتر بنانے میں مسجد کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

    3۔ اطلاعات کی فوری رسائی: نظام کے اہم اجزا کی عوام تک تیز رسائی فراہم کرنا، مثلاً مختلف اعلانات، وبائی امراض سے بچاؤ کی پلاننگ، وکسینیشن وغیرہ مساجد کے ذریعے آسان ہو جاتا ہے۔

    4۔ ریئل ٹائم مانیٹرنگ: ریئل ٹائم مانیٹرنگ سے مراد اعداد و شمار، واقعات، معاملات کی فوری کھوج، ردعمل اور اصلاح، کارکردگی، سلامتی اور فیصلہ سازی کو بہتر بنانا، فوری مسئلے کا پتہ لگانا، پھر اس کا حل اور بہتر سیکیورٹی، فیصلہ سازی کے تمام امور مساجد سے زیادہ مؤثر طریقے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    5۔ اگر حالات کنٹرول سے باہر معلوم ہونے لگیں تو بالائی منتظمین کو مسائل یا بے ضابطگیوں کے بارے میں مطلع کیا جاسکتا ہے۔

    6۔ تجزیہ اور خرابیوں کا سراغ لگانے کے لیے سسٹم کی سرگرمیوں کو باہم رسد پہنچانے کا بہترین ذریعہ مسجدوں کی انتظامیہ ہو سکتی ہے۔

    7۔ تشخیصی آلات: سسٹم کا تجزیہ اورحکمرانوں کی غلطیوں کی نشان دہی پھر ان کو درست سمت دینا، برطرفی اور سزاؤں کے معاملے میں بھی مسجد بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

     

    ہر مسجد کو اپنا کردار مسجد نبویﷺ کی طرح ادا کرنا چاہیے۔ دعوت اسلام، تعلیم و تربیت اور تزکیہ باطن بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ معاشرے سے ظلم کے خاتمے اور انسانیت کو قائم کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ مسجد اسلام کی اجتماعی زندگی کا اہم مرکز ہے، محبت اور ہمدردی کی روح ہے، خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

     

    ایک مدرسہ ایک تربیت گاہ ہے، اتحاد اور اخوت کی علامت ہے۔ اَب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مسجد اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے تو اس کا سبب دین اسلام کے سماجی نظام کا نہ ہونا ہے۔ اگر موجودہ دور میں یہ کام مساجد میں ممکن نہیں تو پھر کالج و یونیورسٹیز، سکولوں کی کینٹینوں میں، محلے کی بیٹھکوں میں، ہوٹلوں پر چائے خانوں میں دعوت دے کر اسلام کے نظام کو پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جا سکتا ہے، نظام اسلام قائم کرنے کے ممکنہ طریقہ کار تلاش کیے جاسکتے ہیں اور مساجد کے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔


    Share via Whatsapp